فاٹا، ریفرینڈم اور محمود اچکزئی


\"\"

7 فروری کو منعقد ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈے سے فاٹا ریفارمز کے بارے میں فیصلے کے شق نکال دی گئی۔ جس کامطلب یہ ہے کہ آل فاٹا سیاسی اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتوں، فاٹا کے منتخب ایم این ایز کے اکثریت، سول سوسائٹی اورخود فاٹا اصلاحات کمیٹی، ان سب کے انضمام کے حق میں بننے والی رائے کو اچکزئی اور مولانا صاحب کے اختلاف کے بنیاد پر ویٹو کر دیا گیا ہے۔ چند دن پہلے سلیم صافی نے اپنے کالم میں فاٹا اصلاحات کے حوالے سے مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب کو وزیراعظم کے “پراکسیز“ قرار دیا تھا (دروغ برگردن راوی) جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت خود ہی اصلاحات کے بارے میں نیک نیت نہیں ہے جس کا ایک تازہ ثبوت یہ ہے کہ 7 فروری کے اجلاس میں اس موضوع کو ایجنڈے سے ہی نکال دیا گیا ہے ورنہ انضمام کا فیصلہ نہ سہی، انضمام کے مخالفت سامنے آنے کے بعد نئی صورتحال کے مطابق حکمت عملی پر تو غور کیا جا سکتا تھا۔

اب ایک طرف صورتحال یہ ہے کہ حکومت نے فاٹا کے عوام کے اکثریت کے مختلف صورتوں میں انضمام کے حق میں آنے والی رائے کو مدنظر رکھ کر کثرت رائے کے اصول کے مطابق انضمام کو حتمی شکل دینے کے بجائے اس مسئلے کو “اتفاق رائے“ سے مشروط کر دیا ہے مگر جب مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب کے اختلاف کو بنیاد بنا کر انضمام کے آپشن کو متنازعہ اور پھر مسترد کر دیا جاتا ہے تو اس سے کسی مختلف آپشن پر دوسری سیاسی جماعتوں کے متفق نہ ہونے کے صورت میں پھراس آپشن پر کس اصول کے بنیاد پر عمل کیا جا سکے گا؟

اورجہاں تک قبائل کے رائے معلوم کرنے کے لئے ریفرنڈم کے مطالبے کے بات ہے تو موجودہ صورتحال میں اس پرعمل ناممکن ہی ہے اور پھر ریفرنڈم کے انعقاد کے صورت میں اس کے شفافیت بھی اسی طرح متنازع رہے گا جس طرح انضمام پر متفق ہونے والی مجوزہ رائے کو متنازعہ بنایا گیا ہے۔

پاکستان کے تاریخ یہ ہے کہ جس مسئلے کا بھی حل ”اتفاق رائے“ یا ریفرنڈم سے مشروط کیا جائے وہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوسکتا ریفرنڈم کے ضرورت اور جواز کے بارے میں سکاٹ لینڈ اور مشرقی تیمور کا حوالہ دیا جاتا ہے جبکہ اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ سکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم برطانیہ کے شفاف انتخابی سسٹم کے تحت منعقد ہوئی تھی جبکہ 1999 میں مشرقی تیمور میں ہونے والے ریفرنڈم کے نگرانی اقوام متحدہ نے کے تھی جبکہ پاکستان میں اب تک دو ہی طرح کے ریفرنڈم متعارف ہیں

ایک قسم کا ریفرنڈم وہ ہے جو کالاباغ ڈیم کے بارے میں 1983 سے ”زیرغور“ ہے اور تینتیس سالوں میں اس کے انعقاد کا مرحلہ نہیں آیا ہے اور نہ ہی آیندہ مزید 33 سالوں میں اس کا امکان دکھائی دیتا ہے

جبکہ دوسری قسم کا ریفرنڈم وہ ہے جس کا انعقاد جنرل ضیاءالحق اور پرویز مشرف نے کیا تھا جس میں 90 فیصد ووٹ پول ہوئے تھے اور کوئی ایک ووٹ بھی ریفرنڈم کرانے والے کے رائے اور خواہش سے مختلف نہیں آیا تھا اب جبکہ فاٹا کے مستقبل کے بارے میں ریفرنڈم کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تو اس مطالبہ کرنے والوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ پاکستان میں ریفرنڈم کے ان دو ماڈلز میں سے کس ماڈل کو پسند کریں گے؟

لہذا معلوم یہ ہوتا ہے کہ فاٹا اصلاحات کے بارے میں درکار “اتفاق رائے“ کا بھی وہی حشر ہو رہا ہے جس اتفاق رائے کو کالا باغ ڈیم کے بارے میں 1983سے تلاش کیا جا رہا ہے اس لئے فی الوقت زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایف سی آرمیں ترامیم کرکے اسے ایک دوسرے نام سے لاگو کر کے فاٹا کے موجودہ سٹیٹس کو برقرار رکھا جائے

اس لئے فاٹا میں رہنے والے“آزاد قبائل“ کو نوید ہوکہ ان کے گردن میں آئین اور قانون کے عملداری کے صورت میں ”غلامی“ کا طوق ڈالنے کے کوشش فی الحال ناکامی سے دوچارہو چکی ہے لہذا وہ ”علاقہ غیر“ میں رہتے ہوئے ”یاغستان“ کی آزاد فضاووں میں اپنی آزادی انجوائے کریں۔

ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے والے دونوں رہنماؤں کا شمار پاکستان کے بزرگ اور قد آور لیڈروں میں ہوتا ہے اور قومی سیاست میں دونوں رہنماؤں کے والدین بھی ایک فعال رول کے ساتھ سرگرم رہے ہیں اس لئے ان کے موجودہ موقف کا جائزە ان کے ماضی کی تاریخ کے روشنی میں بھی لیا جا سکتا ہے

1973کے آئین میں سب سے زیادہ ترامیم خود اس آئین کے بانی شہید ذوالفقارعلی بھٹو نے ہی کے تھی ان کی ساتواں اور آخری ترمیم یہ تھی کہ اگر وزیراعظم مناسب سمجھے تو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے ریفرنڈم کے ذریعے ”براہ راست“ عوام کے پاس جانے کا فیصلہ کر سکتا ہے لیکن پی این اے اور مولانا فضل الرحمن کے والد بزرگوار مولانا مفتی محمود نے اس بنیاد پر اس آئینی ترمیم کے مخالفت کے تھی کہ اس سے پارلیمنٹ کے سپرمیسی متاثر ہوگی مگر آج اسی پارلیمنٹ اور عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب نمایندوں کے موجودگی میں جناب مولانا فضل الرحمن فاٹا کے مستقبل کے فیصلے کے لئے ریفرنڈم کا مطالبہ کررہے ہیں۔

اس حوالے سے پشتو زبان بولنے والے لوگوں پر مشتمل فاٹا کے مستقبل کے بارے میں سب سے بڑا سوالیہ نشان ”لر و بر“ پشتونوں کے ”وحدت“ کے علمبردار جناب محمود خان اچکزئی کے کردار پر اٹھتا ہے اس وقت محمود خان اچکزئی کی پارٹی کے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ وہ بلوچستان حکومت کا حصہ اور وفاقی حکومت کا اتحادی بننے کے بعد اپنے دیرینہ مطالبے ”جنوبی پشتونخوا“ صوبے کی تشکیل یا موجودہ بلوچستان میں بلوچوں کے ساتھ پشتونوں کی “برابری“ میں سے کسی ایک آپشن کے حصول کے طرف پیشرفت دکھاتے۔ الگ صوبے کے بارے میں تو سردار اختر مینگل اور دوسرے بلوچ رہنما بارہا یہ پیشکش کرچکے ہیں کہ پشتونخوا میپ اس کی قرارداد اسمبلی میں پیش کردے تو وہ سب اس کے حق میں ووٹ دیں گے لیکن اچکزئی صاحب کے پارٹی آج تک یہ کام نہیں کرسکی ہے۔

اس کے بعد نوبت آتی ہے دوسری آپشن یعنی بلوچوں کے ساتھ ”برابری“ کی۔ تو اس حوالے سے بھی پی ایم اے پی (اپنے نظرئے کے مطابق) کوئی بھی مستقل آئینی بندوبست کرانے میں ناکام رہی ہے۔ لے دے کے وہ اپنے سادہ لوح سپورٹرز کو ٹرخانے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ پشتون گورنر اور بلوچ وزیراعلٰی کے صورت میں یہ مقصد حاصل کیا جا چکا ہے۔ لیکن ایک تو برابری کا مفہوم عہدوں کی تقسیم نہیں بلکہ اختیارات اور وسائل کی مستقل مساوی تقسیم ہے اوردوسری بات یہ ہے کہ پشتون گورنرصرف پی ایم اے پی کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ اس پہلے بھی سردار گل محمد جوگیزئی، سید فضل آغا اور اویس احمد غنی کے صورت میں پشتون گورنر رہے ہیں

یہ باتیں آج اس لئے کہنی پڑرہی ہے کہ محترم اچکزئی صاحب اس وقت بلوچستان اورجنوبی پشتونخوا کو چھوڑ کر فاٹا کے مستقبل کے بارے میں زیادہ فکرمند اور متحرک ہے اور اس حوالے سے انہوں نے جو موقف اپنایا ہے اس سے اسی طرح کے ایک دوسرے تاریخی واقعے کے یاد تازە ہورہی ہے۔

1970میں جنرل یحیی خان کے جانب سے ون یونٹ کے خاتمے اور صوبوں کے موجودہ صورت میں بحالی کے بعد محمود خان اچکزئی کے والد شہید عبدالصمد خان نے خان عبدالولی خان اور نیپ سے اس بنیاد پر علیحدگی اور مستقل کنارہ کشی اختیار کرلی تھی کہ خان عبدالولی خان نے صوبہ سرحد کے موجودہ شکل کوقبول کرتے ہوئے اس میں برٹش بلوچستان کے پشتونوں کے سرحد کے پشتونوں کے ساتھ انضمام کا مطالبہ کیوں نہیں کیا۔ اس واقعے کو آج 45 سال گذر چکے ہیں مگرتاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج خان عبدالصمد خان شہید کا فرزند انضمام کی مخالفت کرکے وہاں کھڑے ہیں جہاں 45 سال قبل خان عبدالولی خان کھڑے تھے۔

سوال یہ ہے کہ پشتونوں کے انضمام کے خان شہید عبدالصمد خان کی پالیسی درست تھی یا پشتونوں کے تین صوبے بنانے اوران کے باہمی انضمام کے مخالفت کرنے کے محمود خان اچکزئی صاحب کی پالیسی صحیح ہے؟

اپنے نظریئے اور تاریخ کے روشنی میں اچکزئی صاحب اس حوالے سے اپنی قوم اور تاریخ کو کیا جواب دیں گے؟ مگرتاریخ یہ ضرورلکھے گی کہ ایک ملک کے 27000 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے لوگ اپنے اوپر اس ملک کے آئین کے 280 کے 280 آرٹیکلز کے لاگو ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے مگر ریاست ان پر صرف 4 آرٹیکلز کے لاگو ہونے پر بضد تھی

اور ان لوگوں کے اس مطالبے کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے والے رہنما بھی وہ تھے خود بھی ان 280 آرٹیکلز کے تحت ہی زندگی گزاررہے تھے۔ مسئلہ“عوام کی رائے جاننے“ کا نہیں بلکہ اگر کمیٹی کی سفارش الگ صوبے کے صورت میں آتا تو پھر نہ ”عوام کی رائے“ کے بات ہوتی اورنہ ہی عوام کے رائے جاننے کے لئے صرف ریفرنڈم کی ہی (پاکستان میں ناممکن) تیکنیک پر اصرار ہوتا اگر مسئلہ واقعی عوام کے رائے کا ہی ہے تو پھر اس مجوزہ ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے کے بعد اگلے ہی لمحے یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے اس لئے لگتا یہ ہے کہ مقصد انضمام کا بہرصورت راستہ روکنا ہے اور اس مقصد کے لئے امید کی کچھ رمق ریفرنڈم کی ہی صورت میں موجود دکھائی دیتی ہے کہ ہوسکتا ہے ”غیرت“ اور “رواج“ کا واسطہ دے کر ایک عام اور سادہ لوح قبائلی کو سویلائزیشن کے طرف بڑھنے کی “بے غیرتی“ اور “آبا و اجداد کے لائف سٹائل“ سے منحرف ہونے کے ”جرم “ سے روکا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments