عورت ہونا جرم ہے


عورت ہونا بذات خود ایک جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔ یقین نہ آئے تو خبر دیکھ لیجیے ایک سات دن کی بچی کو اس کے باپ نے اس لیے پانچ فائر کر کے مارا کہ اسے بیٹے کی خواہش تھی۔ یہ میانوالی کا واقعہ ہے۔ اگر بچی کا پیدا ہونا جرم نہ ہوتا تو بھلا وہ ماری ہی کیوں جاتی۔ اس کی غلطی ہے کہ وہ پیدا ہوئی تو سزا ملی۔

ہر وہ عورت اور بچی جس سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، جس کی تعلیم کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جس کے متعلق خیال ہے کہ پڑھ کے کیا کرے گی اسے گھر کے کام سنبھالنے ہیں۔ جسے صحت کے متعلق بات نہیں کرنے دی جاتی نہ تعلیم دی جاتی ہے کہ اس کی صحت سے متعلق ضروری عوامل کیا ہیں۔ اسے مناسب خوراک نہیں دی جاتی کہ کہیں وزن نہ بڑھ جائے، کھیلنے کودنے نہیں دیا جاتا کہ لڑکیاں اچھل کود نہیں کرتیں۔ کھل کے بولنے نہیں دیا جاتا کہ ایسا کرنا عورت کے لیے مناسب نہیں۔

اس کے لیے رونا بھی منع ہے کہ لوگ کیا کہیں گے وہ قہقہہ نہیں لگا سکتی کہ منہ کھول کے ہنسنا واہیات حرکت ہے لڑکیاں ایسا نہیں کرتی۔ ان کے کیرئیر کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا کہ عورت کا پیسہ کس کام کا گو کہ وہ پیسہ ہم شوق سے کھاتے ہیں۔ اسے کم عقل مانا جاتا ہے کہ عورت کی عقل نصف ہے۔ اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے فقرے کسے جاتے ہیں، نظروں میں تاڑا جاتا ہے کہ یہ ایک تفریح ہے اس پہ جنسی، جذباتی، جسمانی ہراسمنٹ کی جاتی ہے۔ اس سب میں اس کا ہی قصور ہے اور وہ قصور یہ ہے کہ اس کا وجود ہے۔ نہ اس کا وجود ہوتا نہ یہ تصور بنتے کہ اس سے امتیازی رویہ رکھا جائے، کم عقل سمجھا جائے مردوں سے کمتر تصور کیا جائے، اس سے جسمانی ایذا پہنچائی جائے اس پہ جذباتی اور جسمانی تشدد کیا جائے۔ نہ یہ عورتیں ہوتیں نہ یہ ظلم ہوتے۔

سارے سماج پہ نظر ڈال لیں یہاں وکٹم بلیمنگ عام ہے۔ ظالم ہمیشہ جسٹیفائیڈ ہے وہ قندیل بلوچ کا بھائی ہو یا سات دن کی پیدا ہونے والی بچی کا قاتل بات، وہ عورتیں یا بچیاں جنہوں نے فزیکل ابیوز سہا وہ بھی خود قصور وار کہلائی جاتی ہیں کہ انہوں نے مردوں کی بے قابو ہوتی نفسانی شہوت کو ہوا دے دی۔ نہ یہ عورتیں پیدا ہوتیں نہ یہ سب ہوتا۔ معاشرے میں سکون ہوتا۔

یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جس کی جڑوں میں یہ بات ہے کہ عورت مرد سے کمتر ہے اسے انسان نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس سے روا ہر ظلم کو جسٹیفائی کرنے کے لیے لاکھوں ذہن ہیں۔ یہ جرت کس نے دی کہ مرد عورت کو نظروں میں تولیں، انہیں آنکھیں پھاڑ کے دیکھیں، ان پہ واہیات باتیں کریں، منہ بھر کے ماں بہن کی گالی دیں، ظلم کریں زیادتی کریں اور شرمندہ ہو تو عورت۔ وہ کیوں شرمندہ نہ ہو جس کی آنکھوں میں ہوس، دماغ میں گند اور زبان پہ غلاظت ہے شرم اس کو کیوں نہ آئے جو درندہ ہے اپنی سوچ کی گندگی کو ساتھ لیے پھرتا ہے۔

اس لیے کہ وہ اس سماج کا حصہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ کہ یہ سب کرنا مرد کے جائز ہے اس کا حق ہے اور ایسا کرنے میں وہ حق بجانب ہے۔ یہ سماج اندھا ہے اور گندا ہے، جہاں ان سب مسائل پہ بات کی جاتی ہے تو ان کی اعلی اقدار و روایات پہ چوٹ پڑتی ہے جس نے یہی سکھایا ہے کہ مرد کا یہ گھٹیا پن، بری سوچ، درست ہے تبھی تو خواتین کے عالمی دن پہ یہ رونے لگتے ہیں کہ پلیز ہمیں ایسا کرنے سے منع مت کرو ہمیں اپنی غلاظت بھری سوچ کے ساتھ جینے دو اور آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے دو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments