پشاور بلاسٹ؛ ایک درد ناک سانحہ


ملک بھر میں دہشت گردی کے متعدد حملوں کے بعد کل پشاور میں ایک بڑا اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس میں بڑی تعداد میں عام شہری شہید ہوئے ہیں۔ کوچہ رسالدار کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خود کش حملے میں (نجی ٹی وی چینل کے مطابق) 57 افراد شہید ہوئے ہیں اور 200 کے قریب زخمی ہیں۔ یہ گزشتہ کچھ عرصے کے بعد پاکستان میں ہونے والا بڑا خود کش دھماکہ ہے۔ دھماکے کے بعد ایک بڑا درد ناک منظر بن گیا۔ لواحقین اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے میں مصروف ہو گئے بچے بھی شہید ہو گئے۔ ہر طرف آہ و بکا اور چیخ پکار پھیل گئی۔

میرے خیال کے مطابق جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت بحال ہوئی ہے، پاکستان میں ہشت گردی کے واقعات میں انتہائی حد تک اضافہ ہوا ہے۔

اس وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ افغان طالبان، داعش کے ساتھ نمٹنے کا ہنر جانتے ہیں کیونکہ وہ بھی داعش کی طرح کی سٹریٹیجی کے حامل ہیں اور داعش سے خوب نمٹے بھی۔ کل ہی مسلم دوست جو داعش کا رکن تھا اور گوانتاناموبے میں قائد بھی رہا، افغانستان میں سرنڈر ہوا ہے تو افغانستان میں طالبان نے داعش کے جگہ بہت کم چھوڑی ہے۔ میرے خیال میں داعش کی مستقبل میں بھی پاکستان میں کارروائیاں متوقع ہیں۔ داعش پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ داعش نے قصہ خوانی بلاسٹ کی ذمہ داری ابھی تک قبول نہیں کی لیکن لگتا ہے کہ یہ کارروائی داعش نے ہی کی ہے۔ داعش اور ٹی ٹی پی دونوں پاکستان کے لیے بہت بڑا تھریٹ ہیں لیکن ٹی ٹی پی ایک شکل میں ہے اور داعش دوسری شکل میں۔ بدقسمتی سے ہماری حکومت کے پاس ان دونوں کے متعلق کوئی جامع پالیسی نہیں ہے۔

جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے تو اس کے بعد شاید ہی بنوں، ڈیرہ اسمعیل خان، پشاور اور سوات وغیرہ میں کوئی صاحب ثروت بندہ بچا ہو جسے بھتے کی پرچیاں نہ آ رہی ہوں۔

ٹی ٹی پی افغان طالبان کی ایک فرنچائز ہے اور بد قسمتی یہ رہی کہ پچھلے 14، 15 سالوں میں چند صحافی یہ کہتے رہے کہ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور ٹی ٹی اے (تحریک طالبان افغانستان الگ اکائیاں نہیں ہیں۔ ٹی ٹی پی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ ہم افغان طالبان کا حصہ ہیں۔ وہ افغان طالبان کے امیر المومنین کو اپنا امیر المومنین سمجھتے تھے ان کے اکابر ایک تھے، ان کے عقائد ایک تھے ان کا لٹریچر ایک تھا اور ان کا طریقہ ایک تھا۔

لیکن پاکستان میں یہاں پر ایک لائن پڑھائی جا رہی تھی کہ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور ٹی ٹی اے (تحریک طالبان افغانستان) کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اور ٹی ٹی اے اچھی ہے جبکہ ٹی ٹی پی بری ہے۔ اب آج ان لوگوں سے کوئی نہیں پوچھ رہا۔ آج بھی وہ ٹی وی چینلز پر سینہ تان کر دفاعی تجزیہ کار بن کے قوم کو مزید گمراہ کر رہے ہیں۔ تو اب ظاہر ہے کہ ٹی ٹی پی کو آپ نے جتنا بھی ڈیل کرنا ہے ان کو آپ ٹی ٹی اے کے ذریعے ہی ڈیل کریں گے۔

کیونکہ ایک تو وہ ان سر زمین پر ہیں اور دوسرا وہ انہی کی بات سنتے ہیں لیکن اس میں بھی مسئلہ یہ ہوا کہ شروع میں ہم نے ٹی ٹی اے کو ثالث بنایا اور ادھر پاکستان میں پولیٹکل لیڈر شپ اپوزیشن وغیرہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اور ان کے ساتھ کمٹمنٹ کی گئی کہ ایک مہینے کے اندر ان کے ایک سو دو قیدیوں کو چھوڑا جائے گا، جس میں مسلم خان اور حاجی عمر کے لیول کے لوگ بھی تھے، جن کے مقدمات عدالتوں میں ہیں۔

ادھر حکومت پھر ٹی ایل پی کے ساتھ مصروف ہو گئی۔ حکومت نے کمیٹی بنانی تھی اور کمیٹی تک نہ بنا سکی وہ مہینہ گزر گیا۔ اب ٹی ٹی پی والے بھی کہتے ہیں اور ٹی ٹی اے والے بھی کہتے ہیں کہ آپ لوگوں نے اپنی کمٹمنٹ پوری نہیں کی تھی۔ ٹی ٹی پی نے تو اس دوران جنگ بندی کر لی تھی اب اس کے بعد جنگ بندی ختم ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ انگیجمنٹ بھی ہے کیونکہ ریسنٹلی چند ٹی ٹی پی کے لوگوں کو رہا بھی گیا۔ مرکزی سطح پر کوئی جامع پالیسی یا حکمت عملی آج بھی نہیں ہے۔

پاکستان نے دہشت گردی کی فنانسنگ روکنے کے لیے خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔ دہشت گردی کی فنانسنگ روکنے کے لیے 7 میں سے 6 نکات جلد ہی مکمل کیے ۔ ایف اے ٹی ایف کے اعلامیہ کے مطابق پاکستان نے 27 میں سے 26 شرائط پوری کر لی ہیں اور ممکن ہے کہ پاکستان جون میں وائٹ لسٹ میں آ جائے لیکن اگر اسی طرح کے سنجیدہ اور دل دہلا دینے والے دہشت گردی کے واقعات پیش آتے رہیں گے اور پاکستان دہشت گردی کا گڑھ بن جائے گا تو پاکستان کی عالمی ساکھ کیسے بہتر ہوگی۔

حکومت کو چاہیے داخلی و خارجی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح اور جامع پالیسی بنائے تاکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ بہتر ہو اور قیمتی جانوں کا ضیاع بھی روکا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments