بھارتی مسکان اور ہمارے دیسی دانشور


چند روز قبل بھارتی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھنے والی مسلمان لڑکی کی اپنی مذہبی روایت کی پاسداری کے لیے کٹر پسند ہندو جتھے کے سامنے ڈٹ کر اللہ اکبر کے نعرے لگانے کی وڈیو وائرل ہونے پر بھارت کی طرح پاکستان میں بھی شدید ردعمل سامنے آیا۔ جس کے نتیجے میں حکومت اور عوام نے اپنی اپنی طرف سے اس لڑکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور اب تو اس معاملے کی گونج او آئی سی کے ایوان میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ کیونکہ بھارت میں بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کی دل آزاری ہونا اب کوئی نئی بات نہیں۔

مذہبی انتہا پسندی کے واقعات خواہ وہ بھارت میں ہوں یا پاکستان میں ہر پڑھا لکھا باشعور شہری اپنے مذہب کی اعلی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ ان کی مذمت ہی کرے گا۔ وہ کہیں بھی ظلم ہوتا دیکھ کر تقابلی جائزے پیش نہیں کرے گا جیسے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہمارے دیسی دانشوروں نے اپنی قابلیت اور معاملہ فہمی کی صلاحیت کو بروئے کا ر لاتے ہوئے اس حجاب تنازعے کا موازنہ ہمارے معاشرے میں ہونے والی انتہا پسندی سے کرنا شروع کر دیا ہے۔ جب کے کچھ تو بھارتی صحافیوں کے یوٹیوب چینلز پر اس ایشو کو ڈرامہ قرار دے کر پاکستان کے خلاف ہی تنقید کر رہے ہیں۔

سب سے پہلی بات تو دونوں معاشروں میں بدقسمتی سے وقوعہ پذیر ہوتے ان واقعات میں سب سے بڑا اور بنیادی فرق یہ ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندی جیسے واقعات پر حکومت ایکشن لیتی ہے جب کہ ہمارے پڑوسی ملک میں کٹر پسند ہندوں کو حکومتی آشیرباد حاصل ہوتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال کچھ عرصہ قبل دہلی میں ہونے والے فسادات تھے جن میں مسلمان آبادی کو سرکاری سرپرستی میں بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا اور بلوائیوں کو پولیس کی سپورٹ جاری رہی۔ یا پھر بابری مسجد ڈھا کر قانونی اور سرکاری طور پر رام مندر کی تعمیر کی منظوری جیسا واقعہ۔

دوسرا سب سے بڑا فرق اور ریاست کا اہم ستون میڈیا ہے۔ جب کبھی پاکستان میں انتہا پسندی کا کوئی واقعہ ہوا میڈیا نے بڑھ چڑھ کر رپورٹنگ اور ببانگ دہل اس کی مذمت کی ساتھ اس قسم کے واقعات کے سدباب کے لیے حکومت پر زور دیا۔ جب کہ سرحد کے اس پار گودی میڈیا مسلمانوں کے حقوق پر آواز اٹھانے کے بجائے انتہا پسندوں کے دفاع میں ایسے ایسے بھونڈے دلائل پیش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ ان کی منفی صحافت پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ اپنے آقا مودی جی کی مالا جپتا بھارتی میڈیا سارا دن پاکستان یا پھر مسلمانوں کے خلاف وہ زہر گھولتا ہے جس کے اثرات ہمیں آئے روز کسی نہ کسی شکل میں نظر آتے ہیں۔

پھر چاہے وہ ایک ٹی ٹوئنٹی میچ کی خراب کارکردگی پر محمد شامی جیسے کھلاڑی کی حب الوطنی پر سوال اٹھانا ہو یا اوم پوری جیسے بڑے اداکار کی اپنی حکومت اور فوج پر تنقید کے نتیجے میں جان گنوانے کی بات ہو۔ بھارت میں مسلمانوں کی حق تلفی اور معاشرے میں پھیلتی ہندوتوا انتہا پسندی کی بابت نصیر الدین شاہ اور جاوید اختر جیسے معروف فنکار بھی آواز اٹھا چکے ہیں۔ چند روز قبل شارخ خان نے لتا منگیشکر کی آخری رسومات میں دعا مانگ کر ان کی نعش پر پھونک ماری تو انتہا پسندوں نے اسے تھوکنے سے تشبیہ دے کر ان کے خلاف محاذ اٹھا دیا۔ یہاں تک کے معروف کرکٹر عرفان پٹھان نے اپنے بچے اور باحجاب بیگم کی تصویر شیئر کردی تو انہیں ہی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں ہم اور آپ سمیت مجموعی طور پر عوام کی کثیر تعداد مذہبی شدت پسند جذبات رکھنے والوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہے اور اپنی اقلیتوں پر ہونے والے کسی بھی ظلم پر ان کے لیے انصاف مانگتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل کا واقعہ ہے جس کے جواب میں اس بات سے قطع نظر ہو کر کے کہ اس نے ہمارے آقا کی شان میں واقعی کوئی گستاخی کی یا نہ کی لیکن پورے ملک میں اس واقعے کے خلاف عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ ہماری حکومت نے قاتلوں کے خلاف ایکشن لے کر ملک عدنان جیسے شہری کو ، پریانتھا کمارا کو مشتعل ہجوم سے بچانے کی کوشش کرنے پر تمغہ شجاعت سے نوازا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments