عورت مارچ کیوں ضروری ہے


پاکستان جیسے ممالک میں عورت مارچ بہت ہی ضروری ہے۔ کیونکہ جہاں مذہبی اور معاشرتی تعبیرات میں عورت کو باور کروایا جاتا ہے کہ تم ”مرد کے لئے پیدا کی گئی ہو“ ۔ مرد تم سے درجے میں اور عقل میں اعلی اور ارفع ہے۔ جہاں اب بھی نام نہاد مذہبی دانشور اس بات پر بحث کرتے ہوں کہ شوہر کی اجازت کے بغیر عورت گھر سے باہر قدم رکھ سکتی ہے یا نہیں، اسے پوری گواہی کا حق دیا جا سکتا ہے یا نہیں یا مذہب کی رو سے عورت حکمران بن سکتی ہے یا نہیں۔

بہرحال اینجلا مرکل اور جیسنڈا آرڈرن جیسی عورتوں نے بہترین حکمرانی کی مثال قائم کر کے کم از کم یہ بحث تو بند کر دی ہے کہ عورتیں حکمرانی کی قابلیت رکھتی ہیں یا نہیں اس لئے اب پکے مسلمانوں کے پاس مذہب کے۔ پیچھے چھپنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

پاکستان جیسے ملک جہاں عورت مرد کے لئے ایک کموڈٹی ہے۔ انسان نہیں ہے۔ کیونکہ مرد صرف اپنے آپ کو انسان یعنی کہ اشرف المخلوقات گردانتا ہے۔ ( مذہبی اور معاشرتی تعبیر اس کی گواہ ہے ) سمجھتا ہے کہ وہی اس دنیا کا مرکز و محور ہے۔ نباتات سے لے کر جمادات تک اور حتی کہ عورت بھی صرف اس کی ضروریات وغیرہ کو پورا کرنے کے لئے پیدا کی گئی ہے۔

جہاں بہشتی زیور جیسی کتابیں لکھی جاتی ہوں۔ جہاں منبر پر چار چار سال کی چار اور آٹھ آٹھ سال کی دو عورتیں بانٹی جاتی ہوں۔ جہاں استہزائیہ انداز میں عورت کا ذکر کیا جاتا ہو۔ مرد چار شادیوں اور بہتر حوروں کے فضائل بیان کرتے نہ تھکتے ہوں جہاں صرف عورت ماں، بہن، بیٹی کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی ہو اس کی اپنی کوئی شناخت نہ ہو۔ اور شناخت نہ ہونے کو اس کے لیے باعث فخر گردانا جاتا ہو ایسے معاشرے میں عورت مارچ انتہائی ضروری ہے۔

پاکستان میں عورت مارچ اس لئے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ اتنی دہائیوں میں ہم نے آگے جانے کی بجائے پیچھے کا سفر طے کیا ہے۔ پاکستان میں اس لئے بھی عورت مارچ ہونا چاہیے کیونکہ یہاں عورت کو ابھی وہ بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں جہاں سے باقی دنیا بہت پہلے آگے بڑھ چکی ہے۔

عورت مارچ اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ عورت کو اپنی مرضی سے اپنی پسند سے شادی کا حق دلوایا جا سکے۔ جبری شادیوں کو روکا جا سکے۔ اس کو ونی، سوارہ اور قرآن سے شادی وغیرہ گھٹیا رسومات سے بچانے کے لئے معاشرے میں بیداری پیدا کی جا سکے۔

عورت مارچ ضروری ہے تا کہ باپ اور بھائی، بیٹیوں اور بہنوں کا جائیداد میں حصہ کھانا بند کریں انہیں جذباتی بلیک میلنگ اور جینا مرنا ختم کرنے کی دھمکیوں سے اپنے حق سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنا چھوڑ دیں۔ شوہر حقوق کے نام پر بیگار لینا بند کریں۔ اور شادی میں عورتوں کی معاشی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لئے قانون سازی کی جا سکے۔

ان کو تعلیم کا حق دلوایا جا سکے۔ ان کو سڑک پر پیدل چلنے کی آزادی دلوائی جا سکے۔ ان کو بتایا جا سکے کہ تم بھی انسان ہو۔ تم بھی اشرف المخلوقات ہو۔ تمہیں بھی اتنی ہی آزادی سے جینے کا حق ہے جتنا کہ ایک مرد کو۔ تمہارا جسم تمہارا ہے ویسے ہی جیسے ایک مرد کا جسم اس کی ملکیت ہے۔

ان کو بتایا جا سکے کہ جب کوئی سڑک پر چلتے آوازے کسے یا تمہارے جسم کو چھوئے۔ یا چلتی بس میں جسم کو ہاتھ لگائے تو ڈرنا نہیں، چپ نہیں رہنا بولنا ہے! ۔ چھوئی موئی نہیں بننا بلکہ آواز اٹھانی ہے۔ جب مرد چپ کروانے کے لئے سوشل میڈیا پر ان باکس آ کر گندی ویڈیوز اور تصویریں بھیجے تو اس پر خاموش نہیں رہنا بلکہ اس کو رپورٹ کرنا ہے۔ جب کوئی بلڈوز کرنے کے لئے گالی دے تو آواز اٹھانی ہے۔ ڈرنا نہیں۔

عورتوں میں آگاہی پیدا کرنی ہے۔ ان کو بتانا ہے کہ تم اپنی مرضی سے جیسے چاہے بیٹھ سکتی ہو اور جیسے چاہے چل سکتی ہو۔ تم بھی پارک میں ورزش کر سکتی ہو۔ تم بھی جاگنگ کرنے جا سکتی ہو۔ افضل المخلوق لوگوں نے تو عورت سے مسجد جانے تک کا حق بھی اپنی تاویلات سے چھین رکھا ہے۔

عورت مارچ اس لئے بھی ضروری ہے کہ مرد کو باور کروانا ہے کہ تمہیں آدھی آبادی کو جینے کا حق دینا ہو گا۔ بے شرمی اور ڈھٹائی سے کام لے کر آدھی آبادی کا جینا حرام کرنا بند کرنا ہو گا۔ اپنے خود ساختہ تصور افضلیت سے باہر آ کر برابری کا حق دینا ہو گا۔ اس کو بتانا ہے کہ اگر تم باہر آٹھ یا دس گھنٹے کام کر کے کما رہے ہو تو عورت بھی چوبیس گھنٹے گھر میں کام کر رہی ہے۔

معاشرے کی تعمیر میں جتنا حصہ تمہارا ہے اس سے کہیں زیادہ عورتوں کا ہے۔ تم تو آٹھ گھنٹے نوکری کر کے فارغ ہو جاتے ہو اور پروٹوکول کے حق دار ٹھہرتے ہو۔ اور روٹی کپڑا دے کر بزعم خود افضلیت کی کرسی پر براجمان ہو جاتے ہو جب کہ عورت صبح سے لے کر رات تک کام کرتی ہے۔ اور پھر بھی کمتر ٹھہرتی ہے تمہارا تو ویک اینڈ بھی ہوتا ہے اس کو تو یہ سہولت بھی دستیاب نہیں۔

وہ گھر میں دھوبن بھی ہے۔ خانساماں بھی ہے۔ اور ایک آیا بھی ہے۔ وہ تمہارے ماں باپ کی خدمت بھی کرتی ہے۔ اور رات کو بچوں کو اٹھ اٹھ کر دودھ بھی پلاتی ہے۔ ان کے ساتھ راتوں کو جاگتی بھی ہے۔ اور کچھ سپر وومن تو اس کے ساتھ ساتھ معاش کی ذمہ داری بھی اٹھائے ہوئے ہوتی ہیں لیکن پھر بھی افضلیت کا ٹیگ تم ہی اٹھائے پھرتے ہو۔

مردوں کو بتانا ہے کہ جتنی جدوجہد تم مال کمانے میں کرتے ہو اس سے کہیں زیادہ عورت تمہارے اور تمہارے بچوں کے آرام اور سکون کے لیے جان مارتی ہے۔ اگر ان سارے کاموں کے لئے ملازم رکھے جائیں تو تمہارے کافی پیسے اٹھ جائیں۔

اس لیے یہ دھونس کہ میں کماتا ہوں اور تم تو سارا دن گھر میں بیٹھ کر مکھیاں مارتی ہو۔ براہ مہربانی بند کرو یہ دھونس دینا۔ اس کو آئینہ دکھانا ہے کہ دیکھو اپنا چہرہ۔

اس کو بتانا ہے کہ عورت کو اپنا پارٹنر سمجھو۔ اس کو اپنے برابر کا انسان گردانو۔ اس کو اپنا ساتھی خیال کرو اور اس کو اپنے برابر اور اپنے جیسا انسان سمجھو۔ اس لیے عورت مارچ بہت ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments