ایک رات کا کیا لو گی؟


مارچ کا مہینہ کیا شروع ہوا، ایک ہنگامہ سا بپا ہے۔ یہ ہنگامہ اس ہنگامے سے کہیں بڑھ کے ہے جو کسی کے تھوڑی سی پی لینے پہ برپا ہوتا ہے۔ خدا جانے یہ اختیار خدا سے انسانوں کو کب ودیعت ہوا ہے کہ اب چاہے کوئی بھی مسئلہ ہو۔ اس کا فیصلہ زمینی خداؤں نے اپنے ہاتھ سے کرنا ہے۔

ہماری بدقسمتی کہہ لیں یا خوش قسمتی کہ ہم انسانوں کی اس جنس سے ہیں، جسے ہر جانب سے فاتر العقل سمجھا جاتا ہے۔ عورت ہونا اور پھر پاکستان جیسے ملک کی عورت ہونا اپنے میں ایک سزا ہی ہے۔

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے جہاں علوم اور فکر و شعور کے کئی دروازے کھولے ہیں۔ وہیں جہالت کے ٹھیکیداروں کو ایکسپوز کرنے کا کام بھی بہ طریق احسن نبھایا ہے۔ سوشل میڈیا جہاں ایک جانب ماڈرن سوچ اور آزادی اظہار رائے پہ یقین رکھنے والے افراد سے ایک تعلق بنا۔ وہیں ایسے ایسے لوگ بھی نظروں کے سامنے آتے ہیں جو کہ بظاہر تو بڑے سوٹڈ بوٹڈ ڈگری یافتہ ہیں۔ مگر اندر سے ترسے ہوئے اور فرسٹریشن کا شکار ہیں۔

کسی بھی معاشرے میں برداشت، رواداری احترام آدمیت اس معاشرے کو رہنے کے قابل بنانے والے اہم فیکٹرز ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں شدت پسندی اور عدم برداشت کی ریشو پہلے سے بہت بڑھ چکی ہے۔

بین الاقوامی سطح پہ خواتین کا عالمی دن آٹھ مارچ کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن پوری دنیا میں محنت کش عورتوں کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔ وہ تمام عورتیں جو اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ اس دن ان کے حقوق کے لیے بات کہی جاتی ہے۔

بنیادی انسانی حقوق جن میں سرفہرست زندہ رہنے کی آزادی (اب بھی دنیا کے کئی ممالک میں الٹراساؤنڈ میں بیٹی کی جینڈر تشخیص ہو جائے تو بچہ ضائع کروا دیا جاتا ہے ) ۔ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع، صحت کی بنیادی سہولیات، پسند کی شادی، معاشی طور پہ عورت کا خود مختار ہونا اور پبلک مقامات و کام کی جگہوں پہ جنسی ہراسانی کو روکنا ہے۔

سوشل میڈیا پہ خواتین کے حقوق کے متعلق بات کرنے والی خواتین کو جس طرح سے ٹریٹ کیا جاتا ہے اس پہ بات کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ حتی کہ یہ تسلیم کرنے کو بھی کوئی تیار نہیں کہ کبھی کسی خاتون کے ساتھ کسی مرد کی جانب سے کوئی ہراسانی کا واقعہ بھی ہوتا ہے۔

آپ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھے ہیں اچانک موبائل سکرین پہ ایک میسج آئے گا، جونہی آپ اسے کھولتے ہیں تو سامنے کسی گھٹیا انسان کے ڈک کی تصویر ہوتی ہے۔ آپ سو کے اٹھتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے آپ کسی پورن گروپ میں ایڈ کیے جا چکے ہیں۔ آپ اپنی وال پہ کوئی بولڈ تحریر لکھ دیں تو آپ کے انباکس آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ ایک رات کے کتنے پیسے لو گی۔

سننے میں عجیب لگتا ہو گا۔ پڑھنے میں بھی لگے گا۔ پڑھنے والے سوچیں گے کہ آخر ایسی بھی کوئی اندھیر نگری نہیں ہے۔ اور اگر کسی نے ایسا ویسا میسج بھیج ہی دیا تو بلاک کر دیتے۔ سکرین شاٹ لگانے کی کیا ضرورت تھی۔

میں ہمیشہ وہ بات کھول کے سامنے رکھ دیتی ہوں جو میرے ساتھ پیش آئی ہو۔ یار دوست ناراض بھی ہوئے۔ لیکن میرا سرمایہ وہ لڑکیاں وہ لڑکے ہیں جو مجھے انباکس کر کے کہتے ہیں میڈم آپ ہماری بات کرتی ہیں۔ ہم نہیں کر سکتے۔ آپ ہمارے لیے آواز اٹھاتی ہیں ہم نہیں اٹھا سکتے۔

سو مجھے تو چھوڑیں کل رات سے لے کر آج رات اس وقت تک کم سے کم مجھ سمیت تین خواتین ایسی ہیں جنہیں ہراس کیا گیا۔ ہماری ایک قابل احترام خاتون دوست سے پوچھا جا رہا ہے کہ ایک رات کے کتنے پیسے لو گی۔ سیکس کے طریقوں کے ساتھ ساتھ گھٹیا انسان ڈسکاؤنٹ کی بھی بات کر رہا ہے۔ اب آپ اس رویے کو کیا کہیں گے؟

ہر وہ عورت جو سوشل میڈیا پہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بات کرتی ہے، اس کا انباکس ایسے ہی واہیات میسیجز سے بھرا ملے گا۔ ان جاہلوں کو ہر وہ عورت بدکردار، بدچلن اور آوارہ لگتی ہے جو انہیں شٹ اپ کہنا جانتی ہے۔

ان کے نزدیک ہر وہ عورت جو سوشل ایپس پہ اپنی تصاویر لگائے وہ برائے فروخت ہے۔ وہ سیکس کے لیے میسر ہے۔ ان گدھوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ عورت کا سیکس کرنا اس کی مرضی کے تابع ہے۔ وہ چاہے تو کرے نہ چاہے تو نہ کرے۔ لیکن آپ اس کی شلوار پہ چوکیدار بن کے نہیں بیٹھ سکتے۔

سوال یہ ہے کہ ایک دوسری عورت میں ایسا کیا الگ لگا ہے جو آپ نے پہلے کسی عورت میں دیکھا نہ ہو گا۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد اس کا ماں سے جو پہلا تعلق بنتا ہے وہ چھاتی سے لگ کے دودھ پینا ہے۔ اپنی ماہ کے پستان سے دودھ پیتے ہوئے آپ بڑے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی دوسری عورت آپ کو اپنے بچے کو دودھ پلاتے ہوئے کہیں نظر آ جائے، تو آپ اس پہ بے حیائی و فحاشی کے فتوے لگا دیتے ہیں۔

ہر خود مختار اور آزاد عورت آپ کو بکاؤ مال لگتی ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ چند سو یا چند ہزار سے انہیں خرید سکتے ہیں۔ لیکن آپ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک خودمختار عورت اپنے فیصلے لینے میں آزاد ہوتی ہے۔ اسے کسی کے ساتھ سیکس کرنا ہے یا نہیں کرنا یہ اس کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے۔ آپ جیسے گھامڑوں کو تو وہ اپنی انگلی تک نہیں پکڑنے دیتی۔

مجھے نہیں پتہ کہ میں اس آرٹیکل میں اگر وہ الفاظ لکھوں جو آپ لوگ ہم خواتین کو بھیجتے ہیں۔ تو وہ چھپیں گے یا کٹ جائیں گے۔ مگر ہمیں آپ کے وہ گھٹیا الفاظ بنا ہماری مرضی کے پڑھنے پڑتے ہیں۔ آپ کے گندے ڈک دیکھنے پڑتے ہیں۔ جس پہ اگر ہم
dicktaitorship
بند کرو کا سلوگن اٹھائیں۔ تو آپ کو بے حیائی لگتی ہے۔ لیکن جب اس عضو کی تصویر آپ اپنے کیمرے سے کھینچ کے خواتین کو بھیجتے ہیں تو آپ خود کو مرد کہتے ہیں۔

کاش کبھی وہ تمام عورتیں اپنے حق کے لیے بات کرنے کی ہمت کر لیں۔ جو معاشرے کے دباؤ اور خاندان کی نام نہاد عزت کی خاطر چپ رہ جاتی ہیں تو آپ کو کہیں منہ دکھانے کو تھاں (جگہ) نہ ملے۔

ہم سے ہمارا ریٹ پوچھنے والے یاد رکھیں کہ کہیں نہ کہیں ان کی بہنوں بیٹیوں ماؤں کے انباکس میں بھی کوئی نہ کوئی آپ جیسا ریٹ لسٹ پوچھنے پہنچتا ہو گا۔ فرق بس یہ ہے کہ ہم بتا دیتے ہیں، وہ آپ کی جھوٹی عزت و غیرت کو چپ رہ کے بچا لیتی ہیں۔

ہر خودمختار عورت کو طوائف سمجھنا بند کریں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہر خود مختار عورت کو ایک طوائف کی طرح ہی جی دار اور منہ پھٹ ہونا چاہیے جو چاہے تو اپنے گاہک کو پلکوں پہ بٹھاتی ہے۔ اور چاہے تو اسی گاہک کے کپڑے چوک میں اتار بھی دیتی ہے۔ پھر ایسے لوگ کہتے پائے جاتے ہیں وہ تو ہے ہی کنجری سی۔ تو تو اپنی عزت کا خیال کر لیتا۔

سو اپنی عزت اپنے ہاتھ میں رکھئیے۔ ورنہ کم سے کم سوشل ایپس پہ آپ کو منہ چھپانے کو جا نہ ملے گی۔ سودے میں سے پیسے بچا کے نیٹ پیکج کرنے والو، عقل سیکھ لو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
10 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments