ڈیوڈسن کا آخری باب


(یہ مضمون انگریزی جریدے ”گلوبل جرنل آف میڈیسن اینڈ پبلک ہیلتھ“ میں چھپ چکا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر اس کا اردو ترجمہ شائع کیا جا رہا ہے۔ )

جانتے ہو، ڈیوڈسن کا سب سے اہم باب کون سا ہے؟ طاہر بھائی نے مجھ سے پوچھا۔

قارئین جو میڈیکل کی دنیا سے تعلق نہیں رکھتے، ان کے لئے بتاتا چلوں کہ ڈیوڈسن میڈیکل کالج کے آخری سال میں پڑھائی جانے والی وہ کتاب ہے، جس میں بیماریوں کی تشخیص اور علاج کی تفصیلات ایک ہی جگہ اکٹھی کر دی گئی ہیں اور یہ کتاب جدید طب کی بائبل کا درجہ رکھتی ہے۔ کتاب کا مکمل نام Davidson ’s Principles and Practice of Medicine ہے، لیکن میڈیکل کے طلبہ میں یہ کتاب، صرف ڈیوڈسن کے نام سے جانی جاتی ہے۔

طاہر بھائی اس کتاب کے بارے میں مجھ سے پوچھ رہے تھے۔

یہ سن 1984 کی بات ہے۔ میں میڈیکل کالج میں پہلے سے دوسرے سال میں ترقی پایا ہی تھا کہ مجھے ہاسٹل میں کمرہ مل گیا اور میں راولپنڈی میڈیکل کالج کے پچھواڑے واقع ایک ویران سی جگہ، جس کا نام کہنے کو چمن زار کالونی تھا، سے ہاسٹل کے کمرہ نمبر 70 میں منتقل ہو گیا۔ میرے روم میٹ عقیل الرحمن اس وقت فائنل ایئر میں تھے اور ایک وسیع حلقہ احباب رکھتے تھے۔ انہی میں ایک طاہر اقبال بھی تھے جو اکثر ہمارے کمرے میں آیا کرتے، اور ظاہر ہے اس وقت تک مکمل ڈاکٹر نہیں بنے تھے۔

یہ طاہر اقبال اور ان کی کلاس کا کالج میں آخری سال تھا۔ ان کا اپنے اوپر اعتماد، دبنگ آواز، بڑے سٹائل سے انگریزی بولنا، اور سب سے بڑھ کر میڈیسن کے ساتھ ان کا عشق، انہیں ابھی سے ایک مکمل ڈاکٹر بنائے دیتا تھا۔ اور یہ ساری باتیں مجھ جیسے جونیئر کو جو میڈیکل کالج میں آ جانے کے باوجود اس وقت تک اس ادھیڑ بن میں تھا کہ اسے ڈاکٹر بننا ہے یا کچھ اور، ان سے مرعوب کرنے کے لئے کافی تھیں۔

تو طاہر بھائی کتاب کے سب سے اہم باب کے بارے میں مجھ سے پوچھ رہے تھے۔ جواب میں میری سوالیہ صورت دیکھ کر کہنے لگے، ڈیوڈسن کا سب سے اہم باب اس کا آخری باب ہے، لیکن وہ اس کتاب میں نہیں ہے۔ میں حیران ہوا اور وہ ہنس کر کہنے لگے، یہ باب کتاب ختم کرنے کے بعد اور کام میں ہاتھ ڈالنے سے شروع ہوتا ہے۔ اس فلسفیانہ جواب کی سمجھ تو مجھے بالکل نہ آئی، لیکن احتراماً خاموش رہا۔

سمجھ تب شروع ہوئی جب میڈیکل کالج کے تیسرے سال میں نے عملی تربیت کے لئے ہسپتال جانا شروع کیا اور ہاؤس جاب کرتے، ڈاکٹروں والا سفید کوٹ پہنے طاہر بھائی کو کام کرتے ہوئے دیکھا۔ میرا اور ان کا تعلق ایک دوست کا تھا لیکن ہسپتال میں انہیں عموماً سیریس پا کر میں مودب سا ہو جاتا۔ ایک دن دل کڑا کر میں نے پوچھ ہی لیا: طاہر بھائی! وہ آپ کی مسکراہٹ، وہ دلربائی، وہ انگریزی گانوں کا شوق، وہ سب کیا ہوئے؟

اس وقت ہم وارڈ کے اندر داخل ہونے والے دروازے کے بالکل پاس کھڑے تھے۔ ہمارے آگے وارڈ کا وسیع ہال تھا جس میں دائیں اور بائیں لمبی دیواروں کے ساتھ دور تک مریضوں کے بستر لگے تھے۔ بستر جن کے پائپ سفید روغن سے رنگے تھے اور جن پر سفید چادریں تھیں۔ اور جن کے ارد گرد سفید یونیفارم پہنے ہوئے نرسیں، ادھر ادھر چل رہی تھیں اور مریضوں کو دوا دے رہی تھیں۔

کہنے لگے : جب وارڈ میں ایک مریض بھی سیریس ہو تو نہ مسکراہٹ کا خیال آتا ہے، نہ کسی اردو، انگریزی گانے کا ۔ یہ زندگیوں کا معاملہ ہے بیٹا۔ یہ احساس کہ ایک لمحہ کی غفلت کسی کی زندگی کو موت میں بدل سکتی ہے، یہ احساس کسی اور بات کی طرف دھیان جانے ہی نہیں دیتا۔

آگے کو چلتے ہوئے پلٹ کر کہنے لگے۔ تمہیں یاد ہے ایک دفعہ ڈیوڈسن کے بارے میں میں نے کہا تھا کہ اس کتاب کا سب سے اہم باب اس میں نہیں ہے؟ میری زندگی اب اسی باب پر مشتمل ہے۔ یہ باب پڑھنے کی نہیں، برتنے کی چیز ہے۔ ”یہ برتنا کیا ہوتا ہے؟“ میں یہ سوال کرنے ہی والا تھا کہ نرس نے طاہر بھائی کو مخاطب کیا۔ پلیز بیڈ نمبر چودہ کو دیکھ لیں۔

طاہر بھائی تو آگے بڑھ گئے اور میں وہیں کھڑا کچھ سوچتا رہا۔ یوں لگا جیسے وہ ہال اور اس میں سفید فرنیچر، اور بستروں پر بچھی سفید چادریں اور سفید کپڑے پہنے نرسیں ایک باغ ہے جس میں ساری گھاس اور پودے سفید ہو گئے ہیں، اور سارے پھول مرجھا گئے ہیں، لیکن ان کے بیچ ایک ایسا کردار ہے جو سفید چادر کے پاس جاتا ہے اور اس پر پڑے مرجھائے ہوئے پھول کو ہاتھ لگاتا ہے، یک بیک وہ پھول کھل اٹھتا ہے، اس کا رنگ سرخ، نارنجی، گلابی ہو جاتا ہے۔ مسیحا کا ہاتھ موت پر زندگی کو حاوی کر دیتا ہے۔

طاہر بھائی مجھے چھوڑ کر مریض کی جانب بڑھ گئے اور مجھے ڈیوڈسن کے اس آخری باب کے ”برتنے“ کو سمجھنے میں اگلے پچیس برس لگ گئے۔

میں نے ڈیوڈسن کے اس سب سے اہم باب کو کمال تن دہی سے گزارتے ہوئے عماد کو دیکھا جو ایمرجنسی وارڈ میں رات کی ڈیوٹی کرتا تھا۔ ریذیڈنسی کے دوران میری بھی نائٹ ڈیوٹی تھی جب میرا اس سے تعارف ہوا اور پھر اکثر میں اپنا کام نبٹا کر اس کے پاس ایمرجنسی روم ( ای آر) میں چلا جایا کرتا۔ اگر کوئی مریض ہوتا تو میں بھی اس کا ہاتھ بٹا دیتا اور اگر ذرا فراغت ہوتی تو ہم نیند کو بھگانے کے لئے کافی پیتے اور باتیں کرتے رہتے۔

رات گئے ہسپتال کے کاریڈور روشنیوں سے جگمگاتے، ان کاریڈورز میں کھلنے والے دروازوں کے پیچھے واقع وارڈز اور کمروں میں مریض خاموشی سے لیٹے رہتے، رات زیادہ گہری ہونے پر ہمارے دماغ بھی ایک خاموشی، ایک دھند کا شکار ہونے لگتے، بات کرتے ہوئے فوکس کرنا مشکل ہوجاتا، اپنی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوتی اور شدت سے جی چاہتا کہ ہمیں بھی بستر میسر ہو اور ہم اس پر لیٹ کو اپنے جسم کو آرام دیں۔

ایسے میں عماد مجھے جھنجھوڑ دیتا۔ بھائی! سونے کی نہیں ہو رہی۔ کوئی سی پی آر والا آ گیا تو سوتے ہوئے ڈاکٹر ایسے مریض کو کیسے سنبھالیں گے؟ رات گئے دل کے دورے کے مریض کہیں زیادہ تعداد میں آتے ہیں، ان میں سے کئی ایسی کیفیت میں آتے کہ ان کا دل اور سانس بند اور زندگی ناپید نظر آتی تھی۔ عماد انہیں جھٹ سے سی پی آر کرتا اور منٹوں میں نبضیں اور سانسیں چلنے لگتیں۔ مردہ زندہ ہو جاتا۔ میرے دیکھتے دیکھتے عماد کے وارڈ میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا آنے والوں کے بچنے کا گراف بہت بلند ہو گیا۔ میں اسے دیکھ کر سوچا کرتا، بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ خدا نے موت کا فرشتہ مقرر کیا ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ خدا نے زندگی کے بھی کتنے سارے فرشتے بنائے ہیں۔ ان میں سے ایک عماد ہے۔

ڈاکٹر عرشیہ کو کیسے بھول سکتا ہوں، جو ایک گائنا کولوجسٹ تھیں۔ ان کا نام تو کچھ اور تھا لیکن ان کی طبیعت میں اتنی نرمی اور اتنی نیکی تھی کہ وہ مجھے ارضی کی بجائے ہمیشہ ایک عرشی کردار ہی دکھائی دیتیں۔

یہ پیڈیاٹریکس، یعنی بچوں کے وارڈ میں میرے ہاؤس جاب کے دنوں کی بات ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ لیبر وارڈ میں مریضہ ایمرجنسی میں آئی، ہاؤس افسر نے معائنہ کے بعد ڈاکٹر عرشیہ کو بلایا کہ مریضہ کی نارمل ڈلیوری ممکن نہیں۔ وقت شام کا تھا، یا رات کا ۔ ڈاکٹر اپنے گھر سے ہسپتال کا لمبا فاصلہ جلدی سے طے کر کے ہسپتال پہنچیں، مریضہ کو دیکھا اور تصدیق کی کہ ماں اور بچے کو خطرے سے بچانے کے لئے بڑا آپریشن ہی کرنا پڑے گا۔

مریضہ کے ساتھ آنے والوں نے آپریشن کی اجازت کے لئے مریضہ کے خاوند کو بلایا، کافی انتظار کے بعد شوہر آیا تو پہلے تو اکھڑ لہجے میں گفتگو کی اور پھر اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ گائنا کا لوجسٹ نے سمجھانے کی کوشش کی، کچھ دیر انتظار بھی کیا۔ رات کے ساڑھے گیارہ بجے تمام حربے آزمانے کے بعد بھی ناکامی ہونے پر شوہر سے یہ لکھوا لیا گیا کہ آپریشن کی اجازت نہ دینا اس کا اپنا فیصلہ ہے اور نتائج کا بھی وہی ذمہ دار ہے۔

مریضہ کی حالت بہت خراب ہونے پر صبح تین بجے گائنا کولوجسٹ کو دوبارہ بلایا گیا اور پونے چار بجے بچہ پیدا ہوا تو اس کے رونے، یعنی ایک نئی زندگی کی آمد کے اعلان کے ساتھ ہی آپریشن کرنے والی ڈاکٹر بھی ایکسائیٹڈ ہو کر خدا کا شکر ادا کرنے اور گھر والوں کو مبارک دینے لگ گئی۔ ایک دفعہ میں نے پوچھ ہی لیا کہ آپ کو تو ایسے لوگوں پر شدید غصہ کرنا چاہیے، آپ انہیں مبارک دیتی ہیں؟ کہنے لگیں، ہسپتال میں میرا وارڈ ایک ایسی جگہ ہے جہاں دن میں کئی بار زندگی ایک نئی دستک دیتی ہے۔ خدا اس نئی زندگی کو آسمانوں سے بھیجتا ہے اور میں اسے دنیا میں وصول کرتی ہوں۔ اعزاز وصول کرتے ہوئے کبھی کوئی غصہ بھی کرتا ہے؟

اور ضامن سے تو میں ابھی حال ہی میں ملا ہوں۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران۔ وہ وائرس جس نے بڑے بڑوں کو ہلا کر رکھ دیا، ڈاکٹر ضامن روزانہ اس وائرس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کووڈ آئی سی یو میں داخل ہوتا اور مریضوں کا علاج کرتا ہے۔ میں نے جب ضامن کو آئی سی یو کے کٹھن حالات میں انتہائی تن دہی سے کام کرتے ہوئے دیکھا تو گرویدہ ہو گیا۔ بے اختیار جی چاہا کہ میں اس سے بار بار ملوں۔ پوچھوں کہ اتنے بھاری بھرکم حفاظتی سوٹ اور گاگلز اور دوہرے ماسک میں اس کا دم نہیں گھٹتا؟

اسے کھانا کھانا یا باتھ روم جانا مشکل نہیں لگتا؟ مریضوں کے منہ کے انتہائی قریب جا کر ان کی سانس چیک کرنا، ٹیوبیں ٹھیک کرنا اور ان کاموں سے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنا، اسے خوفزدہ نہیں کرتا؟ اس کے اپنے گھر میں بھی فیملی ہے، یہاں سے وائرس اپنے ساتھ لے جاکر انہیں منتقل کر دینے کا خوف اس کے ذہن میں نہیں آتا؟ تو ایک دن موقع پا کر میں نے یہ سوال پوچھ ہی ڈالے۔

پہلے تو وہ ٹالتا رہا، پھر میرے مجبور کرنے پر بول ہی پڑا۔ کہنے لگا، میں بہت چھوٹا تھا، جب میرے والد اس دنیا سے چلے گئے۔ ہماری والدہ نے بہت محنت کر کے ہم بہن بھائیوں کو پڑھایا۔ ارد گرد کے حالات ایسے تھے کہ گھر میں ایک مرد کی غیر موجودگی ہم سب کی کمزوری سمجھی جاتی۔ ایک مسلسل ذہنی اذیت تھی جو ہماری والدہ نے اور ہم نے برداشت کی۔ اللہ نے فضل کیا اور ہم اس دور سے نکل آئے۔ اب کسی اور کے والدین موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہوں، یہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا اور یہی خیال کہ جو ہم نے برداشت کیا، شاید کسی اور کو میں اس سے بچا سکوں، مجھے روزانہ اپنی ڈیوٹی پر لے آتا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ میں اس وقت ضامن کی باتوں پر فخر سے مسکرا رہا تھا یا جذبات کی وجہ سے امڈ آنے والے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔ جو مجھے یاد ہے وہ ضامن کا اس سے اگلا جملہ ہے۔ کہنے لگا، میرے خیال میں میں ایک مضبوط اعصاب کا شخص ہوں لیکن یقین کرو ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ میں بھی ٹوٹ جاتا ہوں۔ میں سمجھا کہ وہ گھر واپسی پر بچے جس خوشی کا اظہار کرتے ہیں، یا بیوی جس طرح سے نفل نمازیں پڑھتی ہے، اس کی بات کرے گا۔

مگر وہ کہنے لگا، کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ کورونا کے مریض کی حالت قدرے سنبھلتی ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ اس کا علاج تو اب گھر میں بھی ممکن ہے، یہاں آئی سی یو میں ہمیں اور لوگوں کے لئے بستر چاہئیں لہذا ہم اس مریض کو گھر بھیج دیتے ہیں۔ مریض سے بات کرتے ہیں تو وہ بھی خوش ہو جاتا ہے۔ آئی سی یو میں ہر وقت چلنے والی مشینوں کا شور، ہر وقت موت کا خوف، یہ سب کچھ مجموعی طور پر کافی ہراساں کرنے والا ہوتا ہے اور ایسے میں گھر جانے کی بات مریض کے لئے جیل سے چھوٹ جانے کی خبر کی طرح ہوتی ہے۔ وہ کسی بچے کی طرح خوش ہو جاتا ہے۔

مگر کئی دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ جب ایسے مریض کے گھر والوں سے بات کرتے ہیں تو وہ ہچکچاتے اور بالآخر انکار کر دیتے ہیں کہ فی الحال وہ گھر میں وائرس والے مریض کو لے کر جانا نہیں چاہتے۔ پیسوں کی کوئی فکر نہیں وہ مزید بھی خرچ کرنے کو تیار ہیں لیکن ابا جی ابھی یہیں رہیں گے۔ واپس جا کر یہ خبر ابا جی کو بتانا جو کہ اپنی سانس کی تکلیف اور آکسیجن کی ٹیوب کے باوجود اپنی ایکسائٹمنٹ میں جوتے سیدھے کیے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ اب وہ گھر چلے جائیں گے، یہ سب سے تکلیف دہ بات ہوتی ہے۔ ابا جی کا چہرہ یک دم اس بچے کی طرح ہو جاتا ہے، بھیڑ میں جس کی ماں گم ہو جائے۔

اب کے یقیناً ہم دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

قاری محترم! اگر اس گفتگو کے دوران آپ کا دھیان ایسے ڈاکٹرز کی طرف چلا گیا جو ہماری گفتگو میں جھلکنے والے ڈاکٹروں سے مختلف تھے، آدم بیزار تھے یا ہر وقت رقم کے درپے تھے، تو ہمیں ان کے وجود سے انکار نہیں۔ بس اتنا کافی ہے کہ ایسے ڈاکٹروں کا ذکر چونکہ ڈیوڈسن کے اس سب سے اہم باب میں نہیں، لہذا ہم بھی اسے کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔

فی الحال تو یہ ذکر تھا ڈیوڈسن کے آخری باب کا ۔ جو کتاب میں درج نہیں، لیکن میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ ہر شخص کو یہ باب اپنے ہاتھوں سے کام کر کے، اور راتوں کو جاگ کر لکھنا ہوتا ہے۔ اس باب میں اپنی نیند سے زیادہ کسی کی جان پیاری ہو جاتی ہے۔ اپنی بھک پر کسی کی تکلیف کا غالب آنا بھی قبول ہو جاتا ہے۔ اپنی زندگی کو جوکھوں میں ڈال کر کسی کو موت سے بچانا ترجیح بن جاتا ہے۔

طرفہ تماشا یہ کہ اس باب کو چھپوانے کا وقت کسی کو میسر نہیں آتا۔

طاہر بھائی کو بھی نہیں۔ اپریل 2020 میں طاہر بھائی نے، جو دنیا کے لئے ماہر امراض دل، میجر جنرل طاہر اقبال تھے، ڈیوڈ سن کے سب سے اہم باب میں اپنے حصے کا صفحہ مکمل کیا اور پھر یہ ورق پلٹ گیا۔ اس باب کی تپسیا سے گزرنے والے ان کے بیسیوں شاگرد ابھی باقی ہیں جو لوگوں کے درد کا علاج کرتے ہیں۔

ڈیوڈسن کا آخری باب آج بھی لکھا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر زعیم الحق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر زعیم الحق

ڈاکٹر زعیم الحق ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور اپنے شعبہ کے تکنیکی امور کے ساتھ ان انفرادی و اجتماعی عوامل پر بھی نظر رکھتے ہیں جو ہماری صحت یا بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

dr-zaeem-ul-haq has 15 posts and counting.See all posts by dr-zaeem-ul-haq

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments