لاچار آئین اور یوم جمہوریہ!


انیسویں صدی میں برصغیر پاک و ہند کی آبادی بیس کروڑ کے قریب تھی، جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے محض بیس ہزار اہلکاروں نے برصغیر پر قبضہ کیا۔ ان بیس ہزار برطانوی اہلکاروں نے محض اپنے بل پر پورے برصغیر پر قبضہ نہیں قائم کیا بلکہ اپنی مدد کے لئے بڑے پیمانے پر مقامی افراد کی اپنی فوج میں بھرتیاں کی۔ ان مقامی فوجیوں کی سب سے اہم ڈیوٹی مقامی لوگوں پر کنٹرول رکھ کر برصغیر پر برطانوی سامراجی تسلط قائم رکھنا تھا۔

مشترکہ ہندوستان کے مقامی لوگوں نے آزادی کی طویل لڑائی جس فوج کے خلاف لڑی، آزادی کے بعد وہی فوج پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کر دی گئی۔ پندرہ اگست 1947ء کے بعد بھارت کا سیاسی نظام چلانے کے لئے ایک مضبوط سیاسی جماعت کانگریس کی شکل میں موجود تھی۔ البتہ پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان صاحب کے بعد کوئی ایسی قد آور سیاسی شخصیت نہیں تھی جو سامراجی تربیت یافتہ مقتدر حلقوں کو اپنے پیشہ وارانہ دائرہ کار میں رکھ سکے۔

اس لئے 1947 ء سے پہلے جن محکموں کو کم و بیش دو سو سال سے حکومت کرنا سکھایا گیا تھا، برطانوی سامراجی نظام کی اسی باقیات نے اپنی تربیت کے زیر اثر نئے آزاد ملک پاکستان کے سیاسی نظام پر بھی اپنا تسلط قائم کر لیا۔ لیاقت علی خان صاحب کے قتل کے بعد مقتدر حلقوں کے ”ہائبرڈ نظام“ کو ”محلاتی سازشوں“ کا نام دیا گیا اور پھر 1958 ء میں مارشل لاء نافذ کر کے فوج نے براہ راست ملک کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا۔

برطانوی تربیت یافتہ بیوروکریسی کا شروع دن سے مزاج آمرانہ تھا۔ ملک کے آئینی سربراہ کی حیثیت سے قائد اعظم کی پہلی تقریر کو تب کے کیبنٹ سیکرٹری نے اخباروں میں پرنٹ ہونے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی۔

جنرل مرزا اسلم بیگ سے پہلے کے تمام آرمی چیف برطانوی فوج کے ہی ملازم تھے۔ ان تمام فوجیوں کی عملی ٹریننگ کا بڑا مقصد مقامی لوگوں پر سامراجی تسلط برقرار رکھنا تھا۔ انگریز کو برصغیر سے بھگانے کے لئے سویلینز نے ایک طویل جہدوجہد کی۔ ہنسی آتی ہے جب 14 اگست کے دن کی برانڈنگ میں سویلینز کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ حالانکہ کے یہ ملک سویلینز کا ہے اور سویلینز  نے ہی بنایا تھا۔

ہر 14 اگست ان لوگوں کو اس ملک کا ہیرو بنا کے پیش کیا جاتا ہے جو ملک کی چوہتر سالہ تاریخ میں غیر آئینی سرگرمیاں کرتے رہے، جن کا ملک کے بنانے میں کوئی رول نہیں تھا۔ جبکہ اس ملک کو بنانے والوں کا، اور اس ملک کے اصل سویلین مالکوں کا کوئی قابل خاص ذکر نہیں ہوتا۔

بات صرف چودہ اگست تک محدود نہیں۔ تئیس مارچ 1956ء کو ملک کا پہلا آئین دستور ساز اسمبلی سے منظور ہوا۔ اس دن کو منانے کے لئے ہر سال تئیس مارچ کو یوم جمہوریہ منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن 1958 ء کے مارشل لاء کے بعد یوم جمہوریہ کو 1940ء والی قرارداد لاہور کے ساتھ نتھی کر کے اسے یوم پاکستان بنا دیا گیا اور پھر اسے فوج کی پریڈ تک محدود کر دیا گیا۔

آج کل اپوزیشن آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کرتی ہے لیکن ایک سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ اپوزیشن ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بعد یوم پاکستان کو واپس یوم جمہوریہ بنا سکے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments