ریت رواج اور عورت مارچ


2012 کی بات ہے، ہمارے ہاں جڑواں بچیوں کی پیدائش ہوئی۔ چونکہ دماغ کی خرابی یہ ہے کہ مجھے مرد اور عورت کا فرق کبھی سمجھ ہی نہیں آیا۔ مجھے دونوں ایک جیسے لگتے ہیں۔ ہسپتال میں آپریشن کے بعد لیڈی ڈاکٹر نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھیں یہ خدا کے کام ہیں۔ تو میں نے کہا کہ جی میں باخبر ہوں کہ انسانی پیدائش قدرت کا کام ہے۔ مگر آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں نہیں جانتا، تو وہ بولیں کہ لوگ بچیوں کی جڑواں پیدائش پہ زیادہ خوش نہیں ہوتے۔ میں نے ان سے کہا کہ محترمہ میں نے بچیوں کے نام بھی پہلے سے سوچ رکھے ہیں۔ آپ بے فکر رہیں، میں اتنا باشعور نہیں کہ مرد اور عورت کے فرق کو سمجھ سکوں۔

یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ بچی کی پیدائش پہ عورت بھی زیادہ خوش نہیں ہوتی۔ یہ وہ فکری اور عملی تضادات ہیں کہ جن کے سبب عورت مارچ کی راہ ہموار ہوتی ہے کہ تاکہ وہ معاشرے میں اپنا وجود ثابت کر سکیں۔ اب طریقہ کار پہ اختلاف سہی مگر مسئلہ تو کہیں گہرائی میں موجود ہے۔

ایک نومولود بچی کو باپ کا گولیاں مارنا اور پھر دو دن بعد عورت مارچ کا ہونا بذات خود متقاضی ہے کہ ہمیں بحیثیت معاشرہ دیکھنا ہے کہ عورت کا مطالبہ کیا ہے اور وہ کتنا موزوں ہے۔ عورت میں عدم تحفظ کی سب سے بڑی وجہ پدر شاہی سماج کا وہ رویہ ہے کہ جس پہ عورت کو اعتراض ہے۔ عورت کو جنس سمجھ کے سلوک کرنے کی بجائے اسے برابر کا انسان سمجھنا ضروری ہے۔ جب ہم اسے جنس سمجھیں گے تو پھر وہ آواز اٹھائے گی چاہے ہم اس آواز کو بے حیائی کہتے رہیں۔ عورت وہی کچھ کہہ رہی ہے کہ جو وہ بھگت رہی ہے لہذا حوصلہ پیدا کر کے سننا پڑے گا۔

اسی طرح جہیز کو ”لعنت“ قرار دینے اور ملامت کرنے کی مشق بھی اتنی مرتبہ ہو چکی ہے کہ شمار ممکن نہیں ہے۔ مگر یہ ہماری منافقت ہے کہ یہ ابھی تک رائج ہے۔ وہ کیا عوامل ہیں کہ جن کے سبب لڑکی کی پیدائش ایک المیہ بن جاتی ہے۔ ایک غریب کو بچی کی پیدائش پہ کتنی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ”بیٹی“ کی پیدائش پہ ابھی تک شیرینی بانٹنے کی رسم ادا نہیں ہوتی؟ دوسری طرف بیٹا پیدا ہونے پہ شادیانے بجا بجا کے اعلان ہوتا ہے کہ ہم بیٹے والے ہیں۔

بیٹی اتنی ناگوار والدین کے لیے قطعی نہیں ہو سکتی کوئی بلا ہے جس نے بیٹی کے مقدر کو صدیوں سے اپنے قبضے میں کر رکھا ہے۔ اولاد سے منسلک والدین کے جذبات کی تصدیق ہر صاحب اولاد کرتا ہے بلکہ خود اولاد بھی اس احساس سے عاری نہیں ہے۔ لیکن بیٹی کی پیدائش کی خبر جہاں تک پہنچتی ہے ایک سرد آہ اس کا استقبال کرتی ہے۔ منہ پہ مسکراہٹ آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خود عورت ایک بیٹی کی پیدائش پہ خاموش احتجاج کرتی ہے اس کا اعتراض اپنے بطن سے پھوٹنے والی زندگی پہ کیونکر ہو سکتا ہے؟ اس بلا کا خوف اتنی شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ پنگھوڑے میں لیٹی ”ننھی پری“ کو ماں اور باپ کا تخیل جوان کر دیتا ہے اور پھر وہ اس کی قسمت کو سوچ سوچ کر بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ بیٹیوں کے باپ وقت سے پہلے کیوں بوڑھے ہو جاتے ہیں، وہ کون سا خوف ہے جس کے باعث لوگ بیٹی کے نصیبوں کی اتنی فکر کرتے ہیں۔

بیٹی جو خود زندگیوں کو جنم دینے کا ذریعہ ہے جو انسانی پرورش کے عظیم فریضے کا آغاز خود کرتی ہے۔ اس کی ”ممتا“ کا تعلق براہ راست انسانی جذبات اور حساسیت سے اس طرح منسلک ہے کہ آنکھیں اشکبار ہونے میں وقت نہیں لیتیں۔ عورت کی رشتوں اور خاندان کی بناوٹ کے لیے دی جانے والی قربانیوں کا ذکر بہت احترام سے کیا جاتا ہے ۔ وہ کردار جو ایک انسان کی پیدائش سے بڑھوتری تک اپنی ذات کو بھولے رکھتا ہے ایک عورت کا ہی تو ہے۔

مگر اس عورت کے لیے معاشرے کے پاس ایک نام نہاد تقدس اور غیرت کے علاوہ کیا ہے۔ کتنی عورتیں ہیں کہ جنہیں طلاق کے لفظ کو یکے بعد دیگرے تین دفعہ ادا کر کے مرد کی زندگی سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ کیا معاشرے کی تقدیس کے رکھوالوں نے اس لفظ کی جذباتی ادائیگی کو ممنوع قرار دیا ہے۔ کتنی عورتیں ہیں کہ خاندان کو جوڑنے اور عزت کے نام پہ ساری زندگی کسی ناپسندیدہ شخص کے ساتھ گزار دیتی ہیں۔

حالانکہ انسانی تاریخ کے دریچوں میں جھانکیں تو یہ عورت نسل انسانی کے لیے کئی خدمات دے چکی ہے جنگوں میں حصہ لینے سے لے کر سیاسی تحریکوں میں حصہ لینے تک اپنا ایک متحرک کردار ادا کرتی رہی ہے۔ دنیا میں اب تک جتنی بھی ترقی ہوئی چاہے وہ سائنس کا میدان ہو یا ادب کا، تاریخ کا ہو یا فلسفے کا، ہمیں عورت کا زندہ کردار ہر جگہ نظر آتا ہے۔ تہذیبی سفر میں ان حقائق کو ہم تسلیم بھی کرتے ہیں مگر ہمارے روئیے عورت کے حوالے سے مشکوک رہتے ہیں۔

عورت سے منسوب عزت اور غیرت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں ابھی بہت سی شدتوں کا سامنا ہے۔ بلاشبہ ہم آج کے مقبول بیانیے کے مطابق انتہا پسندی سے نفرت کرتے ہیں مگر ہمارے برتاؤ میں یہ لا شعوری حرکت رونما ہوتی رہتی ہے اور یقیناً اس سے منکر ہوا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ یہ موجود ہے۔ یہ بلا جس نے بیٹی کی ذات سے جو خدشات وابستہ کیے ہیں ان کا پیچھا جب کرتے ہیں تو ان کا مسکن کبھی ”جہیز“ کی نگری میں جا ملتا ہے اور کبھی ”عزت و غیرت“ کی بے بنیاد وابستگیوں میں ان کا پتہ ملتا ہے۔

پھر ایسے معاشرے میں عورت کا خود اپنے حق کے لیے بات کرنا بے حیائی کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔ ہم جہیز کی رسم کو سماجی برائی سمجھنے تک تو ہم پہنچ چکے ہیں۔ یہ جاننا بھی مشکل نہیں کہ معاشی طور پہ تنگ دست انسان کوایک بیٹی کی رخصتی کے لیے کیا کیا لوازمات نہیں کرنے پڑتے اور اوپر سے ”رواج“ کے نام پہ رہی سہی کسر نکل جاتی ہے ریت، رواج جو کبھی انسانوں کے درمیان تعلق قائم کرنے کا ذریعہ ہوا کرتے تھے، لیکن آج کل محض ”منہ پہ لگی ناک“ کے کٹ جانے کی فکر میں ان کی نہایت اہتمام سے پاسداری ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بندوبست کرنے والے خاندان پہ کیا بیت رہی ہوتی ہے ان باتوں کی طرف دھیان نہیں ہوتا۔ ”جہیز“ سے لاد کر بھی بیٹی کی زندگی اگر خوشگوار نہ ہو تو پھر اس کی وجہ قسمت کی خرابی سمجھی جاتی ہے۔

بیٹی کی پیدائش پہ ناگواری کی ان وجوہات کو اگر خاطر میں نہ لایا جائے اور ایک انسان کی پیدائش کے اس معاملے کو بیٹے اور بیٹی کی پیدائش سے نہ بدلا جائے تو خیراتی اداروں میں بیٹیوں کے ورثا کا پتہ بھی مل جائے گا اور جو خوف ”صنف نازک“ سے وابستہ ہیں ان سے بھی چھٹکارا مل سکتا ہے۔ وہ تمام پریشانیاٰں جن کا غم والدین کو بیٹیوں کی پیدائش پہ کھانے لگتا ہے وہ ختم ہو سکتی ہیں۔ لیکن ریت رواج کی ایسی ظالمانہ پابندیاں انسانی پیدائش کو المیہ ہی بنا دیتی ہیں۔

یہ نمائشی انداز اور دکھاوے کے حربے، یہ نمایاں ہونے کی صفت، ملازمتیں اور مقابلے کی تڑپ ہمارے اندر کی کمتری کا اظہار ہے جسے ہم مختلف طریقوں سے بدستور کیے جا رہے ہیں۔ ان حقیقتوں کو ہم کب جھٹلا سکتے ہیں جو عذاب بن کے جو سماج پہ مسلط ہیں، اس نے لوگوں سے ان کی عزت نفس پہ سودے بازی شروع کر رکھی ہے۔ اس عذاب کا شکار لوگ دراصل اپنی بدل دینے کی طاقت سے آشنا نہیں ہیں ورنہ کون سی برائی ہے جسے انسان نہیں اکھاڑ کر پھینک سکتا۔

اناؤں اور غیرتوں کی دلدل میں عورت کا پورا وجود دھنسا ہوا ہے ان نام نہاد اقدار کی حمایت میں ماضی کے حوالوں کی نتھنی ابھی عورت کے زیور سے نکل جانی چاہیے۔ ہر وہ ”فیشن“ اور ہر وہ ”غیرت کا حوالہ“ جس نے تیسری دنیا کی عورت کو مفلوج کر رکھا ہے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو روک رکھا ہے اس کی گنجائش اب باقی نہیں رہی ہے۔ اس دیمک کی چاٹ کو معاشرے کی تعمیر و ترقی پہ فوقیت نہیں دی جا سکتی۔ عورتوں کے حقوق کی فضیلت کو شمار کر کے عوامی مباحثوں کو جیتنا کوئی معنی نہیں رکھتا دیواروں سے لپٹی سسکیوں کو سننا پڑے گا اس کرب اور ذلت کے رواج کو ہم سب نے مٹانا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments