کوئی گناہ معمولی نہیں ہوتا


 

ہمارے معاشرے میں کچھ برائیاں اور گناہ ایسے ہیں جن کو غلط سمجھا ہی نہیں جاتا ہے، بلکہ جس اعتماد کے ساتھ کیے جاتے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے ثواب کی نیت سے ہو رہے ہیں، ماضی میں سنتے تھے کہ دروازے پر کوئی آئے تو کچھ بچے کہہ دیتے تھے کہ ابو گھر پر نہیں کیونکہ فرمانبردار بچے جو تھے، جھوٹ کی تربیت بچپن سے ہو رہی تھی۔

جب سکول میں ہوم ورک کا پوچھا جاتا تھا تو چند طلبہ کے پاس بہترین جواب ہوتا تھا کہ کاپی گھر رہ گئی ہے۔ ان کے نزدیک نہ یہ جھوٹ تھا اور نہ ہی گناہ۔

جھوٹ بھی سچ کی طرح بولنا آتا ہے اسے
کوئی لکنت بھی کہیں پر نہیں آنے دیتا

لیکن اب زمانہ ترقی کر گیا ہے، راستہ چلتے پھل کی ریڑھی سے ایک بیر کھائیں اور چلتے بنیں، آلو کے چپس جسے فرینچ فرائز کہتے ہیں پیک کرواتے ہوئے ایک دو مفت میں بھی کھائیں، سموسے لیتے ہوئے نمک پارے بغیر اجازت چیک کرنا بھی فرض سمجھا جاتا ہے، کبھی گنڈیری کھانے کا دل ہو تو مفت میں حاضر، غریب کی ریڑھی ڈھونڈیں، کھائیں اور رفو چکر۔ ڈرائی فروٹ کی شاپ پر تو مفت کی پارٹی کا موقع مل جاتا ہے، چیک کرنے کے پیسے نہیں دینے اور خریدنے کے لئے زبردستی کوئی نہیں۔

بیچنے والا دیکھ کر بھی کچھ نہیں کہے گا بس آپ کا ضمیر سویا ہونا ضروری ہے۔

اگر کبھی خربوزہ کھانے کا دل ہو تو فکر کیسی۔ ایک ایسا بہترین نسخہ ہے کہ مفت کے مزے، کسی مجبور پھل فروش کو ڈھونڈیں، اس کی غربت کا فائدہ اٹھائیں، چیک کرنے کے لئے مانگیں، کھائیں اور پھیکا کہہ کر چلتے بنیں۔

دفتر میں کسی سے بال پوائنٹ لیں، کام کریں، جیب میں رکھیں اور بس جائیں، وہ بیچارہ تمام عمر اسی تلاش میں رہے گا کہ پین کہاں رکھ دیا تھا۔

چوک پر پولیس والا نہیں موجود ہے تو لال سگنل پر کیوں رکیں قانون تو لاگو ہوتا ہے جب کوئی دیکھ رہا ہو، یہ ایک اور غلط سوچ ہے۔

میں نے دیکھا ہے کہ سڑک پر چلتی بغیر نمبر پلیٹ یا ٹوٹی ہوئی نمبر پلیٹ والی موٹرسائیکل کو چلانے والا اکثر کوئی پولیس والا ہوتا ہے اور غلط سمت سے آتی ہوئی موٹر سائیکل پر بھی بعض دفعہ ٹریفک وارڈن یا ٹریفک پولیس والے سوار نظر آئیں گے جو کسی عام شہری کا چالان کرنے جا رہے ہوتے ہیں یا کسی کا چالان کر کے آرہے ہوتے ہیں، ان کے نزدیک قانون میں ان کے اپنے لئے معافی ہے۔

کبھی گھر پر سودا سامان منگوائیں تو لانے والا 990 روپے کو 1000 کہے گا اور 440 کو 450 کہہ سکتا ہے، خریدار ہو سکتا ہے شریف اور ہمدرد آدمی ہو اور وہ اس سے بھی زیادہ تحفہ کی مد میں دینا چاہتا ہو، جس کو عرف عام میں ٹپ کہتے ہیں، لیکن حلال میں حرام کی آمیزش کرنا ایک عادت بنا لی گئی ہے جس کو گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔

طالب علمی کے دور میں ایک صاحب ایسے تھے جو خواتین کی محفل میں مستقل آنکھوں کی ورزش کرتے تھے اور روکا جائے تو اعتکاف کا ارادہ ظاہر کر دیتے تھے۔ وہ پابندی سے سالانہ بنیاد پر اعتکاف میں بیٹھ کر گناہ معاف کرواتے تھے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ توبہ میں نیت کی سچائی اور آئندہ نہ کرنے کا وعدہ بھی ضروری ہوتا ہے۔

اب بات کر لیتے ہیں رمضان کے بابرکت مہینے کی جس میں رحمتوں سے زیادہ سموسے اور پکوڑے سمیٹے جاتے ہیں۔ راستہ چلتے لوگ دست گریباں، بد زبانی میں اضافہ، ایسا لگتا ہے جیسے یا تو ہم روزہ کے مفہوم اور مقصد کو نہیں سمجھے ہیں یا پھر ریا کاری بہت ہے۔ میرے ذاتی دو اشعار آپ کی خدمت میں پیش ہیں

تھا جو ایک پیغام، سموسوں میں اڑا دیا
کھائے خوب پکوڑے، رہا تربیت کا فقدان
روزے کو تو شہزادؔ ہم نے فاقہ ہی بنا دیا
شرمندہ اگر ہوں، بدل جائیں اگلے رمضان

کوئی ٹرک الٹ جائے یا ریڑھی، اخلاقی کمزوری دیکھی جا سکتی ہے۔ کسی کے گھر میں لگے درخت کے پھل بغیر اجازت کھانا تو پھل کا ذائقہ ہی بڑھا دیتا ہے کیونکہ حرام کی ملاوٹ جو ہو گئی۔

یاد رکھیں، کوئی گناہ معمولی نہیں ہوتا ہے، ابھی سے غور و فکر شروع کیجئے، کیوں کہ حساب چھوٹے سے چھوٹے عمل کا بھی دینا ہو گا، جن غلط کاموں کو ہم معمولی سمجھتے ہیں وہ بھی گناہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments