میں عبوری صوبہ کا حامی کیوں ہوں؟


۔

اس کالم کے ذریعے پہلے ہی اپنی بات رکھ چکا ہوں کہ گلگت بلتستان ایسا صوبہ ہو جیسے پنجاب ہے، سندھ ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا ہیں۔

میں کیسا صوبہ چاہتا ہوں؟

ایسا صوبہ جو آئین پاکستان کے تحت بنے۔ ایسا صوبہ جس کی آئینی اداروں تک رسائی اور نمائندگی ہو۔ ایسا صوبہ جو پاکستان کے مالیاتی فورمز پر حصہ دار ہو۔ ایسا صوبہ جس کو وفاق پاکستان سے محصولات کا حصہ اس قدر ملے جتنا اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت ملنا چاہیے۔ ایسا صوبہ جس کو قومی اسمبلی میں آبادی، سینیٹ میں برابری کی بنیاد پر نشستیں ملیں۔ ایسی اکائی جو آئین پاکستان کے مطابق پاکستان کی جغرافیائی حدود میں شامل ہو۔ سوال یہ ہے کیا ایسا صوبہ بننے جا رہا ہے؟ اس کا جواب ہے، فی الحال نہیں۔ پھر میں عبوری صوبہ کا حامی کیوں ہوں؟ اور اس کا جواب یہ کہ میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہے۔

میرے کچھ دوست ایک آپشن بتا رہے ہیں کہ ”کشمیر طرز کا سیٹ اپ ملے“ ۔ آئیے دیکھتے ہیں کشمیر سیٹ اپ کیا ہے؟

کشمیر دو ہیں۔ اگر تو میرے احباب بات بھارتی زیر انتظام کشمیر کی کر رہے ہیں تو عرض یہ ہے کہ اس خصوصی صوبے کے اسٹیٹس کو مودی سرکار نے 5 اگست 2019 کو اڑا دیا ہے۔ گلگت بلتستان کے عبوری صوبہ بننے کی راہ ہموار ہی سرحد پار کشمیر پر بھارت سرکار کے آئینی وار کے بعد ہوئی ہے۔ اور اگر ”کشمیر طرز“ پاکستانی کشمیر کی طرف اشارہ ہے تو بصد ادب گوش گزار! کہ آزاد کشمیر سیاسی طور پر کوئی خود مختار علاقہ نہیں۔ کیا کشمیر کا وزیر اعظم پاکستان کے گنڈاپور جیسے وزیر کے نیچے نہیں ہے؟

کیا کشمیر میں پاکستان کے مرکز کی حکمران جماعت اپنی مرضی کی حکومت بناتی نہیں رہی ہے؟ کیا کشمیر کی ”آزاد“ حکومت اسلام آباد کی حکومت سے بالا ہے؟ کیا وزیر اعظم آزاد کشمیر پنجاب یا سندھ کے وزیر اعلیٰ سے با اختیار و خود مختار ہے؟ یہ بات بہت زیادہ نوٹ کرنے کی ہے کہ اس وقت آئین پاکستان کے تحت صوبے کا وزیر اعلی کافی با اختیار ہے۔ خاص طور پر مالیاتی امور میں وزیر اعلی مطلق العنان بن چکا ہے۔ وزیر اعلی کے آگے مرکزی حکومت بھی روک ٹوک نہیں لگا سکتی۔ اٹھارہویں ترمیم نے پاکستان کے صوبوں کو نہ صرف انتظامی اور مالیاتی بلکہ سیاسی طور پر بھی امپاور کر دیا ہے۔ دوسری جانب آزاد کشمیر کی آئین ساز اسمبلی اور نام نہاد آزاد حکومت سب کو معلوم ہے کتنی با اختیار ہے۔

گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ وزیر اعلی وزیراعظم ہو گا۔ گورنر صدر کہلائے گا۔ اپیلٹ کورٹ کو سپریم کورٹ کا نام دیا جائے گا۔ چلیں اپنی خوشی کے لئے آپ ایک ترانہ بھی جاری کر دیں۔ ایک جھنڈا بھی بنا لیں مگر اس سے ہو گا کیا؟ کیا پاکستان کی عمل داری ختم ہو جائے گی؟ کیا گلگت بلتستان والے فکر معاش، تعلیم، علاج و معالج کے لئے پاکستان کے شہروں میں جانا چھوڑ دیں گے؟

کیا گلگت بلتستان میں پاکستان کی مالیات سے چلنے والی ملازمتوں، تنخواہوں کی ضرورت باقی نہیں رہے گی؟ کیا آج آزاد کشمیر مالی، معاشی، سیاسی اور دفاعی طور پر پاکستان پر انحصار نہیں کرتا؟ یعنی آزاد کشمیر سات عشروں سے اپنا ایک ڈمی آئین، اپنا قومی ترانہ، اپنی نام نہاد آئین ساز اسمبلی اور اپنے صدر، وزیر اعظم لے کر آج بھی پاکستان کی طرف دیکھتا ہے تو گلگت بلتستان یہ سیٹ اپ لے کر کون سا تیر مارے گا؟ لہذا میرے پاس ایک ہی آپشن بچتا ہے کہ گلگت بلتستان کے بطور پاکستان کے صوبہ حمایت کی جائے۔

سوال مگر برقرار ہے کہ عبوری آئینی صوبے کی حمایت کیوں؟ اس باب میں میرے نتائج فکر یہ ہیں کہ جب گلگت بلتستان کا مستقبل پاکستان ہے تو اسے پاکستان کے آئین کے اندر آجانا چاہیے۔ پاکستان آج اگر اپنی مخصوص خارجہ پالیسی، 70 سال کے بے ثمر کشمیر کاز اور کچھ بین الاقوامی معاملات کی وجہ سے محتاط ہے اور صوبہ کے آگے ”عبوری“ کا لفظ لگا کر ریاستی وقار کو بچانا چاہ رہا ہے تو ہمیں بھی اس مصلحت کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔

مجوزہ آئینی ترمیم کے ڈرافٹ کے مطابق ”اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق (رائے شماری کے ذریعے ) مسئلہ کشمیر کے حل تک عبوری صوبہ“ کے الفاظ استعمال ہو رہے ہیں۔ اور یہ بات سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ آگے مسئلہ کشمیر نہ طاقت سے حل ہونا ہے نہ رائے شماری ممکن ہے، سو آئین پاکستان کے اندر سے ہی گلگت بلتستان صوبہ بننے جا رہا ہے۔ اور اس وقت یہ بھی غنیمت ہے۔ ہاں! گلگت بلتستان کی حکومت اور رائے عامہ کو یہ مطالبہ زور دے کے کرنا چاہیے کہ آئین میں گلگت بلتستان کو متنازع نہ لکھا جائے، آج تک دستور پاکستان کی رو سے گلگت بلتستان متنازع نہیں ہے۔

آئین کی شق ایک کی ذیلی شق دو د (ٹو ڈی) کے مطابق جی بی کو پاکستان کی حدود میں شامل کرنا بھی اہم ہے۔ بار دگر عرض کہ ہمارا مطالبہ اور ہماری خواہش یہی ہے کہ گلگت بلتستان ایسا صوبہ ہو جس کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی آئین پاکستان کے دیے گئے کلیے کے مطابق ہو۔ آئین کے آرٹیکل 160 کے مطابق وفاق کے محصولات میں سے حصہ بقدر جثہ ملے۔ قومی اقتصادی کمیشن، مشترکہ مفادات کونسل اور دیگر مالیاتی و آئینی اداروں میں نمائندگی ملے۔

2009 میں گلگت بلتستان کو ایک آرڈر کے تحت صوبہ جیسا سیٹ اپ ملا۔ آج صرف 11 سال بعد آئین کے اندر سے صوبائی سیٹ اپ ملنے جا رہا ہے۔ سو امید رکھی جا سکتی ہے کہ آگے بھی گلگت بلتستان کے قومی دھارے میں شامل ہونے کا عمل تیزی سے جاری رہے گا۔ ایک مکمل صوبے کے باقی ماندہ اختیارات بھی مل جائیں گے۔ لہذا چشم بینا سے حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے تو آئینی صوبہ کشمیر طرز ریاست سے با اختیار اور فائدہ مند ہے۔ یہ گلگت بلتستان کی ضرورتوں کے زیادہ قریب ہے۔ داخلی خود مختاری نرگسیت پر مبنی تصور ہے جبکہ ہمیں عقلیت سے اس معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عبوری صوبہ اس سمے بہتر آپشن ہے۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments