جنون جیت گیا

عاصمہ شیرازی - صحافی


حرمتِ حرف کا لحاظ ہے کہ بہت سے جذبات الفاظ میں ڈھل نہیں سکتے ورنہ معذور معاشرہ اور بے حسی جس صورتحال سے دوچار کر رہی ہے وہاں نتیجہ صرف بے بسی ہی ہے۔

سوشل میڈیا پر جاری گالم گلوچ ہو یا اخلاق باختہ جملے، نہ تو مذمت کے الفاظ باقی ہیں اور نہ ہی اب سکت باقی کہ خاندانی روایات اور تربیت کے ہاتھوں بے بس ہیں۔

معاشرے کی گراوٹ کا ذکر کہاں تک کریں؟ ایک جنون ہے جس نے سارے ماحول کو جنونی بنا رکھا ہے۔ کہیں مذہبی جنونیت، کہیں سیاسی جنونیت اور کہیں معاشی جنونیت کہ جس نے غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بنا دیا ہے۔ مذہبی جنونیت کے پیچھے ناچتی بھوک اور سسکتی نااُمیدی بھی ہے جس کا نمونہ پے در پے واقعات کی صورت نکل رہا ہے۔

ایک وجہ سیاست میں مذہب کا غیر ضروری استعمال بھی ہے۔ جس قدر سیاست میں مذہب کا عمل دخل بڑھتا چلا جا رہا ہے اُسی قدر دلیل کی گنجائش ختم ہو رہی ہے حالانکہ ہم اُس مذہب کے پیروکار ہیں جس کا آغاز ہی تحقیق یعنی اقرا اور دلیل یعنی غور کرنے کی بار بار دعوت سے ہوا۔

مذہب کا سیاست میں بلاوجہ استعمال سوال کی گنجائش ختم کر دیتا ہے یعنی ریاست اور حکومت کی کارکردگی پر اٹھائے جانے والے سوال مذہب سے یوں جوڑ دیے گئے ہیں کہ سوال کے تمام راستے مسدود اور تنقید کی تمام راہیں بند کر دی گئی ہیں۔

گذشتہ کچھ عرصے سے ہمارے معاشرے میں ہر کارکردگی کا جواب ریاست مدینہ کی مثال کے ساتھ جوڑ دینے سے مراد یہ کہ مذہب کو تنقید کی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جائے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ گذشتہ ادوار میں ایسا نہیں ہوا، جنرل ضیا الحق کا دور اس کی بہترین مثال ہے کہ جب ریفرنڈم کو بھی اسلام اور حق و باطل کے ساتھ منسوب کر دیا گیا۔ اور یہ سلسلہ ایسا چلا کہ آج تک رُکا نہیں۔

اقتدار کو طول دینا ہو یا اختیار کو اپنی مٹھی میں لینا ہو، مذہب کا استعمال جس بے دریغ انداز سے کیا گیا اس نے انتہا پسندی کو ریاستی چھتر چھاؤں فراہم کر دی۔

گذشتہ دو ماہ میں توہین مذہب کے دو واقعات ہوئے جن میں بے قابو ہجوم نے دو بے گناہ انسانوں کو بھبھوڑ ڈالا۔ سری لنکا کے پریانتھا دیاودھنا کا واقعہ ابھی ذہن سے فراموش نہیں ہوا کہ میاں چنوں کے مشتاق کی درخت سے لٹکی لاش نے احترام آدمیت کا جنازہ نکال دیا۔

مشتاق کی انگلیاں تک ہجوم نے اس لیے کاٹ دیں کہ اُس نے مبینہ طور پر توہین مذہب کی۔ ایک ذہنی مفلوج شخص کو ذہنی معذور معاشرے نے سزا کی بھینٹ چڑھا دیا۔ گھنٹوں درخت کے ساتھ باندھ کر سنگ باری کس مذہب کا حصہ اور کس کی شناخت ہے کم از کم اسلام جیسے مذہب میں تو اس کی گنجائش موجود نہیں۔

معاشرے میں بڑھتے ان واقعات کی روک تھام کیسے ہو؟ معاشی ناہمواری اور معاشرتی تفریق اس کی دو اہم وجوہات تو ہیں ہی اوپر سے ریاست کی جانب سے لاپرواہی اور انتہاپسندوں کی پذیرائی المیے کو جنم دے رہی ہے۔

دُنیا بندوق یا ایف اے ٹی ایف پابندیوں کے زور پر ہم سے قوانین بنوائے اور عملدرآمد کرائے تو ٹھیک مگر ہم اپنے گھر کو درست کرنے کے لیے خود اقدامات نہیں اُٹھا سکتے۔

المیہ تو یہ ہے کہ گذشتہ ستر برسوں سے ریاست کی جانب سے انتہاپسند جماعتوں کی پشت پناہی نے معاشرے میں اختیار اور طاقت کا ہتھیار جہالت اور لاعلمی کو تھما دیا ہے۔

ریاست کے نزدیک بچوں کو درسگاہوں میں ٹوپیاں پہنانے سے شاید ہم بہترین مسلمان پیدا کریں گے۔۔۔ زمانہ مریخ سے آگے جہان ڈھونڈ رہا ہے اور ہم قرون اولٰی کی جانب سفر کر رہے ہیں۔ کوئی کیسے سمجھائے کہ سکولوں میں معصوم بچوں کو ٹوپیاں پہنانے سے نہ تو مذہب کی خدمت ہو گی اور نہ ہی اسلام کی ترویج۔

بالکل اُسی طرح جیسے ہم ایک نصاب سے ایک قوم بنانے کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ کوئی کیسے سمجھائے کہ ریاست رجمنٹ نہیں بلکہ تنوع ہی اتحاد کی علامت اور قومی زبانیں اور ثقافتیں تقسیم نہیں اتحاد کی ضمانت ہیں۔

والدین کی تربیت اور گھر کے ماحول میں مذہب کا عکس بچے کی شخصیت کا حصہ بن سکتا ہے۔ فکری نشونما ماں کی گود سے لحد تک حاصل کرنے کی تلقین کرنے والے مذہب کے پیروکار اس قدر محدود کر دیے گئے ہیں کہ اُن کے دماغ لوہے کے سانچوں میں قید اور جستجو مفقود ہو چُکی ہے۔

جب بھوک اور افلاس ذہنوں پر سوار ہو جائیں تو فہم اور عقل مفلوج جبکہ تن لباس سے محروم ہو جائیں تو ننگِ انسانیت کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے۔

اس سے پہلے کہ دُنیا ہمیں گوشت نوچنے والوں کے طور پر لے اب بھی وقت ہے کہ اجتماعی معاشرے کو بچانے کے لیے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ترجیحات طے کی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments