میرپور سے برطانیہ تک کا سفر


غربت تھی لیکن غیرت تھی اور جوان خون کافی گرم تھا۔ مالک کی غلط بات برداشت نہ ہوئی تو میں نے آگے سے جواب دے دیا۔ جواب سن کر مالک نے مجھے تھپڑ مار دیا۔ بیکری کے مالک کے رشتہ دار ملازم نے کوئی چیز چرائی جس کی شکایت میں نے مالک سے کی تو الٹا مالک نے مجھے تھپڑ مار دیا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ میں سرخ گال کے ساتھ باہر نکل کر سوچنے لگا کہ میری صحیح بات بھی اس لیے غلط ہے کیونکہ میں غریب ہوں۔ یہ سوچ کر میں بیکری سے باہر نکلا اور دل میں تہیہ کر لیا کہ اب میں بہت سارا پیسہ کماؤں گا۔

میں بیکری کی نوکری چھوڑ کر گھر آ گیا۔ میرپور کے پرانے شہر میں میرے والد مسجد میں پانی ڈالتے تھے اور میں اور میرا بھائی اس کام میں ان کی مدد کرتے تھے۔ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ میں شام کو ایک بیکری میں بھی کام کرتا تھا۔ کچھ دن ایسے ہی بے کاری میں گزرے۔ آمدنی کی ذریعہ بند ہو گیا تھا اور پیسہ کمانے کی کوئی اور سبیل نظر نہیں آ رہی تھی۔ ایک دن محلے کے ہی ڈاکٹرصاحب نے پوچھا کیوں میاں! کچھ کام وغیرہ کرتے ہو، آج کل فارغ دکھائی دیتے ہو۔ میں نے ان کو نوکری چھوڑنے کی وجہ بتائی تو انہوں نے کہا کہ کل میرے کلینک آ جانا۔ دوسرے دن میں ان کے کلینک میں گیا تو انہوں نے مجھے اپنے ہیلپر کے طور پر رکھ لیا۔ اب میں صبح کالج جاتا اور دوپہر سے شام تک ان کے ساتھ کلینک پر کام کرتا۔

یہ کہانی ہے برطانیہ میں رہنے والے میرپور کے ان ہزاروں تارکین وطن میں سے ایک صاحب کی جو پچاس کی دہائی میں برطانیہ آئے۔ اپنی محنت اور ہمت سے ایک ایسے ملک میں اپنی پہچان بنائی جس ملک کی نہ تو وہ زبان جانتے تھے اور نہ ہی اس کی ثقافت اور رہن سہن کے طریقوں سے روشناس تھے۔ برائے نام تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نا مساعد حالات میں انہوں نے شبانہ روز محنت سے کام کیا اور ساتھ تعلیم بھی حاصل کی۔ ستاسی سالہ محمد ابراہیم چوہدری کا کہنا ہے کہ میں اور میرے جیسے ہزاروں پاکستانی تارکین وطن ہی دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کو نئے سرے سے تعمیر کرنے والے معمار ہیں۔

اپنی کہانی سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ 1954ء کی بات ہے۔ ان دنوں میرپور شہر سے لوگ برطانیہ جانا شروع ہو گئے تھے۔ اس کے لئے پندرہ سولہ سو روپے خرچہ آتا تھا جو ان دنوں ایک بہت بڑی رقم تھی۔ اتنی بڑی رقم اکٹھی کرنا ان دنوں جان جوکھوں کا کام تھا۔ میں نے بھی برطانیہ آنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیے جس کے لئے نوکری کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری بھی شروع کر دی تھی۔ مجھ پر پیسا کمانے کے لئے برطانیہ جانے کی دھن سوار ہو گئی تھی۔ پانچ سال تک میں نے دن رات محنت کر کے میں نے سترہ سو روپے جمع کر کے ایک ایجنٹ کو دیے اور پچاس کی دہائی کے آخری سال میں برطانیہ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔

برمنگھم کے ایک نزدیکی قصبے میں ٹرینٹ برج نام کی ایک فونڈری میں مجھے کام مل گیا۔ فونڈری کا کام انتہائی سخت تھا۔ دن کو فولاد اٹھا اٹھا کر ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے۔ ایک ہفتے میں ہم چونسٹھ گھنٹے کام کرتے تھے جس کی اجرت سات پونڈ اور ستر پینیاں ہمیں ملتی تھی۔ رات بھر ہاتھوں کی ٹکور کرتے اور اگلے دن ان چھالوں پر پٹیاں لپیٹ کر پھر کام پر حاضر ہو جاتے تھے۔ چار ماہ بعد رمضان کا مہینہ آیا۔ میں رمضان کے پورے روزے رکھتا تھا۔

فونڈری میں انتہائی مشقت کا کام ہونے کی وجہ سے میں نے اپنے فورمین سے روزے رکھنے کے لیے ایک ماہ کی چھٹی مانگی تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ کہنے لگا کہ ابھی تو تم نے نوکری شروع کی ہے اس لئے ایک ماہ کی چھٹی نہیں مل سکتی۔ پھر مسلمانوں کے بارے میں کافی برا بھلا کہا جو مجھے بہت برا لگا۔ میں نے غصے میں قریب پڑا بیلچہ اٹھا لیا۔ وہ مجھ سے ڈر گیا اور مجھے فونڈری کے جرمن منیجر چارلس براؤن کے پاس لے گیا۔ منیجر نے مجھے کہا کہ تمہیں چھٹی نہیں مل سکتی اگر روزے رکھنے ہیں تو ہمت کرو اور ساتھ کام بھی کرو۔

پھر کہنے لگا کہ تمہارے مسلمان بھائی داڑھیاں رکھتے ہیں اور کلبوں میں جا کر شراب پی کر ناچتے بھی ہیں۔ تم لوگ گوریوں کے ساتھ پھرتے ہو اور روزوں کے بہانے چھٹی مانگتے ہو۔ اگر روزے رکھنے ہیں تو نوکری چھوڑ دو۔ میں اس کی باتوں سے بہت آزردہ ہوا اور جوش میں آ کر نوکری چھوڑ دی اور گھر آ گیا۔ اس گھر میں ہم پندرہ آدمی رہتے تھے۔ میں نے رمضان میں پہلی سحری کو اٹھ کر روزہ کے لیے سحری بنانی شروع کی تو دو تین اور لوگ بھی اٹھ گئے اور میرے ساتھ روزہ رکھنے لگے۔ میں نے رمضان کے پورے روزے رکھے، گھر میں فارغ رہنے کی وجہ سے جو جمع پونجی تھی وہ ختم ہو گئی۔

رمضان ختم ہونے کے بعد میں فونڈری میں واپس گیا تو انہوں نے مجھے نوکری نہیں دی کہ ان کے پاس اب جگہ نہیں ہے۔ اسی دوران میں نے اپنے ایک عزیز کو بریڈ فورڈ خط لکھا کہ میری نوکری ختم ہو گئی ہے، ان دنوں بے روزگار ہوں۔ اگر آپ اپنے شہر میں کوئی کام دلا سکو تو میں بریڈ فورڈ آ جاؤں۔ جواب میں انہوں نے مجھے نہیں پہچانا اور اپنا پورا تعارف اور پاکستان میں والدین کا تعارف کروانے کو کہا۔ میں نے انھیں جواب دیا کہ جب میں مسجد میں پانی ڈالنے جاتا تھا، آپ اس وقت سڑک پر کام کر رہے ہوتے تھے۔

وہ اس بات سے ناراض ہو گئے اور خط کا جواب نہیں دیا۔ مجھے ان کے پہچاننے سے انکار پر بہت مایوسی ہوئی۔ جہلم کے خواجہ لطیف ہمارے ساتھ ہی گھر میں رہتے تھے انہوں نے مجھے بیروزگار دیکھا، تو سبب پوچھا میں نے پورا واقعہ سنایا تو اگلے دن وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور اپنے ساتھ فیکٹری میں کام پر لگوا دیا۔ ساتھ ہی مجھ سے وعدہ لیا کہ میں کسی کو بتاؤں گا نہیں کہ انہوں نے مجھے نوکری دلائی ہے۔

برمنگھم کا علاقہ ان دونوں بلیک کنٹری کہلاتا تھا کیونکہ یہاں بہت سی فولاد کی فونڈریاں اور دوسری فیکٹریاں تھیں جن کی چمنیوں سے ہمہ وقت دھواں نکلتا رہتا تھا۔ مجھے بھی ایک سٹیل فیکٹری میں نوکری ملی تھی تھی جس میں سٹیل کے پائپ بنتے تھے۔ چونکہ میں بڑا محنتی اور دل لگا کر اپنا کام کرتا تھا یہاں بھی میں نے بہت محنت سے کام کیا۔ جس وجہ سے دو ماہ میں ہی میں اپنے فورمین کی نظروں میں آ گیا۔ اس دوران تین چار اور پاکستانی بھی فیکٹری میں ملازم ہو گئے۔

اس فیکٹری میں چار پاونڈ ہفتے کی مزدوری ملتی تھی لیکن میں روزانہ دس گھنٹے کام کرتا تھا اس لئے اور ٹائم کی وجہ سے میں آٹھ نو پاونڈ ہفتے کے کما لیتا تھا۔ بچپن میں والد صاحب نے مجھے نماز کا عادی بنا دیا تھا اس لئے میں فیکٹری میں شفٹ کے دوران ظہر کی نماز پڑھتا تھا جس میں پندرہ بیس منٹ لگ جاتے تھے۔ میرے دیکھا دیکھی دوسرے پاکستانی بھی نماز پڑھنے لگے۔ وہ نماز کے بعد سگریٹ پیتے اور باہر بیٹھے رہتے۔ ایک دن فورمین نے ہمیں ڈیوٹی کے درمیان نماز پڑھنے سے منع کیا اور فیکٹری کے مالک کے چھوٹے بھائی اور فیکٹری کے منیجر کو رپورٹ کر دی۔

منیجر نے اگلے دن ہمیں اپنے پاس بلایا اور کہا کہ کام کے اوقات میں آپ عبادت نہیں کر سکتے۔ میں نے انھیں اپنی نماز کے اوقات کے بارے میں بتایا اور تحریری درخواست دی کہ نماز پڑھنے کے اوقات کی اجرت وہ میری ہفتہ وار اجرت سے کاٹ لیا کریں میں اوور ٹائم کر لیا کروں گا۔ اس کے بعد ہر ہفتے ہماری تنخواہ سے کٹوتی ہونے لگی جس کو میں تو اوور ٹائم لگا کر پورا کر لیتا۔ تنخواہ میں کٹوتی ہونے پر کچھ عرصہ بعد ہی میرے دوسرے ساتھیوں نے فیکٹری میں نماز پڑھنا ترک کر دیا جس سے ان کی تنخواہ سے کٹوتی ختم ہو گئی لیکن میری تنخواہ سے کٹوتی جاری رہی۔ چھ ماہ بعد ایک دن فیکٹری کے منیجر نے مجھے بلایا اور کام کے بارے میں پوچھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ بڑے ثابت قدم رہے ہو اس لئے میں نے آپ کے لئے سپیشل اجازت دی ہے کہ نماز پڑھنے کے اوقات میں آپ کی تنخواہ نہیں کٹے گی۔ اس کے بعد میں نے پینتیس سال اس فیکٹری میں کام کیا۔

ساٹھ کی دہائی کے وسط میں اپنے دو بھائیوں کے ساتھ ساتھ تین چار اور رشتے داروں کو بھی برطانیہ بلایا اور انہیں یہاں پر سیٹل کروایا۔ اپنی حقیقی اور ایک رشتے کی بہن کے بیٹوں کو بھی یہاں بلا کر سیٹل کروایا۔ میں نے پارٹ ٹائم ایک کالج میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم بہتر کر لی تھی۔ اب میں نے لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کرنے شروع کر دیے تھے۔ برطانیہ آنے والے لوگوں کی زیادہ تعداد کا تعلق میرپور اور اس کے نواحی علاقوں سے تھا جن کی اکثریت پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھی۔

ان دنوں اور گھر والوں سے رابطے کا واحد ذریعہ خط و کتابت تھی اور رقم بھیجنے کا واحد ذریعہ بھی ڈاک خانہ کے ذریعہ منی آرڈر تھا۔ میرے پاس شام کو خط لکھوانے والوں کی اکثریت جمع ہوتی تھی۔ ان دنوں برمنگھم کے سمال ہیتھ اور ہینڈزورتھ ایریا میں دو بیڈ روم کا ٹیرس مکان پانچ چھ سو پاؤنڈ میں مل جاتا تھا۔ میں نے انیس سو چھیاسٹھ میں اپنا مکان خرید لیا۔ انیس سو اڑسٹھ میں آٹھ سال بعد پہلی دفعہ پاکستان واپس گیا۔ تب پرانا میرپور شہر منگلا ڈیم میں ڈوب رہا تھا اور شہر سے لوگوں کا انخلا جاری تھا۔ ہمیں بھی میرپور میں ایک پلاٹ الاٹ ہوا۔ میں جو کچھ انگلینڈ سے کما کر ساتھ لے کر گیا تھا اس سے اس پلاٹ پر مکان بنایا اور ایک سال رہ کر واپس برطانیہ آ گیا۔ والدین کی بڑی خواہش تھی کہ میں شادی کر لوں لیکن میں نے اگلی دفعہ کے لیے موخر کر دی۔

برطانیہ واپس آ کر میں نے پھر پہلے کی طرح بھرپور محنت شروع کر دی اور دو سال تک بڑی تندہی سے کام کیا۔ انیس سو اکہتر میں دوسری بار پاکستان گیا۔ چھ ماہ وہاں رہا جس دوران میں نے شادی کی اور شریک حیات کو ساتھ لے کر برطانیہ واپس آ گیا۔ مکان میں نے پہلے ہی خریدا ہوا تھا۔ وہ دور بڑا کٹھن اور صبر آزما تھا۔ برطانیہ کے مڈ لینڈ ایریا میں موسم کافی سرد ہوا کرتا تھا۔ سہولتیں آج کے مقابلے میں بہت ہی کم تھیں۔ پاکستانی کھانے پینے کی اشیا بہت کم دستیاب ہوتی تھیں۔

سردیوں میں بہت زیادہ برف باری ہوتی تھی۔ برف باری کی وجہ سے بسیں بند ہو جاتیں توہم پیدل فیکٹری جایا کرتے تھے۔ سردیوں میں گھروں کو گرم کرنے کے لئے کوئلوں کا استعمال ہوتا تھا۔ ہر گھر میں کوئلہ ذخیرہ کرنے کے لیے ایک تہہ خانہ ہوتا تھا۔ ہر ہفتے کوئلہ خرید کر رکھتے تھے۔ گرم پانی کا استعمال بہت ہی کم تھا۔ بہت ہی کم گھروں میں ٹوائلٹ اور غسل خانہ ہوتا تھا۔ عموماً ًبا ہر گلی کے نکر پر واقع پبلک باتھ روم اور پبلک ٹوائلٹ استعمال کرنی پڑتی تھیں۔ بہت کم لوگوں کے پاس گاڑیاں تھیں فون بھی کسی کسی کے گھر میں ہوتا تھا۔

پانچ سال تک برطانیہ میں نئے آنے والوں کے لئے میرا گھر ایک بہترین ٹھکانہ تھا جہاں درجنوں لوگ آ کر رہے اور پھر سیٹل ہو کر اپنے نئے ٹھکانوں پر منتقل ہوتے رہے۔ میں نے سیکڑوں لوگوں کو اپنی اور دوسری فیکٹریوں میں کام دلوایا۔ یہاں لوکل کونسل اور برطانوی پارلیمنٹ کے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا۔ میرا تعلق چونکہ شروع ہی سے لیبر پارٹی سے تھا اس لئے ہمیشہ پارٹی کے امیدواروں کی انتخابی مہم میں حصہ لیا۔

میں نے برطانیہ میں رہ کر ساری عمر کام کیا کبھی بھی حکومت سے کسی قسم کی سوشل سیکورٹی یا دوسری امداد نہیں لی اور ہمیشہ کوشش کی کہ بچوں کو رزق حلال کھلاؤں۔ جوانی میں اکیلے رہنے کے باوجود یہاں کبھی مغرب کی کسی بھی خرافات میں نہیں پڑا۔ یہ والدین کی تربیت اور میرے پانچ وقت نماز کا عادی ہونے کی وجہ سے تھا، اللہ تعالی نے برے کاموں سے ہمیشہ بچائے رکھا۔ اپنے ملک کے لیڈران جب آنا شروع ہوئے تو ان کے جلسے کروانے اور ان کو کامیاب کرانے میں بڑا کردار ادا کیا۔

انہیں اپنے گھر میں رکھا، ان کی دعوتیں کیں، اپنی گاڑیوں میں انہیں گھمایا پھرایا لیکن جب کبھی بھی پاکستان میں انہیں ملنے کوشش کی انہوں نے ہمیں نہیں پہچانا۔ میں نے کبھی بھی ہنڈی کے ذریعے اپنے وطن رقم نہیں بھیجی بلکہ ہمیشہ پاکستانی بینکوں کے ذریعہ رقم کی ترسیل کی۔ اور اپنی محنت کی کمائی سے اپنے شہر میرپور میں جائیداد خریدی۔ انیس سو اسی کے بعد ملک میں زیادہ آنا جانا شروع ہوا۔ پاکستانی حکومت کے کہنے پر اپنے وطن میں فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوائے۔ ان اکاؤنٹس میں اپنی جمع پونجی جمع کروائی لیکن حکومت نے وہ ضبط کر کے ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ اس کے بعد ہم نے قرض اتارو ملک سنوارو میں اچھی خاصی رقوم اپنے ملک بھیجیں۔ ان کا اب تک پتہ نہیں چلا کہ کہاں گئیں۔

میں نے جس فیکٹری میں دیہاڑی دار مزدور کے طور پر کام شروع کیا تھا چالیس سال بعد وہاں سے اس فیکٹری کے منیجر کے طور پر ریٹائر ہوا۔ فیکٹری کے مالکان نے میری ریٹائرمنٹ پر ایک تقریب منعقد کی اور میری فیکٹری کے لیے خدمات کو سراہا۔ میں نے اور میرے جیسے ہزاروں کشمیری تارکین وطن نے اس وقت برطانیہ میں آ کر اس کی تعمیر اور ترقی میں حصہ لیا جب برطانیہ کو سستے مزدوروں کی ضرورت تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جنگ سے تباہ حال برطانیہ کو دوبارہ تعمیر کرنے میں کشمیری تارکین وطن کا بہت بڑا کردار رہا ہے جس کو سراہتے ہوئے برطانوی حکومت نے ہمیں اور ہمارے خاندانوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کیں۔ میری طرح ہزاروں تارکین وطن نے ہمیشہ اپنے وطن کشمیر اور پاکستان کو اپنا اصل وطن خیال کیا۔ اب بھی تارکین وطن اربوں ڈالر کما کر پاکستان بھیج رہے ہیں جس سے ملک کے ادائیگیوں کا توازن برقرار رہتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم تارکین وطن کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔

میں نے اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دی اور انہیں یونیورسٹی کی سطح پر اعلی تعلیم دلوائی۔ میرے بچے ماشا االلہ اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ اچھی تعلیم کی وجہ سے وہ بہت اچھی ملازمتیں کر رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ سب ہی میرے بہت ہی فرماں بردار ہیں۔ میرا کہا مانتے ہیں۔ ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی شادی پاکستان میں کی تھی جس میں ان کی مرضی بھی شامل تھی۔ ایک بیٹے کی شادی برطانیہ میں ہی اس کی پسند سے پاکستانی کمیونٹی میں کی ہے اور وہ سب اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ ہم دونوں میاں بیوی نے بچپن سے ان کے ساتھ ایک مضبوط تعلق بنا کر رکھا اور ان کی ہر پسند و ناپسند کا خیال رکھا۔ ان پر اپنی رائے کبھی ٹھونسی نہیں بلکہ ان سے ہمیشہ ایک دوستی کا تعلق قائم رہا اور اب یہی درس انھیں ان کی اولاد کے لیے دیا ہے۔ دیکھئے وہ اس میں کہاں تک کامیاب رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments