تنوع، اختلاف اور خونی ہجوم


اگر آپ کو لگتا ہے کہ صرف آپ کا مذہب، مسلک، قوم، قبیلہ، نسل، جنس طبقہ برتر ہے تو فرینڈ ریکویسٹ نہ بھیجیے۔ یہ جملہ میرا نہیں بلکہ کوئٹہ کی بہادر بیٹی جلیلہ حیدر کا ہے۔

ایک خاتون جو اس خاص قبیلے سے تعلق ہونے کے باوجود کہ جس کے لئے محض ان کی نسلی پہچان ہی مار دیے جانے کے لئے کافی سمجھی جاتی ہے اور خود کوئٹہ کا شہر کہ جس کی فضا کو کئی ایک دہائیوں سے کچھ جانی مانی اور کچھ انجانی وجوہات پر مسلکی، سیاسی اور نسلی منافرت کا گڑھ بنا دیا گیا ہے۔ اس ماحول میں ایسی سوچ کا حامل ہونا بلاشبہ بیکراں فکری بلوغت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔

یہ سماجی تنوع کی سمجھ بوجھ اور ایک روادار معاشرے کو اپنی فکری عرق ریزی سے سینچنے کے پختہ اور کامل ارادے کا پرتو ہے۔ جس کا کامل ادراک جلیلہ حیدر جیسی بیٹیوں کو ہی ہوتا ہے جو بلا جرم و خطا مارے گئے اپنوں کی خونریزی کی عینی شاہد رہی ہوں۔ اور ان سے پیش آئے ہوئے جبر سے بذات خود گزری ہوں۔

میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنی کسی تحریر میں لکھا تھا کہ منافرت کی خطوط پر ہماری برسوں پر محیط کی گئی تربیت نے ہم کو ایسی مخلوق بنا دیا ہے جو لوگوں کو اذیت میں مبتلا کر کے شاد و مسرور ہونے کا احساس پاتی ہے۔ اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو اذیت کی تماش بینی سے ہی محظوظ ہو لیتی ہے۔

اب تو جنونیت ایک بھیڑ (ہجوم) کی صورت ہمارے شہروں میں بلا تفریق مسلک و مذہب اور قوم و قبیلہ بلا خوف و خطر دندناتی ہوئی موت بانٹ رہی ہے۔ اس پر نہ سنوائی کی سہولت اور نہ صفائی کی کوئی گنجائش، بس بھیڑ کے لئے یہی کافی ہوتا ہے کہ راوی اپنی ہی بھیڑ برادری کا ہے سو اس سے زیادہ مستند بھلا اور کیا ہو سکتا ہے۔

ہماری ریاست بلاشبہ اب اس بھیڑ سے نمٹنے کے لئے کمر کس چکی ہے جس کا عندیہ وزیراعظم صاحب نے اپنے حالیہ بیان میں دے دیا ہے۔ البتہ حکمت عملی کیا رہے گی یہ ابھی تک صیغۂ راز میں ہے۔

دیکھا جائے تو اب یہ کوئی نئی بات نہیں رہ گئی۔ لوگ مارے جاتے ہیں، کبھی کسی ہجوم کے ہاتھوں کوئی ایک تو کبھی کسی ایک کے ہاتھوں کئی ایک وادیٔ مرگ کو منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ پر ہماری ریاست شروع سے اسی چھید شدہ گھڑے میں مزید پانی بھرنے کی حکمت عملی پر گامزن رہی ہے اور اس بار بھی توقع کم و بیش ویسی ہی ہے۔

کوئٹہ میں ہزارہ کے قتل عام سے لے کر اے پی ایس پشاور اور اس کے بعد یکے بعد دیگر مشال خان، پریانتھا کمارا اور کئی ایک واقعات جو اخبارات میں رپورٹ ہوئے۔ ان سب کے پیچھے سب سے بڑی وجہ اس احساس اور فکر کی موت ہے جس کا برملا اظہار جلیلہ حیدر نے اپنے اس جملے میں کیا جو میں نے مضمون کے آغاز میں لکھا ہے۔

ایسی روش جو آپ کو منفی تفاخر نیز تکبر میں مبتلا کردے چاہے وہ مذہب، مسلک، قوم، قبیلہ، نسل، جنس یا طبقے کی بنیاد پر ہو، آپ کے اندر سے صلہ رحمی، درگزر اور رواداری کے احساس کو نکال باہر کرتی ہے۔

ہماری معاشرت میں رچی بسی عصبیت، منفی تفاخر، تکبر اور نیچ درجے کی منافرت میں تخفیف اور بعد ازاں اس کا خاتمہ کیا فقط آگ بجھانے جیسے اقدام اٹھا کر ممکن ہے؟ یا پھر ہمیں عصبیت، منفی تفاخر، تکبر، منافرت اور اس جیسی تمام مہلک علتوں کے مقابل سماجی تنوع کی اہمیت کو اجاگر کرنے، رواداری، باہمی احترام اور انسانیت پذیر رویوں کو پنپنے کے لئے اسپیس فراہم کرنا پڑے گا۔

اگر تاریخ کے جھروکوں سے جھانکا جائے تو قومی زبان کے تنازع سے لے کر ملک کی کثیر قومیتی اکائیوں کو ون یونٹ میں ڈھالنے اور اس کے بعد سے آج تک کئی ایک بار صدارتی نظام لانے کی خواہشات تک سب کے سب سماجی تنوع کی اہمیت اور حقیقت کو ماننے سے انکار کے سوا کچھ نہیں۔

آخر یہ خیال ہمارے اکابر کے اذہان سے کیونکر زائل نہیں ہو پا رہا کہ ایک ہی ملک کے لوگ اپنی الگ شناخت، علاقائیت، قومیت، رنگ، نسل، زبان مذہب اور مسلک میں رہتے ہوئے بھی ہم وطن ہونے کے ناتے ایک قوم ہی ہیں۔ ضرورت ہے تو ان کی انفرادی حیثیت کو ماننے کی اور اس حیثیت کو مان دینے کی۔ اور اس احساس کو پنپنے کے لئے اسپیس دینے کی کہ وہ سب قابل احترام ہیں اور اس ملک کے سانجھے مالک ہیں۔ اور ضرورت ہے تو یہ بات باور کروانے کی کہ اس زمین کا ہر باسی اتنا ہی لائق تکریم ہے کہ جتنے آپ خود۔

ایسے اسپیس کو بنانے کے لئے تعلیم و تربیت ہی وہ ایک موقعہ تھا جس کے ذریعے رواداری، باہمی احترام اور انسانیت پذیر رویوں اور علتوں کو پروان چڑھایا جا سکتا تھا۔ پر کیا کہنے ہمارے ہنر مندوں کے جنہوں نے پورے غوروخوض کے بعد ایسے اقدام اٹھائے جس سے باقی ماندہ سماجی تنوع، رواداری اور باہمی احترام کی روش دفن ہو جائے گی۔

ہمارے مقتدرین و اکابرین، سیاسی ہوں یا غیر سیاسی، ان سب کو ایک بار اپنے آپ کو سوچنے کا ایک موقع ضرور دینا چاہیے تاکہ ملک میں بڑھتی مسلکی، نظریاتی، سیاسی اور مذہبی اختلاف کو نیچ ترین درجۂ منافرت میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لئے کوئی موثر حل تلاش کر سکیں۔ ورنہ جو خونی ہجوم اب بلا خوف و خطر روڈ رستوں پر موت بانٹ رہا ہے اس میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اور کسی دن وہ انہی ڈنڈوں اور پتھروں کہ ساتھ آپ کے دروازے پر بھی دستک دے سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments