شعبہ صحت: فلاح عامہ یا کاروبار؟


\"\"

دو روز پہلے جیل روڈ جانا ہوا۔ ہم لوگ اس وقت ایک ہسپتال کی بیسمنٹ میں تھے جب اوپر تلے بہت سے فون آنے شروع ہو گئے۔ چوں کہ ایسی جگہوں پر موبائل بہتر کام نہیں کرتا اور ویسے بھی فون اٹھانے سے جان جاتی ہے، تو فون نہیں اٹھایا۔ جب گھر والوں کے فون بھی آنے لگ گئے تو اوپر آ کر سنا اور مال روڈ والے خود کش حملے کی سناؤنی انتظار میں تھی۔ سبھی نے خیر خیریت پوچھنے کو رابطہ کیا۔ فارغ ہو کر واپسی کے سفر میں پورا شہر جام تھا۔ یہ حملہ اس احتجاجی مظاہرے پر ہوا جو دوا ساز اداروں کی طرف سے کیا جا رہا تھا۔ حسب معمول دھماکہ کرنے والے کا سر مل گیا، جو ویڈیو طالبان نے جاری کی تھی وہ اس سے میچ بھی کر گیا۔ لیکن دو معاملات ایسے ہیں جو ابھی غور طلب ہیں۔

مال روڈ پر جلسہ جلوس آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ ہر ہفتے دو تین روز سڑک بند ہوتی ہے اور ٹریفک ادھر ادھر موڑ کر کام چلایا جاتا ہے۔ یہاں ایچی سن کالج، گورنر ہاؤس، سٹاف کالج، الحمرا، دو نجی ہوٹل، تاریخی عمارات اور اہم ترین کاروباری مراکز موجود ہیں۔ اگر چار پانچ سال پہلے ہی مال روڈ کو ریڈ زون قرار دے دیا جاتا، وہاں جلسے جلوس کی اجازت نہ ہوتی تو حق بات تھی، آج بھی یہ ممکن ہے۔ لیکن یہ کام فیصلہ ساز اداروں کا ہے۔

چند دوستوں سے تبادلہ خیال ہوا، یہ جان کر شدید حیرت ہوئی کہ دھماکوں کا تعلق اب بھی علت و معلول سے جوڑا جا رہا ہے۔ رائے پیش کی گئی کہ میڈیکل سٹور چوں کہ دوائیاں بیچتے ہیں اور ان کی ہڑتال کی وجہ سے عوام تکلیف میں تھے، بہت سے بے گناہ شاید مر بھی گئے ہوں اس لیے خدا نے فارمیسی کونسل والوں کو سزا دی اور انہیں اس تکلیف کا احساس ہوا جو مریضوں کے لواحقین بھگتتے ہیں۔ اب تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے یہاں ڈاکٹر، نرسیں، دواساز ادارے اور میڈیکل سٹور وہ چار ستون ہیں جن پر صحت عامہ کا دارومدار ہوتا ہے۔ باقی ممالک میں پانچواں ستون وزارت صحت ہوا کرتی ہے۔ تو یوں ہے کہ ہمیں طے کرنا ہو گا، آیا ڈاکٹر، دواساز ادارے یا میڈیکل سٹور فلاحی مقاصد کے لیے میدان میں آتے ہیں یا اسے ہم دوسرے شعبوں کی طرح بزنس کا نام دے سکتے ہیں۔ احتجاج ڈاکٹروں یا دواساز اداروں کا جمہوری حق ہے۔ اس چیز سے قطع نظر کہ وہ احتجاج کس بات پر ہے، ہمیں پہلے یہ حق ماننا ہو گا کہ ایک جمہوری ملک کا شہری ہونے کی حیثیت سے وہ احتجاج کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ اور ایک سوال وہی اٹھے گا کہ صحت کا شعبہ فلاح عامہ سے متعلق ہے یا وہ کاروبار ہے۔ اگر کاروبار ہے تو اسے دیگر بزنس والوں جیسے حقوق ملنے چاہئیں، نہیں ہے تو پھر جو چاہے مرضی بددعائیں دیتے پھرئیے۔

میڈیکل سٹور کی بات کیجیے تو ایک معمولی سی دکان شروع کرنے کے لیے چالیس سے پینتالیس لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں۔ اس بندوبست کے بعد لائسنس کے لیے متعلقہ محکموں کے پھیرے شروع ہوتے ہیں۔ وہ مل جائے تو دکان میں فریج اور دیگر سہولیات کا مستقل بندوبست کیا جاتا ہے، کوالیفائیڈ یا کم از کم کچھ تجربہ کار لڑکے رکھے جاتے ہیں۔ دوا بہت زیادہ ٹمپریچر میں رکھی جائے تو خراب ہو جاتی ہے، ایک آدھے اے سی کا بندوبست بھی کرنا ہوتا ہے۔ پھر ہر چیز کا بل ”کمرشل“ ہوتا ہے۔ ماتھے پر جگمگاتے سائن بورڈ سے لے کر ایک اکیلے انرجی سیور کا بل جب کمرشل ہے، تو میڈیکل سٹور والے اسے فلاحی بنیادوں پر کیسے چلا سکتے ہیں؟ بھئی وہ ایک کاروبار ہے، جدید معیشت کے اصول ہمیں یہی سکھاتے ہیں کہ جب کوئی سرمایہ دار کسی کاروبار میں اپنا پیسہ لگاتا ہے تو اسے تمام تر ممکنہ سہولیات اور تحفظ کی امید ہوتی ہے۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو گا تو وہ کسی اور کاروبار کا رخ کرے گا۔ اور اگر تحفظات خطرے میں ہوں گے تو وہ کاروبار لپیٹ کر احتجاج کرنے سڑک پر بھی آئے گا۔ کریانے کی دکان پر بیٹوں کو بٹھا کر کھانا کھانے کے لیے گھر جانا ممکن ہے، میڈیکل سٹور سے اٹھنے کے لیے بعض اوقات دکان بند کرنی لازم ہو جاتی ہے۔ اور یہ سب کرتے ہوئے کاروبار کا نقصان بھی اپنی جگہ ہو رہا ہوتا ہے۔ تو دوا بیچنے والا یہ سب برداشت کر رہا ہوتا ہے۔

انہی معاملات کو تھوڑے بڑے پیمانے پر رکھا جائے تو دوا ساز اداروں کی بات ممکن ہے۔ وہ مکمل طور پر کاروباری مقاصد سے میدان میں آتے ہیں۔ خام مال باہر سے پیسے دے کر منگایا جاتا ہے۔ اس پر کسٹم ڈیوٹی ہوتی ہے۔ کارخانے کے ملازم دوا کی گولیاں یا سیرپ تیار کرتے ہیں۔ ہزاروں کوالٹی چیکس ہوتے ہیں، ان سب کے لیے عملہ ہوتا ہے، مشینیں ہوتی ہیں اور ہر چیز پر اٹھنے والے اخراجات ہوتے ہیں۔ ملکی معیشت کا اہم ترین ٹیکس دینے والا طبقہ یہ دواساز کمپنیاں ہیں۔ اگر ان کے جائز کاروباری مفادات زد میں آئیں گے تو ٹیکسٹائل، پیٹرولیم، بنکنگ، بیورجز یا کسی بھی اور سیکٹر کی طرح یہ ہڑتال کیوں نہیں کر سکتے؟

یہی اصول ڈاکٹروں پر لاگو کر کے دیکھیے۔ ایک ڈاکٹر اگر بزنس مین نہیں بنا، تعلیم پر توجہ دی، عمر کے بیس پچیس برس راتوں اور دنوں کی بے ترتیب ڈیوٹیاں دیں، سب مراحل سے گذر کر تخصص کے ساتھ سینئر ہو گیا تو کیا وہ فیس لینا چھوڑ دے گا یا مریضوں کا علاج فی سبیل اللہ کرے گا؟ یہ اس کا ذاتی فیصلہ ضرور ہو سکتا ہے۔ انسانی ہمدردی کے ناتے جتنی مرضی خدمت خلق کی جائے کم ہے۔ لیکن، ایک ڈاکٹر کو ہم وہ تمام حقوق کیوں نہیں دے سکتے جو ہیلتھ سیکریٹریٹ کے ایک کلرک تک کو میسر ہیں؟

خود کش دھماکے سراسر ظلم ہیں۔ ان کا تعلق کشمیر کے زلزے کی طرح گناہوں سے جوڑا جائے گا تو یہ نری سہولت کاری ہی سمجھی جا سکتی ہے۔ اور اگر یہی اصول و اقدار ہیں تو صاحب دواؤں کا بزنس کرنا یا ڈاکٹر بننا ہی گناہ ہے، کوئی اور دھندہ سوچا جا سکتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

http://dunya.com.pk/index.php/author/husnain-jamal-/2017-02-17/18589/78918008

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments