گاندھی اور جناح: ملک اشتر کے ہتک آمیز کالم کا جواب


\"\"میرا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ گاندھی جناح جگل بندی کو جاری رکھوں مگر آج ملک اشتر صاحب کا ہندوستان سے لکھا گیا ہتک آمیز کالم پڑھنے کے بعد ضروری ہو گیا کہ میں کچھ باتیں واضح کر دوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں جناح اور گاندھی کا تقابل نہیں کرتا۔ مجھے فضول بحث میں پڑنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ ویسے بھی بھلا ایک انسان اور کسی مہاتما کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟ میں نے تو صرف یہ کہنے کی جسارت کی تھی کہ یہ تقابل بہرحال کچھ لکھاریوں نے کیا ہے جن میں کچھ چوٹی کے مورخ بھی ہیں اور تاریخ دان بھی۔ ہاں البتہ مجھے جناح زیادہ پسند ہیں۔ اسے آپ ذاتی پسند سمجھ لیں۔

اب اس بات سے قطع نظر کے گاندھی کو کتنے لوگ جانتے ہیں اور جناح کو کوئی بھی نہیں کیا ہم تاریخی حقائق کی بنیاد پر بات کرسکتے ہیں؟ کیا گاندھی جی نے مذہب کو سیاست میں داخل نہیں کیا؟ کوئی ایسا تاریخ دان نہیں جس نے اس غلطی کا ذکر نہ کیا ہو۔ دلیپ ہیرو جو کہ ہندوستانی ہیں اس کو \”گاندھیز اوریجنل سن\” گردانتے ہیں۔ جسونت سنگھ اپنی کتاب میں اس کو گاندھی کی سب سے بڑی غلطی کہتے ہیں۔ اقبال احمد اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گاندھی کی اس غلطی نے ہندوستانی سیاست میں فرقہ پرستی کی داغ بیل ڈالی۔ اچوتھ پتوردھن اس کو گاندھی کی ہمالین بلنڈر کہتے ہیں۔ غرض کہ جس نے بھی اس موضوع پر لکھا ہے اس نے یہ ضرور کہا ہے کہ گاندھی سے یہ غلطی سرزد ہوئی۔ پھر اس کے علاوہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جناح نے گاندھی کو اس بارے میں بہت سمجھایا پر گاندھی نے ایک نہ مانی۔

ملک صاحب کو شاید اس پر بھی اعتراض تھا کہ میں نے جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا داعی کیوں کہا۔ بھائی یہ میں نے نہیں گوکھلے، سروجنی نائیڈو اور حتی کہ گاندھی نے خود کہا تھا۔ جناح کو بیٹھے بٹھائے ایک دن پاکستان بنانے کا خیال نہیں آیا تھا۔ پاکستان بنانے کے جناح بہت دیر مخالف رہے لیکن اگر آپ نے مہاتما کا اصل روپ پڑھنا ہے تو ہورمنس سیروائی کی کتاب بھی پڑھ لیجیے گا۔ وہ تقسیم ہند کا تمام تر ذمہ گاندھی جی کے سر ڈالتے ہیں۔ سیروائی بھارت کا ایک بہت بڑا نام ہیں۔

اگر میرے فاضل دوست نے بھارت کی آئین ساز اسمبلی کی کارروائی پڑھی ہوتی تو شاید وہ ہندوستان کے سیکولر ہونے کا سہرا باپو کے سر نہ ڈالتے کیوں کہ امبیدکر کی تقاریر اس کھوکھلے دعوے کا پول کھول دیتی ہیں۔ امبیدکر کی ہی کاوشوں کے نتیجے میں گاندھی کے خیالات کو آئین ہند کا حصہ نہیں بننے دیا گیا۔ آپ خود پڑھ کر تحقیق کرلیں۔

میرے بھارتی بھائی کو میرے دلتوں کے حوالے کہی گئی بات سے بھی اعتراض تھا۔ ٹھیک، آپ مجھے ایک دلت رہنما کا نام بتا دیں جو مہاتما کو اپنا خیر خواہ مانتا ہو۔ جو یہ کہتا ہوکہ گاندھی نے جو امبیدکر کے ساتھ کیا تھا اور جو پونا پیکٹ میں کیا تھا وہ دلتوں کے حق میں بہتر تھا؟

پھر مالک صاحب اس پر بھی سیخ پا ہوئے کہ میں نے مجلس احرار کا ذکر کیا۔ مالک صاحب مجلس احرار کی تاریخ خود اٹھا کر دیکھ لیں۔ مجلس احرار کس کی ایما پر اہل تشیع اور احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رہے تھے۔ لکھنؤ میں مدح صحابہ تحریک کس کے کہنے پر چلائی گئی؟ جناح کو شیعہ کافر اعظم کس کے حکم پر کہا گیا؟ مسلم لیگ کو کافر لیگ کس کے اشارے پر کہا گیا۔ جناح کو قادیانی نواز ہونے کا طعنہ کس کی ایما پر دیا گیا؟ جناح کی مسلم لیگ میں تو شیعہ بھی تھے، احمدی بھی تھے اور سنی بھی تھے۔ کس نے مجلس احرار کو تفرقہ بازی پر اکسایا۔ اس کا جواب آپ کو عائشہ جلال کی کتاب سیلف اینڈ سورنٹی میں مل جائے گا۔

گاندھی جی درجہ اول کے سیاست دان تھے۔ جناح بھی درجہ اول کے سیاستدان تھے۔ اس سے زیادہ ان کا کوئی تقابل نہیں۔ اگر کوئی گاندھی جی کو مہاتما سمجھتا ہے تو اس کی مرضی ہے۔ اگر جناح کو کوئی قائد اعظم کہتا ہے تو یہ اس کی رائے ہے۔ میں تو پھر وہی کہوں گا جو میں پہلے کہا تھا۔ ہم ان تاریخ ساز شخصیات کو مہاتما اور قائد اعظم بلا کر ان کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments