تبلیغی بھائیوں کا موٹر وے پر رویہ اور تبلیغی جماعت سے چند گزارشات


کل لاہور واپسی پر میں اور ڈاکٹر صائم سکھیکی ریسٹ ایریا میں رکے، تو وہ ہم نے ایک علیحدہ منظر دیکھا۔ تفصیل کچھ یہ ہے کہ ٹھوکر نیاز بیگ سے موٹروے انٹرچینج تک سڑک پر غیر معمولی رش تھا، وجہ یہ تھی کہ رائیونڈ میں تبلیغی جماعت کا اجتماع تھا، تو وہ وہاں سے واپس آ رہے تھے، بسوں، ٹرکوں کی وجہ سے جگہ جگہ ٹریفک بلاک تھی۔ تو جو سفر، 5 منٹ میں ہونا تھا وہ آدھے گھنٹے میں ہوا (ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ) ۔

جب ہم ریسٹ ایریا پہنچے، تو منظر یہ تھا، کہ سارے کہ سارے تبلیغی بھائی ادھر رکے ہوئے تھے، کیونکہ دوپہر کے کھانے اور ظہر کی نماز کا وقت تھا۔ اب مسئلہ یہ ہوا کہ ریسٹ ایریا کے سارے واش روم بھر گئے، تو بجائے اپنی باری کا انتظار کرنے کا، سبھی تبلیغی بھائی لائن بنا کر ہی گرین بیلٹ اور ریسٹ ائر کی گھاس/ لان (مسجد سے ملحقہ) میں ہی ہلکا ہونے لگ ہو گئے۔ یعنی ریسٹ ایریا کے گراسی لان کو اوپن واش روم بنا ڈالا، وہ منظر اتنا کراہت انگیز تھا کہ الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ کافی فیملیز جن میں عورتوں کی کافی تعداد تھی، وہ یہ منظر بھی دیکھ رہی تھیں اور حیران ہو رہیں تھیں کہ یہ ہو کیا رہا؟ کچھ لوگ وہاں ریسٹ کرنے آئے، یہ منظر دیکھ کر وہاں سے ہی گاڑی گھما کر واپس ہو گئے۔ اوپن واش روم سے فارغ ہو کر، بجائے مسجد میں وضو کرنے کی بجائے، اسی لان وضو کرنا شروع ہو گئے۔

کیونکہ گھاس کو پانی لگانے کے واٹر پائپ لگا تھا۔ اس پائپ کے گرد اتنی دھکم پیل تھا کہ خدا کی پناہ۔ سب لوگ اپنی اپنی بوتل لے کر جلد از جلد پانی بھرنا چاہتے تھے تاکہ لان میں ہی وضو کر سکیں۔ ہم سب حیران تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ وہاں سے ہم واش روم گئے تو وہاں بھی یہی منظر تھا۔ وہاں لائن لگی ہوئی تھی، اس کی سمجھ آتی ہے (اس سے بھی ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ) ۔

بچپن سے یہی سنتے آ رہے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ لیکن جب سب سے زیادہ نیک اور مذہبی طبقہ یہ کام کر رہا ہے تو عام مسلمان کیا کرتا ہو گا یہ ہم سب کو بخوبی معلوم ہے۔

یہ وہ لوگ تھے جو چار مہینے (چلہ) لگا کر رائیونڈ گئے اور وہاں سے اپنے گھروں کو گئے۔ سوال یہ ہے کہ تبلیغ آپ کو نصف ایمان (صفائی) نا سکا سکی، عمل کی توفیق نا دے سکی تو اتنی محنت کا کیا فائدہ؟ جب آپ کا عمل ہی آپ کی تعلیم کے برعکس ہو تو کیا لوگ ایسے مبلغ کی بات پر عمل کریں گے؟ تو اس بات کا جواب نفی میں ہو گا۔

دوسری بات یہ کہ ہمارے تبلیغی بھائیوں کی ہر بس اوور لوڈ تھی، بسوں اور ٹرکوں کی چھت تک لوگ سوار تھے، جو کہ موٹروے کے ٹریفک قوانین کی سرعام خلاف ورزی تھی، جو لوگ اپنی گاڑیوں میں تھے، وہ موٹروے کی لائنز کے برعکس ڈرائیونگ کر رہے تھے، جو کہ کسی بھی وقت حادثے کا سبب ہو سکتے تھے۔ موٹروے پولیس بھی ان کا چالان کاٹنے سے قاصر تھی۔

دیکھیے، میں کسی فرقے کے خلاف نہیں، لیکن جب آپ کی باتوں اور عمل میں زمین آسمان کا فرق ہو تو آپ کی بات اپنا وزن کھو بیٹھتی ہے تو سوچیے عام لوگ آپ کی بات کیوں کر مانیں گے؟ صفائی، دنیاوی قوانین پر عملدرآمد کرنا پر کسی مذہب کی کوئی اجارا داری نہیں۔

سارے قوانین ہر مذہب اور گروہ کے لیے ایک جیسے ہیں۔ لیکن جب ایک خاص گروہ جو کہ اپنے آپ کو مذہب کا علمبردار کہتا اور سمجھتا ہے تو ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، بد قسمتی یہ ہے کہ آخرت کو بہتر بنانے کے چکر میں، ہم دنیا میں مہذب طریقے سے رہنے کے طریقے بھول چکے ہیں، جو کہ انتہائی افسوسناک بات ہے۔

تبلیغی جماعت کے عمائدین، اس پر توجہ دیں۔ اپنے عمل سے تبلیغ کریں گے تو زیادہ لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوں گے، نہیں تو آپ کی اوپن واش روم پالیسی کو دیکھ کر دور سے ہی گاڑی کو موڑ کر اپنی اپنی راہ لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments