خارجہ پالیسی: ہم کہاں کھڑے ہیں؟


اکثر احباب استفسار کرتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کارکردگی کو موجودہ حکومت کے زمانے میں کس پیمانے پر ناپا جانا چاہیے۔ اس بار اس سوال کا جواب کمال آیا کہ جس کی کارکردگی موجودہ حکومت کے دور میں ٹاپ ٹین میں جگہ نہ بنا سکے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کی کارکردگی کیا ہے؟ خیال رہے کہ خارجہ امور میں کارکردگی کو اس وقت ”چارج شیٹ“ کیا گیا کہ جب ابھی ابھی دورہ چین سے واپس آئے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس دورے میں سوائے نشستند گفتند برخاستند کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا، اگر کچھ حاصل ہوا ہوتا تو ایسی صورت میں کم از کم اپنے خود ساختہ ٹاپ ٹین میں ہی نامزد کر دیتے اب ایسی صورتحال کے بعد یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کس قدر کامیاب ہے کیونکہ یہ تو از خود ہی ثابت ہو چکا ہے۔ وزارتوں کی اور بالخصوص خارجہ امور جیسی وزارت کی ناکامی کپتان کی اپنی ناکامی ہوتی ہے جسے کسی اور کے سر منڈھ دینا ممکن نہیں۔ ہمارے اردگرد کے واقعات زبان حال سے اس بات کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کیونکہ ہم ان تمام امور میں لاتعلق کر دیے گئے ہیں جن میں ہماری موجودگی از حد ضروری تھی۔

ہماری پالیسیوں کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ افغانستان کے معاملات میں بطور ریاست ہماری کلیدی حیثیت ہے مگر بطور حکومت ہم صرف رونے دھونے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ورنہ اگر ہم افغانستان میں گزشتہ سال کے واقعات کا تجزیہ کریں تو دیکھیں گے کہ ہم تو کہیں نظر نہیں آرہے، جبکہ ان حالات میں اپنا موثر کردار ادا کر کے قطر نے اپنی جگہ خطے کے ایک اہم کھلاڑی کے طور پر بنا لی ہے۔ اس صورتحال اور قطر کی خارجہ امور میں کامیابی اور اہمیت کا اعتراف امیر قطر کے صدر بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد کے پہلے حالیہ دورہ واشنگٹن میں اس وقت سامنے آیا جب امریکہ نے قطر کو اپنا نان نیٹو اتحادی قرار دے دیا۔

قطر نے افغانستان میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں سہولت کاری کا بہت موثر کردار ادا کیا اور اس وقت بھی افغان طالبان سے امریکہ کی گفتگو قطر کے ذریعے ہی ہو رہی ہے۔ قطر اس سے قبل اپنی یہ صلاحیت فلسطینی تنظیم حماس سے بھی گفتگو کروا کے منوا کر چکا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ ایران سے جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن پر دوبارہ معاملات کرنا چاہ رہی ہے۔ امیر قطر کے دورہ واشنگٹن سے قبل قطری وزیر خارجہ نے تہران کا دورہ کیا، اس دورے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ قطر امریکہ اور ایران کے مابین بھی اسی قسم کا کردار ادا کرنے میں مصروف ہے کہ جیسا وہ اس سے قبل حماس اور افغان طالبان کے امور میں کر چکا ہے۔

ویسے بھی قطر اور ایران خلیج فارس میں مشترکہ گیس پائپ لائن رکھتے ہیں اور قطر اور دیگر عرب ریاستوں کے تنازعے نے قطر کو ایران کے مزید قریب کر دیا ہے۔ قطر سے امریکہ، یوکرائن اور روس کے تنازعے کے ضمن میں بھی معاملات کر رہا ہے کیونکہ قطر ایل این جی کا ایکسپورٹر ہے اور روس، یوکرائن تنازعے کے بعد امریکہ چاہتا ہے کہ قطر یورپ کی گیس کی ضروریات پوری کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرے تاکہ یورپ گیس روس سے نہ لے۔

قطر کے ذریعے اگلا ممکنہ ہدف بشار الاسد کا شام ہو گا کہ جس سے امریکہ معاملات طے کرنے کی طرف آگے بڑھنے کا سوچ رہا ہے۔ اب ذہن میں رہے کہ حماس ہو، افغان طالبان ہوں، ایران ہو یا شام تمام اسلامی ممالک ہیں ان تمام میں افغانستان سے جڑے معاملات تو ہمارے لئے سب سے اہم ہیں مگر ہم اتنے غیر اہم ہیں کہ ہم پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ باقی ممالک کے معاملات میں تو ہم نہ تین میں نہ تیرہ میں، صرف اس لئے کہ خارجہ پالیسی معاملہ فہمی کا تقاضا کرتی ہے جو فیصلہ سازوں میں سرے سے موجود ہی نہیں دکھائی دیتی، ہمارے اردگرد جو غیرمعمولی واقعات پیش آرہے ہیں ان کے حوالے سے ہماری تیاری مکمل ہونی چاہیے۔

گزشتہ ہفتے آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کواڈ کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور انڈیا کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی اس اجلاس میں انڈوپیسفک میں چین کے اثر و رسوخ اور ساؤتھ چائنا سی کے معاملات زیر غور آئے۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات طویل المدتی مسئلہ ہے۔ گزشتہ دو سال سے آسٹریلیا سے بھی چین کے تعلقات انتہائی خراب ہیں یہاں تک کہ گزشتہ منگل کو آسٹریلیا کے وزیر دفاع نے پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد آسٹریلیا کو انتہائی پیچیدہ اور ممکنہ انتہائی تباہ کن علاقائی سلامتی کے خطرے کا سامنا ہے۔ اس کانفرنس کے جواب میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ چین سمجھتا ہے کہ یہ نام نہاد کواڈ جس میں امریکہ، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا شامل ہیں، چین کو روکنے اور امریکی تسلط برقرار رکھنے کا حربہ ہے۔ اس میں شامل ممالک کو سرد جنگ کے زمانے کی اپنی سوچ کو ختم کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments