ہاسٹل میں منٹو، بانس اور بانسری


ہاسٹل میں رہتے ہوئے ہمیں قریبا ڈیڑھ سال ہونے کو تھا۔ ہاسٹل کے اس آہنگ کو بھی دیکھ چکے تھے، جس کی لوگ تعریف کرتے نہیں تھکتے اور اس آہنگ کو بھی جس کا لوگ ذکر کرنا شاید بھول جاتے تھے۔ کافی چیزیں سیکھنے کو ملیں مگر دال مونگ اور دال ماش میں فرق کو واضح نہ کر سکے کیوں کہ بقول ہمارے کک صاحب کہ ”جب آپ نے میری پکی ہوئی دال میں سے یہ بتایا دیا کہ کون سی مونگ اور ماش ہے تو میں کھانا پکانا چھوڑ دوں گا“ ۔ اس لئے ان کی اس بات کو چیلنج کرنا ان کے بارہ سالہ تجربے کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔

کک صاحب صبح سویرے چائے کے دیگچے میں دو لیٹر دودھ ڈال کر ساتھ پانی کا پائپ لگا کر موٹر کو تب تک آن رکھتے جب تک دودھ کے آثار ختم ہونے کو نہ آ جاتے۔ پھر چینی اور پتی ذرا زیادہ ڈال کر چائے کے ذائقے کو بحال کیا جاتا۔ بحکم ہاسٹل وارڈن کے کھانے میں مرچ مصالحے بھی کم ڈالے جاتے، کیوں کہ تیز مرچ مصالحے سیدھے مردانگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور میس بل میں بھی واضح کمی آتی ہے۔ رات کو 12 بجے تک پڑھائی ہوتی تھی وہ الگ بات ہے کہ شروع ساڑھے گیارہ بجے کی جاتی تھی۔ میرے تین روم میٹ ہوتے تھے، ٹروزا، حمزہ اور شانی سلنڈر۔

شانی سلنڈر رات کو بارہ بجے کے بعد اپنی منہ بولی بہن سے اپنی چارپائی پر اوندھے منہ لیٹ کر خوش گپیاں لگایا کرتا تھا اور ہر بات کے بعد ایک ہوسناک قسم کا قہقہہ لگایا کرتا تھا۔ ہمارا یہیں سے ہی منہ بولی بہن والی بات سے اعتبار جاتا رہا۔ رات کو حمزہ نوٹس بناتے بناتے تھک کر ٹیبل پر سر رکھ سنی لیون کے خواب دیکھا کرتا تھا اور پینسل کو اپنے ہاتھوں میں گھما کر ایک خاص قسم کی فیل لیا کرتا تھا۔

ٹروزا لحاف پتلا اور سردی زیادہ ہونے کی وجہ سے دھڑا دھڑ منٹو کے افسانے پڑھا کرتا تھا اور رات ہی کو گیزر چلا کر سویا کرتا تھا اور صبح ہمارے اٹھنے سے پہلے اپنی چارپائی پر بیٹھ کر درمیان میں سے چیر نکال کر بیٹھا ہوتا تھا۔ ٹروزا مہینے بھر میں منٹو کی ایک ہی کتاب کو تین چار دفعہ دہرایا کرتا تھا تاکہ افسانے اس کی روح تک سرایت کر جائیں۔

ایک رات کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی اور میں اپنی رضائی میں لپٹا سکون سے سو رہا تھا۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا اور مکمل طور پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اچانک کوئی چیز میرے پاؤں سے ٹکرائی، جس کے باعث میں نیند سے بیدار ہو گیا اور وہ چیز سیدھی جا کر سامنے الماری سے جا ٹھکرائی۔ اتنے میں میری اور حمزہ کی آنکھ کھولی اور اچانک کسی چیز کے الماری سے ٹھکراؤ کی وجہ سے جو عجیب قسم کی آواز پیدا ہوئی تو ہم سہم سے گئے۔ ان دنوں ہاسٹل میں سینیئرز نے یہ افواہ پھیلا رکھی تھی کہ ہاسٹل میں ایک انکل جون نام کا بھوت آیا ہے اور وہ پیاسا ہے، کس چیز کا، یہ نہیں بتایا۔

ہمارے ذہن میں پل بھر کے لئے یہ بات گھومی کہ کہیں انکل جون صاحب ہی نہ ہمارے کمرے میں ہو۔ اتنے میں الماری سے ایک اور خطرناک قسم کی آواز سنائی دی۔ ایک تو نہ حمزہ مجھے صحیح سے دیکھ پا رہا تھا اور نہ میں حمزہ کو صحیح سے دیکھ پا رہا تھا۔ مگر آواز کو دبا کر ایک دوسرے سے پوچھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ کیا چیز ہو سکتی ہے۔ ایک دو منٹ کے لئے مکمل طور پر خاموشی ہو گئی۔ کچھ لمحے گزرنے کے بعد حمزہ نے ہمت کر کے اچانک اٹھ کر لائٹ جلائی۔ لائٹ جیسے ہی جلی پہلے تو ہماری آنکھوں کے سامنے دھندلکا سا چھا گیا مگر آنکھیں صاف کر کے دیکھا تو ٹروزا الماری کے پاس کھڑا ہے اور بے چینی کے ساتھ کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ ہم نے کہا کہ یار حد ہو گئی ہے ویسے، اگر تو تھا تو پہلے بتا دیتا، اتنا سسپنس کیوں بنایا ہویا تھا اور یہ بتا اس وقت ڈھونڈ کیا رہا ہے۔

”ماچس، ماچس ڈھونڈ رہا ہوں“ ۔
کیوں اس وقت ماچس کی کیا ضرورت پیش آئی۔
” گیزر آن کرنا تھا، گیزر“ ۔

صبح آنکھ کھولی، بستر سے اٹھ کر برآمدے میں آیا تو دیکھا ایک کتاب جلی پڑی ہے اور ہلکا ہلکا سا کتاب کا نام دکھائی دے رہا ہے۔ غور سے دیکھا تو لکھا تھا۔

” منٹو کے شاہکار افسانے“

ناشتہ کر کے لوٹا تو ماچس حمزے کے سرہانے پڑی تھی۔ حمزے اور ٹروزے میں لڑائی ہو رہی تھی ٹروزا حمزے سے کہہ رہا تھا۔

” تم نے آخر میری کتاب جلائی ہی کیوں“ ۔ اس پر حمزہ بڑے بے تکلف لہجے میں کہہ رہا تھا
” نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments