ٹھرک – دل پھینک عاشق سے مبلغ تک


”تم دھوپ کا چشمہ نہ پہنا کرو“ اشعر بھائی گہری نظروں سے دردانہ کو تاڑتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
”کیوں بھلا“ ۔ دردانہ اٹھلائی۔ ”سوا نیزے پر سورج ہوتا ہے اس جہنمی شہر میں۔ سیدھا آنکھ کی پتلی میں گھستا ہے“

”تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں انہیں یوں سیاہ شیشے کے پیچھے چھپا لینا ظلم ہے“ ۔ اشعر بھائی نے ہماری موجودگی کو بالکل خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے جذبات کی ترجمانی جاری رکھی۔ دردانہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ عموماً لڑکیاں اپنی تعریف پر ایسا ہی کرتی ہیں۔

”اشعر بھائی ؛اس دن تو آپ ڈاکٹر فرح کی آنکھوں کی تعریف کر رہے تھے“ ۔ ہم نے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کی۔

”ہاں، لیکن ان آنکھوں کی کیا بات ہے۔ جو مقام دلکشی ان بلوری آنکھوں کا ہے وہ کسی اور کا کہاں۔“
اشعر بھائی ذرا جو چوکے ہوں۔ احمد فراز کے انداز میں شعر بھی پڑھ مارا۔
دعوت عشق دے رہی ہیں ساغر بلوری آنکھیں
جو محبت سے ناواقف تھے وہ بھی خطا کر بیٹھے

اشعر بھائی فائنل ائر میں تھے اور ہم فرسٹ ائر کے بالکے۔ اشعر بھائی ہماری سہیلی دردانہ کے پڑوسی تھے۔ شادی شدہ تھے اور تیسری بار باپ بننے والے تھے پھر بھی اس بات کا رونا روتے تھے کہ ان کے والدین نے کم عمری میں ان کی ناپسندیدہ لڑکی ان پر مسلط کردی تھی، جو ان کو تسکین دینے میں قطعی طور پر ناکام رہی تھی۔ مجبور ”اوہ یہ سکون اور طمانیت ادھر ادھر سے حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے تھے۔ ناٹے قد، گورے رنگ اور اچھے نین نقش کے مالک تھے۔ ان کی قمیض پتلون سے باہر ہوتی تھی اور گریبان ہمیشہ اوپری دو کاجوں تک کھلا ہوتا تھا۔

”حق بات ہے ان کی بیوی ان کا خیال نہیں رکھتی ورنہ اوپر کے دو بٹن ہی ٹانک دیتی۔“ ہم نے ہمدردی سے سوچا تھا۔ ان کی دکھ بھری داستانیں سن کر ایک موٹی، بھدی، جاہل، گنوار عورت ہمارے تصور میں آتی تھی۔ ہم سوچا کرتے، اس سے تو اچھا ہے وہ دردانہ سے ہی شادی کر لیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ہم نے دردانہ کے علاوہ بھی انہیں ریشہ خطمی ہوتے دیکھا تھا۔ شاید وہ محبت میں وحدت کے قائل نہ تھے۔ بہت سے مرد نہیں ہوتے۔ مگر پھر یوں ہوا کہ دردانہ نے بھی یہ راز پا لیا اور ان کے بجائے ایک عاشق صادق کے ساتھ بیاہ کر لیا۔

دردانہ کی شادی پر اشعر بھائی کی بیگم سے ملاقات ہوئی تو ان کے لئے تراشے گئے تصور پر ندامت ہوئی۔ متناسب قد و قامت اور صبیح رنگت والی آصفہ بھابی زیرک اور شیریں سخن تھیں۔ وہ کلام کرتی تھیں اور ہم ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم۔ کے مصداق سراپا گوش تھے۔ تب مردوں کی نفسیات ہم۔ پر کھلی کہ کہ ٹھرکی مرد اپنی آوارگی کا عذر تراشے کے لئے اپنی نا آسودہ شادی اور بیوی کی غیر حقیقی خامیوں کے فسانے گھڑتے ہیں۔ چونکہ لڑکیاں طبعاً ہمدردی کے جذبات سے لبریز ہوتی ہیں۔ اس لئے مردوں کی خود ساختہ مظلومیت کے جھانسے میں آجاتی ہیں۔ یقین کر لیتی ہیں کہ بس وہی ہیں جو اس معصوم مظلوم مرد کے درد کی دوا کر سکتی ہیں۔

منٹو نے اپنے ایک ادھورے مضمون میں ”ٹھرک“ کی تعریف کچھ اس طرح بیان کی تھی کہ ٹھرک، عشق کی نامکمل اور نا آسودہ شکل ہے۔ عشق چوب خشک کی طرح دھڑ دھڑ جل جانے کو کہتے ہیں جبکہ ٹھرک گیلی لکڑی کی طرح آہستہ آہستہ سلگتے رہنے کا نام ہے۔

ہمارے نزدیک ٹھرک مردوں کا ایک نفسیاتی مرض ہے جس میں عمر کی کوئی قید نہیں اور اس میں مرد نہیں بلکہ متاثرہ خاتون سلگتی ہے۔

دردانہ کی شادی ہو گئی اور اشعر بھائی کا فائنل، اور یوں ہم ان کی مزید ٹھرکی مہم جوئی کے مشاہدے سے محروم ہو گئے۔ وقت نے کئی کروٹیں لیں اور ہم نے بھی طب کی سند حاصل کر کے سرکاری نوکری کرلی۔ کچھ اور برس گزرے اور ہمارا ٹرانسفر شہر کے مضافات میں ایک ہسپتال میں ہو گیا۔ ہمیں سرجیکل وارڈ میں تعینات کیا گیا۔ وارڈ میں ہم سے پہلے ایک ہی خاتون میڈیکل افسر تھیں ڈاکٹر افشاں، باقی تمام جونیئر اور سینئر ڈاکٹر مرد صاحبان تھے۔ اکثر ایک ڈاکٹر صاحب کا تذکرہ رہتا۔ ان کا ذکر نیک، عبادت گزار اور بزرگ ہستی کے طور پر کیا جاتا۔

”لیکن وہ ہیں کہاں“ ۔ ایک دن ہم نے پوچھ ہی لیا
”وہ آج کل تبلیغ پر گئے ہوئے ہیں“ ہمیں بتایا گیا

کوئی مہینے بھر بعد کی بات ہے۔ ایک صبح وارڈ پہنچے تو معلوم ہوا ڈاکٹر صاحب آ گئے ہیں۔ کامن روم میں بیٹھے ہیں۔ مارے اشتیاق کے سارے کام چھوڑ کر کامن روم کا رخ کیا۔ دروازے کی جانب ان کی پشت تھی لیکن ہم دیکھ سکتے تھے کہ کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص نے سفید کرتا شلوار پہنا ہے اور ان کے سر پر کئی بل والا سفید عمامہ ہے۔ سیاہ بغیر فیتے والے جوتوں سے چھ انچ اونچے پائنچوں کے نیچے ان کے سفید پیر جھانک رہے تھے۔ ان کے آگے میز پر ہماری دادی کے جیسا ڈوری کھینچنے والا پان چھالیہ کا بٹوا دھرا تھا۔

وہ کسی مذہبی موضوع پر گفتگو فرما رہے تھے اور حاضرین نہایت ادب و انہماک سے سن رہے تھے۔ ہم جیسے ہی نصف قطر کی منزلت طے کر کے مقابل پہنچے تو دم بخود رہ گئے۔ کچھ دیر تک اپنی بصارت پر بے یقینی سے آنکھیں جھپکتے رہے کہیں چمکدار دھوپ سے چھاؤں میں آنے سے بینائی مقصور تو نہیں ہو گئی۔ بارے یقین ہو گیا کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ ہی حقیقت ہے تو بے اختیار منہ سے نکلا

”اشعر بھائی آپ! “

اس سے پہلے کہ ہم کچھ اور کہہ سکتے اشعر بھائی نے ہاتھ اٹھا کر ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ تمام ڈاکٹر صاحبان ہماری جانب خشمگیں نظروں سے دیکھنے لگے جیسے کہ ہم نے انتہائی اہم مذہبی گفتگو کے درمیان میں ٹوک کر بد تہذیبی اور بے ادبی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن ہمیں جانے کیوں ایسا لگا کہ اشعر بھائی ہمیں ماضی کا کوئی حوالہ دینے سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم خاموشی سے اپنی نشست پر بیٹھ کر ان کا خطبہ سننے لگے۔ حیف ہمارے گستاخ اذن، وہ تو، پان کے مرہون منت لب لعلیں سے ادا ہوتے کچھ اور ہی الفاظ سن رہے تھے۔

”تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں انہیں سیاہ شیشوں کے پیچھے چھپا لینا ظلم ہے۔“

ہم نے ان کی عیب کشائی نہ کی تاہم ہمیں یہ جاننے کی بے چینی تھی کہ اس کایا کلپ کے پیچھے کیا چمتکار ہے۔ ہم کبھی تناسخ یا آواگون کے قائل نہیں رہے مگر عقل حیران اور فہم پریشان، کہ یہ نورانی استحالہ کیونکر ممکن ہوا۔ آخرکار ایک دن موقع پاکر اپنی الجھن ان کے گوش گزار کر ڈالی۔ اشعر بھائی نے ڈوری کھینچ کر بٹوا کھولا اور چند الائچیاں ہماری طرف بڑھاتے ہوئے گویا ہوئے۔

”ہماری زوجہ فرماتی ہیں کہ چوتھے بچے کی پیدائش کے دوران درد زہ سہتے ہوئے انہوں نے گڑگڑا کر اللہ سے ہمارے راہ راست پر آنے کی دعا مانگی۔ کہتے ہیں تخلیق کے عمل کے دوران عورت خالق کے پیرہن میں ہوتی ہے اور خالق کو اس پر بہت پیار آتا ہے۔ اس وقت جو دعا مانگی جائے بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت پاتی ہے۔ بس ہمارا دل بدل گیا اور ہماری کایا پلٹ گئی۔“

ہم سوچ رہے تھے آصفہ بھابی نے دعا مانگنے کے لئے چوتھے بچے کی ولادت تک کیوں انتظار کیا، پہلے پر ہی کیوں نہ درخواست دائر کردی۔

ہم دل لگا کر سرجیکل وارڈ میں کام کر رہے تھے۔ او پی ڈی کرتے، وارڈ دیکھتے اور آپریشن تھیٹر بھی جاتے۔ آپریشن تھیٹر کے لئے نیا نیلا لباس سلوایا۔ پہلے دن پہن کر گئے تو چائے کے وقفے میں ڈاکٹر اشعر (اشعر بھائی کو اب ہم ڈاکٹر اشعر کہنے لگے تھے ) نے ہم سے فرمایا
”یہ کیا ’بیہودہ‘ لباس پہنا ہے تم نے“ ۔

ہمیں لفظ ’بیہودہ‘ پر شدید تحفظات تھے تاہم ناگواری کو ہنسی میں اڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”اسے انگریزی میں اسکربس اور مقامی اصطلاح میں بنڈہ پجامہ کہتے ہیں۔“
”لباس تن کے زیرو بم کو چھپانے کے بجائے نمایاں کرے تو اسے بیہودہ ہی کہیں گے“ انہوں نے کہا

”کسی خاص تراش خراش کے بغیر یہ ایک ڈھیلا ڈھالا لباس ہے اگر اس میں بھی آپ کی نظر جسمانی جغرافیہ کے پیچ و خم پڑھ سکتی ہے تو اس میں قصور لباس کا نہیں آپ کی نظر کی نفوذ پذیری کا ہے۔“ ہم نے لہجے کی ناگواری چھپانے کی کوشش نہیں کی۔

”دیکھو میں عموماً لوگوں کو نصیحت نہیں کرتا لیکن تم سے ایک تعلق ہے اس لئے ٹوکا ہے۔ یہ زندگی عارضی ہے ابدیت کی تیاری کرنی چاہیے۔

”خیال زہد ابھی کہاں، ابھی تو میں جوان ہوں“ ہم نے ماحول کو لائٹ کرنے کے لئے حفیظ جالندھری کا مصرعہ مستعار لیا۔ جسے یکسر نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے تبلیغ جاری رکھی۔
”دین کا علم حاصل کرنا چاہیے“

”اپ یہ گمان کیونکر کرتے ہیں کہ میرے پاس دین کا علم نہیں۔ کیا آپ نے ہم سے کوئی مناظرہ کیا ہے۔“ ہم شاید گستاخ ہو چلے تھے مگر وہ رسان سے بولے
”دین کا علم باطن اور ظاہر دونوں پر اثر پذیر ہونا چاہیے۔ تم حجاب کیوں نہیں پہنتیں“

”حجاب پہننے پر مجھے تخنق (گھٹن) محسوس ہوتا ہے۔ تاہم حجاب نہ پہننے کا یہ مطلب نہیں کہ میں لادین ہوں“ ہم نے جز بز ہو کر کہا

”دین عبادت ہی نہیں معاشرت بھی ہے اور معاشرت میں لباس کی بہت اہمیت ہے۔ آپ کا ظاہری حلیہ اپ کے ایمان کا مظہر ہونا چاہیے۔“ ان کا خطاب جاری تھا کہ نرس نے اگلے مریض کے آپریشن ٹیبل پر آنے کی اطلاع دی۔ ہم ایک بے چینی کی کیفیت سے دوچار تھے۔ جانے یہ ڈاکٹر اشعر کے لفظ تھے یا نظریں جس نے ہمارے لباس کے تار تار ہونے کا احساس پیدا کر دیا تھا۔ اور یہ بے کلی رہی تا آنکہ ہم نے آپریشن گاون کی فصیل اپنے جسم کے گرد کھینچ لی۔ اس روز ہسپتال سے واپسی پر وہ نیلا لباس بلدیہ کے کوڑے دان کی خوراک بن گیا۔

پھر ڈاکٹر اشعر سے کوئی بات نہ ہوئی۔ اس روز وارڈ کا کام کچھ زیادہ ہی طویل ہو گیا تھا۔ سر میں درد ہو رہا تھا۔ کیفے ٹیریا فون کر کے کڑک چائے کا آرڈر دیا اور کامن روم میں چلی آئی۔ ڈاکٹر اشعر اور ڈاکٹر افشاں پہلے سے موجود تھے۔ ڈاکٹر اشعر گہری نظروں سے ڈاکٹر افشاں کو تاڑتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
”آپ کی کیا بات ہے اپ کا جو مقام ہے وہ کسی اور کا کہاں“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments