آسٹریلیا کے خلاف راولپنڈی ٹیسٹ پر تجزیہ: پاکستان ٹیسٹ کرکٹ سے کیا چاہتا ہے؟

سمیع چوہدری - کرکٹ تجزیہ کار


یہ بات ہضم کرنا بہت مشکل ہے کہ کوئی کھیل پانچ دن جاری رہنے کے بعد بھی بلا نتیجہ ختم ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اب وہ دن چلے گئے جب ڈرا کو بھی ٹیسٹ کرکٹ میں ایک معمول کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا۔

تاریخی طور پہ ایشین کنڈیشنز میں سب سے زیادہ میچز ڈرا ہوئے ہیں۔ مگر پچھلی ڈیڑھ دہائی سے یہ رجحان بدلنے لگا ہے اور اب بحیثیت مجموعی ڈرا ٹیسٹ میچز کا تناسب بہت ہی کم ہو چکا ہے۔ کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کرکٹ بھی اتنی تیز ہو چکی ہے کہ اب تو کیوی، افریقی اور آسٹریلوی کنڈیشنز میں کئی ٹیسٹ میچز تین دن میں ہی ختم ہو جاتے ہیں۔

مگر راولپنڈی کی یہ رجعت پسند پچ اس سارے انقلاب کی یکسر نفی ثابت ہوئی۔ اس پچ نے ستر کی دہائی کی ٹیسٹ کرکٹ کی یادیں تازہ کر دیں جب دن چڑھنے سے سائے ڈھلنے تک سست رو، بورنگ بیٹنگ جاری رہتی اور میچ کسی گمراہ بحری جہاز کی طرح بے سمت گھومے چلے جاتا۔

گذشتہ شام سٹیو سمتھ نے بھی پریس کانفرنس میں یہی بتلایا کہ یہ پچ بالکل مردہ اور بے حس تھی۔ اگرچہ آئی سی سی کے پچ ضوابط کی روشنی میں یہ وکٹ شاید ‘بُری’ قرار نہ دی جا سکے مگر ان بائیس کھلاڑیوں سے تو ذرا پوچھیے جو پچھلے پانچ دن سے اس مردہ قطعۂ زمین سے سر ٹکرا رہے تھے۔

حالانکہ راولپنڈی کی پچ ہمیشہ پیس بولنگ کے لیے مشہور رہی ہے اور اس کی یہی شہرت ملحوظ رکھتے ہوئے کمنز نے چار پیس بولنگ آپشنز کے ساتھ میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر یہ پچ سارے تخمینوں اور اندازوں کو مات دے گئی۔

حالانکہ پچھلے ہی برس، اسی راولپنڈی کی وکٹ پہ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان ایک ٹیسٹ میچ کھیلا گیا تھا جہاں لگ بھگ پانچ سو اوورز میں چالیس وکٹیں گریں اور چاروں اننگز میں کوئی بھی ٹیم تین سو کا مجموعہ حاصل نہ کر پائی۔

اس کے برعکس یہاں پانچ دن کی مارا ماری کے بعد بھی محض چودہ وکٹیں گریں۔ اگر ایک طرف آسٹریلیا کی بولنگ اوسط 238 فی وکٹ رہی تو دوسری جانب پاکستان کی بولنگ اوسط بھی 46 کے لگ بھگ رہی جو کسی بھی اعتبار سے تسلی بخش نہیں ہے۔

تاریخی طور پہ پاکستانی پچز کی وجہِ شہرت ہی کم باؤنس اور مبالغہ آمیز ٹرن رہا ہے۔ مگر احسان مانی نے اپنے دور میں کیوریٹرز کی جدید ٹریننگ کا سامان کیا تھا اور حالات میں کچھ بہتری بھی آئی تھی۔ اور پھر رمیز راجہ نے بھی عہدہ سنبھالتے ہی جدید پچز کے بارے بہت دعوے کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

پنڈی ٹیسٹ برابر: کیا یہ پِچ کسی خوف کی وجہ سے ’مردہ‘ تھی؟

بسمہ معروف کی بیٹی کیساتھ انڈین ٹیم کی ویڈیو: ’میدان سے ہٹ کر کرکٹ کبھی کبھی بہت خوبصورت ہوتی ہے‘

شین وارن کی ہنگامہ خیزی: بال آف دی سنچری سے لے کر بک میکر سے رقم وصولی تک

رمیز راجہ تو آسٹریلیا سے ‘ڈراپ اِن’ پچز منگوانے کی باتیں بھی کر رہے تھے۔ شاید ان کے انہی دعوؤں سے متاثر ہو کر راولپنڈی کے کیوریٹرز بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھ گئے اور کوئی کوشش ہی نہ کی۔

اور پھر موسم کو کیا دوش دیا جائے کہ یہ کسی کے بس کی بات ہی نہیں۔ عموماً ایسی ابوظہبی نما پچز پہ چوتھے دن تک اتنی شکست و ریخت ہو چکی ہوتی ہے کہ سپنرز میچ کو زندہ کر چھوڑتے ہیں۔ مگر یہاں بارش اور نمی کے سبب یہ بھی ممکن نہ ہو پایا۔

روایتی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کبھی مطلع ابر آلود ہو اور ہوا میں نمی ہو تو سیمرز کا گیند سوئنگ ہونے لگتا ہے۔ مگر اس وکٹ پہ زندہ تو درکنار، مردہ گھاس بھی دیکھنے کو نہ تھی سو نمی اور ابر آلود مطلع بھی کیا ہی کر سکتے تھے!

یہ باتیں کہنے سننے میں بہت بھلی لگتی ہیں کہ ہم بہترین ٹیسٹ ٹیم بنانا چاہتے ہیں تاکہ دنیا ہم سے کترانے کی بجائے ہم سے کھیلنے میں فخر محسوس کرے۔ مگر اس امر کو حقیقت بنانے کے لیے دلچسپ اور پُرجوش مقابلے ممکن بنانا بھی ضروری ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کا یہ ٹیسٹ سکواڈ نہایت باصلاحیت کھلاڑیوں پہ مشتمل ہے اور بہترین ٹیم بننے کا مکمل پوٹینشل رکھتا ہے مگر ایسی بے کیف کنڈیشنز میں کھیل کھیل کر یہ ٹیم کبھی بھی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ یا جنوبی افریقہ کے دوروں پہ پُراعتماد کرکٹ نہیں کھیل سکے گی۔

پی سی بی کو یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس کی فراہم کردہ پچز بلے بازوں اور بولروں کو یکساں مدد فراہم کریں۔

ورنہ ایسے ٹیسٹ میچ کا کیا فائدہ جہاں پانچوں دن بیٹنگ کی ہی نیٹ پریکٹس چلتی رہے اور بولر کمر دوہری کر کر کے ہلکان ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments