بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بے ضابطگیاں


یہ ذکر ہے 2018 کا جب پنجاب بار کونسل نے عشروں سے چلتے آرہے ایل ایل بی کے تین سالہ پروگرام کو ختم کرنے کا اعلان کیا تو بی زیڈ یو سے الحاق شدہ لاء کالجز نے بے تحاشا پبلسٹی کر کے سنسنی پیدا کر دی ”تین سالہ ایل ایل بی کرنے کا آخری موقع“ کے اشتہارات پنجاب کے ہر شہر میں نظر آنے لگے۔

ریگولر طلباء کہ علاوہ بے شمار لوگوں نے داخلہ لینے کی کوشش شروع کر دی ایسے میں یونیورسٹی انتظامیہ اور کالجز والوں کی چاندی ہو گئی دونوں نے ملی بھگت سے دستیاب سیٹوں سے کہیں زیادہ داخلے کر لیے۔

کالجز نے ایک لاکھ سے لے کر ڈھائی لاکھ تک ایک سال کی فیس وصول کی جس کے بدلے میں طلباء کہ لیے کوئی کلاس یا کسی بھی قسم کی راہنمائی بھی نہ کی ماسوائے اس کے داخلے کروا دیے یوں دیکھتے ہی دیکھتے اٹھارہ سے اکیس کے سیشن میں چودہ ہزار طلباء کو داخلہ دے دیا گیا

اس کے بعد 2019 کا پہلا سالانہ امتحان لیا گیا جس کا رزلٹ قواعد کے مطابق تین ماہ میں آنا چاہیے تھا وہ تقریباً پندرہ ماہ بعد ہائیکورٹ کے آرڈر پر جاری کیا گیا وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ درجنوں الحاق شدہ لاء کالجز میں سے دو نے فیسز کے جعلی واوچر جمع کروائے تھے۔ بعد ازاں دو کالجز نے وہ فیس تین گنا جمع کروا دی اور بتایا کہ بد عنوانی میں ان کے کلرکس ملوث تھے جن کے خلاف فوجداری مقدمات درج کر وا دیے گئے ہیں۔

اسکے بعد باری تھی سپلیمنٹری امتحان کی جب اس کا وقت آیا تو پتہ چلا جتنے طلباء کی سپلی آئی تھی اس سے کئی ہزار زیادہ طلباء سپلیمنٹری امتحان کے لیے تیار بیٹھے ہیں یہاں ہوا یہ کہ کالجز نے یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ مل کر بیک ڈیٹس میں رجسٹریشن کر کے اور طلباء کو بھرتی کر لیا تھا اب یونیورسٹی آفیشلز میں سے جو چند لوگ اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھو سکے تھے انہوں نے رکاوٹ ڈال دی کہ بے ضابطگیاں ہو گئیں یہ امتحان نہیں ہو سکتا بس پھر کیا تھا اس کے بعد طلباء در بدر احتجاج کر کر کے تھک گئے کبھی یونیورسٹی جا کر اور کبھی گورنر ہاؤس کے سامنے لیکن کہیں سنوائی نہ ہو سکی

کوئی ظلم سا ظلم ہے دوسرے سالانہ امتحان 2019 کا مارچ 2022 تک کوئی اتا پتا نہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ 16 فروری 2022 کو رجسٹرار نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے خوشخبری سنائی کہ یہ پتہ چل گیا ہے کہ بے ضابطگیاں ہوئی ہیں لیکن یہ ابھی طے کرنا باقی کہ کس نے کی ہیں اور جب تک یہ نہ ہو گا کوئی امتحان نہیں لیا جائے گا۔

چودہ ہزار طلباء کے تین قیمتی سال ضائع ہو چکے اگر بے ضابطگیاں ہوئی ہیں تو وہ یونیورسٹی انتظامیہ نے کی طلباء کا اس میں قصور نہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا جو داخلے قواعد کے خلاف ہوئے ان کو علیحدہ کر کے باقی طلباء کا امتحان بروقت لیا جاتا لیکن یہاں کروڑوں روپے کما کر یونیورسٹی اور کالجز والے مزے سے گھر بیٹھے اور چودہ ہزار طلباء کا مستقبل تباہ ہو رہا جس کی کسی کو پروا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments