ہم ویلنٹائن ڈے ہر گز نہیں منائیں گے


چار جماعتیں انگریزی میں پڑھے، لنڈے کی جینز پر مائیکل جیکسن کی تصویر والی ٹی شرٹ پہنے ہاتھوں میں سرخ پھول اٹھائے یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی نسل بھی بدل چکی ہے اور وہ انگریز کے بچے ہیں۔ یہی لوگ اپنی ان حرکتوں کو ویلنٹائن ڈے منانا کہتے ہیں۔ ان بد بختوں کو معلوم ہی نہیں کہ ان کی میراث کیا ہے اور ان کی تاریخ کیا ہے۔ ان کے اباؤاجداد کے خوف سے قیصر و کسریٰ پر لرزہ طاری تھا اور کو ہ قاف سے بحر ظلمات تک بحر و بر ان کی ہیبت سے رائی تھے۔ کیا معلوم ان لفنگوں کو کہ ان کے اجداد کی آمد کی خبر فضاؤں میں اڑتے پرندے اہلیانِ زمین کو دیتے تھے۔ ان کی گھوڑوں کی سموں کی چاپ سینکڑوں میل دور بھی سنائی دیتی تھی۔ ایک یہ ہیں کہ اپنے اجداد کی راہ کو چھوڑ کے ان کی نقالی کرتے پھرتے ہیں جن کا دین ہے نہ ایمان۔ نہ ایسی کوئی سنہری اور لہورنگ تاریخ جس پر وہ فخر کر سکیں۔
عورتوں کے پیٹ چاک کرکے نومولود سے کوؤں اور چیلوں کی دعوت کرنے والو ں، سروں کے مینار ایستادہ کرنے والوں اور بچوں کو نیزوں پراچھالنے والوں کے دل ویلنٹائین جیسی زنانہ نقالی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لہو کے سوا سرخ رنگ کی کسی چیز سے متاثر نہیں ہوسکتے۔ خواہ یہ سرخ رنگ کا پھول ہی کیوں نہ ہو۔
محبت ایک ایسا جرم ہے جو محبوب کے گلے کا ہار بن جائے تووہ شمشیر و سنان کی بجائے طاؤس و رباب کی طرف مائل ہوتا ہے۔ محبت کرنے والا شاہین نہیں بن سکتا، نہ پلٹ سکتا ہے اور نہ چھپٹ سکتا ہے۔ محبت کرنے والا ممولہ بن جاتا ہے جو شاعر مشرق کے ہاں مشیت تقدیر امم کی خلاف ورزی ہے جو ہماری میراث نہیں ہو سکتی۔
مال غنیمت اور کشور کشائی کے ساتھ حصول باندی ایک مرد کی وہ راہ طلب ہے جومیدان کارزار میں درد کے فاصلے مختصر کردیتی ہے۔ یہ گلاب کے سرخ پھول نہیں بلکہ شمشیر و سنان ہی ہے جس کی بدولت عدو شہزادیاں کنیز یں بن جاتی ہیں۔ جب تک شمشیر و سنان سے محبت رہے گی چشم فلک ایسے معجزے ہی دیکھے گی۔ مگر جب بھی زوال آئے گا، شمشیر کی جگہ ہمشیر لے لے گی، ہمشیر کو محبت کو اجازت دی جائے گی تو طاؤس و رباب ہی غالب رہیں گے۔
ہم تو یوم حیا منائیں گے۔ ہم اتنے با حیا ہیں کہ شاعری میں بھی محبوب کے لئے بھی تذکیر کے صیغےکا استعمال کرتے ہیں۔ صنف نازک سے اظہار محبت تو دور کی بات ہمیں اس تصور سے ہی لذت دائمی حاصل ہو جاتی ہے۔ حاسدین کا یہ سراسر بہتان ہے کہ ہم جنس مخالف سے ہمکلام ہونے کی خو سے عاری ہیں۔ ان کو کیا معلوم کہ اہل وفا تقدیس وفا کی خاطر کیا کیا نہیں کر گزرتے۔ سنگ باری، درہ زنی اور شمشیر بہ گردن صنف نازک سب تحفظ وفا کی خاطر ہی تو کرتے ہیں۔ محبت کو سات پردوں کے پیچھے چھپا کر رکھنے والے اہل حیا کیسےاظہار محبت کرکے تقدیس وفاکو پامال کریں اس لئےحیا کا عالمی دن منا کر اہل وفا اپنی محبت کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔
کوئی شرم کوئی حیا ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں تو خواتین اپنے خصم کا نام تک دوسروں کے سامنے نہیں لیتیں۔ ان نام نہاد پڑھے لکھوں سے تو وہ گاؤں کی وہ مٹیارن ہی با حیا تھی جس کے شوہر کا نام مکھن خان تھا اور اس نے کبھی دیسی گھی تک نہ کھایا کہ اس کی زبان پر اس کے سر کے تاج کا نام دوسروں کے سامنے نہ آئے۔ دن دھاڑے اظہار محبت تو قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ ہمارے بزرگ کہہ گئے ہیں کہ جب جوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے کھلے بندوں ملیں تو سمجھو کہ زمین سمٹنے والی ہے۔
ہمارے تہوار بھی ایثار اور قربانی کا سبق دیتے ہیں۔ قربانی کے بکرے صرف ہمارے جہاز ہی نہیں اڑاتے بلکہ ہم اپنے بچوں کے اندر بھی قربانی دینے اور لینے کے جذبے کو اجاگر کرنے کے لئے بھی بکروں کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ ہم بڑی عید پر قربانیوں کے بکروں کی منڈیاں لگا لگا کر ایک مہینے پہلے ہی ان کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں کہ کس رنگ اور نسل کے بکرے کی گردن پر چھری پھیرنے سے کتنا سواد و ثواب ملتا ہے۔ جب یہ جانور قربان ہوکر ہمارے سال بھر کے سارے گناہ دھو رہے ہوتے ہیں تو ہمارے بچے یہ دلکش نظارے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ بچے ایک دوسرے کی گردن پر تربیت کے اثر کاعملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ ویلنٹائین ڈے منانے کے بہانے ایسے بچوں کے جذبہ قربانی کو اظہار محبت کی طرف لانا اان کے جذبہ ایثار کو ختم کرنے کی ایک گہری سازش ہے جس کو ہم ہرگز کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔
چھوٹی عید پر بھی تو اپنے بچوں کو ہم عیدی دے کر یہ تاکید کرتے ہیں کہ وہ پستول اور کلاشنکوف سے کم کھلونا نہ خریدیں تاکہ محلے میں ان کی دھاک بیٹھے۔ جب وہ ان کھلونوں سے چور سپاہی اور مجاہد مجاہد کھیل رہے ہوتے ہیں تو ان کی جذبہ جدال و قتال کی تربیت ہو رہی ہوتی ہے۔ جو آگے جاکر عملی زندگی میں ان کے کام آتی ہے۔ ایسے تربیت یافتہ بچوں کو جوان ہونے پر اظہار محبت جیسے لغویات میں الجھانا یقیناً ایک سازش ہی ہے۔
شب برات پر جب تک شہر پٹاخوں سے گونج نہ اٹھے ہمیں لگتا ہے کہ ثواب پورا نہیں ملا۔ ان ثوابی پٹاخوں کی درآمد، برآمد اور کھلے عام تجارت قانوناً جرم ہونے کے باوجود دوست ملک چین سے سال بھر ان کی ترسیل جاری رہتی ہے۔ ان پٹاخوں کی آڑ میں اپنے سامان حرب کو بھی آزما کر دیکھتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھار گھر کے بچے بھی اس آتشین سامان حرب کو ایک دوسرے پر آزما کر اپنے جوان ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔
ہم اسلام آباد کی عدالت عالیہ کے ویلنٹائن ڈے نام کے بے غیرتی کے دن کو نہ منانے کے حکم کو سراہتے ہوئے ایک اور مشورہ بھی دینا چاہتے ہیں کہ اس دن سال بھر سال بھر ایسی بے غیرتی پر ماری جانے والی ملالاؤں، حناؤں اور دیگر کے قاتلوں، کھلے عام گھومنے والی لڑکیوں کے چہروں پر تیزاب پھینکنے والوں، رشتے سے انکار پر زبردستی نکاح کرنے والوں اور ونی کی غیرت مند رسم ادا کرنے والوں کو ایک تقریب میں مدعو کرکے ان کو صدر مملکت کے ہاتھوں میڈل سے بھی نوازا جائے تاکہ معاشرے میں اظہار محبت کی گنجائش ہی نہ رہے، غیرت اور حیا کا بول بالا ہو۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments