میرا جسم: نعرہ نظر انداز ہو گا تو چیخ سنائی دے گی


میرا جسم میری مرضی
ایک دوست کا کہنا ہے کہ 8 مارچ کے پلے کارڈز پر اس طرح کے نعرے ہونے چاہئیں
”ہمارا احترام سوسائٹی پر فرض ہے“
”بیٹیاں رحمت ہیں“
حد ہے یار اب یہ باتیں بھی پلے کارڈز اٹھا کر منوانی پڑیں گی؟

جب میری بیٹی پیدا ہوئی تو درجنوں جاننے والوں نے مبارکباد دیتے ہوئے یہی رحمت والی حدیث مبارکہ دہرائی۔ ان کے انداز سے مجھے ایسے لگا کہ جیسے یہ لوگ مجھے تسلی دینا چاہ رہے ہوں۔ کاہے کی تسلی یار؟ میری بات عجیب لگ رہی ہے تو ایسے کسی بھی دوست یا رشتہ دار سے پوچھ لیجیے جس کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہو۔ اس سے پوچھیے کہ اس کو اور اس کی بیوی کو معاشرے کی کیسی کیسی تسلیوں، سوالوں اور دعاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دعائیں بھی کچھ اس طرح ہوتی ہیں ”بیٹی اللہ تجھے بھی ایک بیٹا دے دے تاکہ تیرا گھر بس جائے (تیڈا گھر وس پووے )“

مولوی کو لے لیجیے، ہر نماز کے بعد اور ہر خطبے میں اولاد نرینہ کی ہی دعا کرائے گا۔ (زندگی میں کبھی کسی مولوی کو مسجد میں جائے نماز پر بیٹھے ہوئے بیٹی کی پیدائش کی دعا مانگتے ہوئے دیکھا ہو تو کمنٹ میں مجھے شرمندہ ضرور کیجئے گا)

کتنی عجیب بات ہے ناں کہ عورت کے حق میں تھوڑا سا بھی لکھ دو ان لوگوں کا مذہب اور معاشرتی اخلاقیات یکایک خطرے میں آ جاتے ہیں۔ آزادی کے ہر مطالبے کو جنسیت اور مدر پدر آزادی سے جوڑ دینا کس قدر افسوس ناک رویہ ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر ذہنوں پر صرف جنس ہی سوار ہے۔ مرضی کو محض جنسی خواہشات کے معنی پہنانے والا معاشرہ کس طرح نارمل معاشرہ کہلایا جاسکتا ہے؟ اخباروں میں ریپ کی خبر پڑھ کر جنسی حظ اٹھانے والوں کو کوئی کس طرح سمجھائے کہ عورت کا جسم جنسی آسودگی دینے والی مشین سے ہٹ کر بھی کچھ ہے۔ کچھ ایسا جو بہت ہی پاک اور ذاتی ہے۔

انھیں کیسے بتائیں کہ اپنے جسم کے اندر وہ عورت خود بھی بستی ہے، عورت جو زندہ ہے، جو جینا چاہتی ہے، جو خوش ہونا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ کبھی تو اسے یوں کھلکھلا کر ہنسنے کا موقع ملے کہ اس کی ہنسی میں کسی مرد کی غیرت مجروح ہونے کا خوف نہ ہو۔ کبھی تو وہ اپنے گھر کے باہر کی دنیا کو آنکھیں جھکا کر نہیں بلکہ آنکھیں بھر کر دیکھ سکے۔ کبھی تو اسے اپنے برقعے کے اندر گھستی ہوئی ”غیرت مند“ مردوں کی نگاہوں سے امڈتی غلاظت سے نجات ملے۔

اسے کبھی تو احساس ہو کہ اس کا وجود تضحیک کرنے کی چیز نہیں بلکہ لائق محبت ہے۔ اسے ایک بار تو احساس ہو کہ وہ اپنے گھر، سکول اور شہر میں بالکل محفوظ ہے، ایسا بالکل نہیں ہے کہ اس کے آس پاس موجود ہر شخص اسے ریپ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ کبھی تو اسے کہا جائے کہ اسے ملنے والا ہر شخص اس کا احترام کرتا ہے اسے اپنے کولیگ یا کالج فیلو کو بھائی کہنے کی ضرورت نہیں ہے وہ بہن نہ ہونے کے باوجود بھی قابل احترام ہے۔ اسے یہ یقین کیوں نہ ہو کہ جب وہ آنرز کرنے کے بعد واپس آئے گی تو اس کو کسی چچا زاد ماموں زاد ان پڑھ موچی یا نائی کے ساتھ نہیں دھکیل دیا جائے گا بلکہ اسے اپنے اس کلاس فیلو کے ساتھ شادی کرنے کا مکمل حق حاصل ہو گا جو اس کے لائق بھی ہے اور اسے پسند بھی ہے۔ جانوروں تک کو شہوت بھری نظروں سے دیکھنے والے یہ کیسے جانیں کہ اپنے جسم پر اپنی مرضی کی ایک تشریح یہ بھی ہے۔

میں نہیں جانتا ماروی سرمد یا حقوق نسواں کی کوئی علم بردار کون ہے لیکن وہ اس معاشرے سے اپنی ذات پر اپنی مرضی چاہتی ہے تو یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ اگر کسی کو مذہبی حوالے سے اعتراض ہے تو جناب اس خاتون کے گناہ و ثواب کا معاملہ وہ جانے اور اس کا خدا، ہم کیوں مامے بنے پھریں؟ اگر وہ نعرہ لگاتی ہے تو حق بجانب ہے کوئی خلیل الرحمٰن قمر کون ہوتا ہے کہ اس کو گالیاں بکنا شروع کر دے۔ یہ عمل کون سی شریعت کے مطابق ہے؟

دیکھیں آپ جتنی چاہے گالیاں دیں آخرکار آپ کو یہ حق دینا ہی پڑے گا۔ آپ اپنے غیر فطری سوشل فیبرک کو جتنا مرضی بچانے کی کوشش کر لیں جس طرح آپ کو بچیوں کی تعلیم اور نوکری ”گوارا“ کرنی پڑی ہے اسی طرح یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی ہی پڑے گی کہ ہر انسان اپنی مرضی کا کامل مالک اور مختار ہے۔ اور یقین مانیں وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو صبر بھی آ جائے گا۔ گھٹن زدہ معاشرے میں سافٹ سلوگن لے کر احتجاج نہیں کیا جاسکتا۔ جب نعرہ نظر انداز کر دیا جائے گا تو چیخ نکلے گی پھر آپ سمع خراشی کا شکوہ مت کیجئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments