عمران خان گھبرا چکے ہیں



وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد بالآخر پیش ہو چکی ہے۔ اس آئینی راستے تک پہنچنے کے لیے اپوزیشن کو عمران خان کے مربی اور سرپرست کی آبپارہ سے پشاور رخصتی کا انتظار کرنا پڑا۔ اس بات سے قطع نظر کہ عمران خان سیاسی طور پر بالکل تنہا ہوچکے ہیں۔ مگر بطور وزیراعظم انہیں اپوزیشن پر اب بھی برتری حاصل ہے۔ بقول خواجہ محمد آصف وہ کرسی بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ان کا اٹارنی جنرل سے مشورہ لینا انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔

ایک یوٹیوبر فرماتے ہیں۔ عمران خان سے کچھ بعید نہیں کہ وہ ملک میں ایمرجنسی لگا دیں۔ ان کے نزدیک قانون، پارلیمانی اقدار اور آئین کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آج کل وہ اپنی کرسی بچانے کی خاطر اپنے اتحادیوں اور ناراض اراکین پارلیمنٹ سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ خان صاحب پہلی بار ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد پہنچے اور ان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ‏ ایک ممتاز صحافی نے ان کے دورہ کراچی پر یہ طنز بھرا ٹویٹ کیا ہے۔ ”بہادری کے گن گانے والا سر جھکائے بہادرآباد حاضری دے آیا“ ۔

پچھلے دنوں وزیراعظم نے چوہدری برادران سے لاہور میں ملاقات کی تھی۔ ملاقات کے دوران عمران خان نے جب یہ کہا حکومت کے خلاف سارے کرپٹ لوگ اکٹھے ہوچکے ہیں تو یہ بات سن کر مجھے عمران خان کے اقتدار سے پہلے کے بیانات یاد آ گئے۔ وہ یہ بات اس شخص کے سامنے کہہ رہے تھے۔ جس کو وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو سمجھتے تھے۔ خان صاحب شروع میں چوہدری مونس الٰہی کی شکل تک دیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے۔ تین سال تک انہوں نے پسر پرویز کو ملاقات کا شرف بھی نہیں بخشا۔

مگر سیانے کہتے ہیں جب کوئی شخص مشکل میں پڑتا ہے تو وہ گدھے کو بھی باپ بنانے سے گریز نہیں کرتا۔ وہ اصول، عہد اور قسمیں بھلا دیتا ہے۔ سونے پر سہاگہ بندہ جب وزیراعظم ہو اور کرسی اس کے نیچے سے کھسک رہی ہو تو اسے ماضی کی ساری باتیں بھول جاتی ہیں۔ اپنی کرسی بچانے کے لیے پنجاب کے ڈاکو اور کراچی کے قاتلوں سے بھی ہاتھ ملانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ وزیراعظم صاحب آج کل اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ مگر ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ق لیگ اور ایم کیو ایم اسی راستے پر چلیں گے۔ جس کا این او سی انہیں پنڈی والے دیں گے۔

وزیراعظم فرماتے ہیں اپوزیشن بیشک تحریک عدم اعتماد لے آئے۔ انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر انہوں نے چوہدری برادران کے گھر اور ایم کیو ایم کے مرکز کا دورہ کیوں کیا۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ کیا ایک صفحے والے نیوٹرل ہوچکے ہیں۔ کیا خان صاحب کو پشاور سے کمک ملنا بند ہو چکی ہے۔ کیا جہانگیر ترین کا جہاز رائے ونڈ لینڈ کرنے والا ہے۔ یہ وہ تلخ سوالات ہیں جو ڈراؤنے خواب بن کر عمران خان کا پیچھا کر رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے بغیر کبھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھ نہ پاتے۔ وہ تین سال تک سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ ان کو حکومت چلانے کے لیے فری ہینڈ دیا گیا۔ عثمان بزدار کی بدترین پرفارمنس پر خان صاحب کو نیا وزیراعلی ’پنجاب تعینات کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ مگر انہوں نے ملک کی طاقتور ترین شخصیت کی بات بھی نہیں مانی اور ہر بار عثمان بزدار کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے رہے۔ عثمان بزدار کو تبدیل نہ کرنا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دراڑ کی وجہ بنا۔ آخر کب تک ایک کہاوت ہے بکرے کی ماں کب تک اپنی خیر منائے گی۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی پوسٹنگ کے معاملے پر عسکری حلقوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔

درحقیقت جہاں ہر صاحب اقتدار کے اردگرد خوشامد کرنے والوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ وہیں چند ایسے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جنہیں لگائی بجھائی کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ جو حکمرانوں کے اصل دشمن ہوتے ہیں۔ ایسے عناصر فوائد بھی سمیٹتے ہیں اور پشت سے وار بھی کرتے ہیں۔ آج کل عمران خان کی حکومت اپنے ایسے ہی ساتھیوں کی وجہ سے بھنور میں پھنس چکی ہے۔ کل تک اپنی بات پر اڑ جانے والے عمران خان طاقت ور حلقوں سمیت سب کی منتیں ترلے کرتے پھر رہے ہیں۔ مگر شاید اسٹیبلشمنٹ ان پر مزید بھروسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اپوزیشن کو اس بات کا سگنل دے دیا گیا ہے کہ وہ سیاست میں نیوٹرل رہیں گے۔ اسی لیے طاقتور قوتوں کی طرف سے ٹھوس یقین دہانی ملنے کے بعد ہی متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہے۔

دوسری طرف گجرات کی ایک معتبر سیاسی شخصیت ندیم افضل چن نے تحریک انصاف کو الوداع کہہ کر پی پی میں دوبارہ شمولیت اختیار کرلی ہے۔ اسی طرح کپتان کی ٹیم کے ایک اہم ترین کھلاڑی علیم خان بھی اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کرنے والے ہیں۔ لگتا ہے 2011 میں احمد شجاع پاشا نے کہیں سے روڑا اور کہیں سے اینٹ جوڑ کر جو محل تعمیر کیا تھا۔ اس کے بکھرنے اور ٹوٹنے کا لمحہ آ پہنچا ہے۔ علیم خان کا سیاسی منظرنامے میں اچانک متحرک ہونا چوہدری برادران کے لیے دھچکا ثابت ہوا ہے کیوں کہ علیم خان پنجاب کی وزارت اعلی کے ایک مضبوط امیدوار بن کر سامنے آئے ہیں۔ علیم خان فیکٹر نے پنجاب کی سیاسی صورت حال کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ چوہدری برادران کی جگہ اب جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ نے اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کرلی ہے۔ اسی وجہ سے چوہدری شجاعت نے بیماری کے باوجود ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیے ہیں۔ انہوں نے جے یو آئی کے امیر اور آصف زرداری سے ملاقاتیں کی ہیں۔ شنید ہے کہ وہ میاں شہباز شریف اور نواز شریف سے بھی ملاقات ہو چکی ہے۔

ملکی سیاست لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہی ہے۔ مگر ایک بات بالکل واضح دکھائی دے رہی ہے۔ یعنی حکومت کے تمام اتحادی کھل کر وزیراعظم کی حمایت سے گریز کر رہے ہیں۔ ق لیگ، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور باپ پارٹی مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں اپنی جگہ پکی کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اسی لیے حکومت کے اتحادی اس جاری کھیل کے سب سے بڑے کھلاڑی آصف علی زرداری سے ملاقات کرنے دھڑا دھڑ بلاول ہاؤس اسلام آباد کا رخ کر رہے ہیں۔

دوسری طرف جلسوں اور تقریبات میں وزیراعظم جس لب و لہجے میں تقریریں کر رہے ہیں۔ اسے ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کی چیخ و پکار کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔ وزیراعظم صاحب جناب آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور شریف برادران کے بارے میں انتہائی ناشائستہ زبان استعمال کر رہے ہیں۔ اپوزیشن راہنماؤں کے خلاف ان کی اخلاق سے عاری باتیں آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ شخص کو بالکل زیب نہیں دیتیں۔ وہ بلاول بھٹو کی اردو کا مذاق تو اڑاتے ہیں۔ مگر وہ خود اردو اور عربی کے بعض الفاظ احسن طریقے سے ادا نہیں کر سکتے۔ جب وہ وزیراعظم کا حلف اٹھا رہے تھے تو پوری کوشش کے باوجود بھی ”خاتم النبیین“ کا تلفظ ادا نہیں کر سکے تھے۔

مبصرین کے مطابق عمران خان کے بچنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے ہیں کیوں کہ ان کا مقابلہ سیاست کے ان منجھے ہوئے کھلاڑیوں کے ساتھ ہے جن کی قیادت آصف علی زرداری کر رہے ہیں۔ جنہوں نے جس کام کا ارادہ کیا وہ سچ کر دکھایا۔ اسی وجہ سے عمران خان زرداری صاحب کو اپنے اقتدار کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئی حکومت کو معیشت کے استحکام کے ساتھ ساتھ خارجہ محاذ پر بھی پاکستان کا وقار بحال کرنے کے لیے انتھک محنت کرنی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).