سوویت رژیم کے ہاتھوں یوکرین کے کسانوں اور شہریوں کی نسل کشی


یوکرین کے دیہی علاقوں پر انقلابی ریاست کے ہاتھوں موت مسلط کردی گئی تھی، جو کسان فائرنگ اسکواڈ کے ہاتھوں موت کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئے تھے ان پر بھوک کے آسیب نے قبضہ کر لیا تھا۔ کسانوں کے اور ان کے اہل خانہ کے جسم دن بدن سکڑتے جا رہے تھے۔ یہ لوگ انسانوں سے آسیب زدہ روحوں میں تبدیل ہوتے جا رہے تھے۔ ریاستی مظالم کا شکار یہ لوگ تمام مویشی یہاں تک کہ کتے اور بلیوں کو بھی کاٹ کر کھا چکے تھے۔ کسانوں کے چھوٹے بچے اتنے لاغر ہو چکے تھے جیسے یہ کسی تجربہ گاہ کے جار میں الکحل میں محفوظ کیے ہوئے ایمبریو ہوں۔

اب جان بچانے کا واحد حل یہی تھا کہ خاندان میں زیادہ قریب المرگ کو کاٹ کر اس کا گوشت کھایا جائے۔ بہت سے افراد اپنے بہن بھائی یا بچے کا گوشت کھانے پر تیار نہیں تھے، وہ یا تو بھوک سے مر رہے تھا یا آدم خوری پر خودکشی کو ترجیح دے رہے تھے۔ راستوں پر جا بجا لاشیں بکھری نظر آتی تھیں۔ انسان کو ادب و احترام اور مذہبی و ثقافتی رسومات کے تحت دفنانے کا رواج ختم ہو چکا تھا۔ بھوک زدہ انسانوں میں بچے ہوئے صحتمند کسانوں کو ریاستی کارندے ڈھونڈتے پھرتے تھے تا کہا نہیں جبری اجتماعی کاشت کاری کے فارم میں مزدوری کے لئے بھیج دیا جائے۔

یہ یوکرین کے دیہات اور قصبوں کے مناظر تھے جنہیں سوویت یونین کے گرد پڑے آہنی پردے نے باقی دنیا سے چھپا رکھا تھا۔ گو کہ 1930 کی دہائی عالمی کساد بازاری کی دہائی تھی، نیویارک، لندن اور جرمنی میں بھی تھیلے بھر کر ڈبل روٹی کی قیمت ادا کرنا پڑتی تھی لیکن جس طرح یوکرین میں بھوک سے لوگ مر رہے تھے ایسا منظر روئے زمین پر کہیں بھی نہیں تھا۔ سوویت یونین کا سربراہ اسٹالن اپنی سخت گیر پالیسیوں کے لئے مشہور ہے۔ اس نے اپنے سابق لیڈر کے بنائی ہوئی گولاگ پالیسی Gulag Policy کو مزید وسعت عطا کی تھی۔

گولاگ پالیسی کے تحت سولووٹسکی جزیرے پر ایک نام نہاد اصلاحی کیمپ تعمیر کیا گیا تھا۔ آپ اسے سوویت یونین کے کالے پانی سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ اس کیمپ میں ان شہریوں کو منتقل کیا جاتا تھا جن پر یہ شبہ ہوتا تھا کہ وہ سرخ انقلاب کی فکر کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ اس کیمپ میں تشدد، نفسیاتی حربے اور دو اؤں کے تجربات سے قیدیوں کے ذہن تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ یوکرین کے کسانوں کی پہلی منزل بھی کیمپ سلووکی ہی تھا۔ سزا کے طور پر کیمپ میں جانے والے کسانوں کا یہ گیت یوکرینی ادب نے لوک گیت کے طور پر محفوظ کر لیا ہے :

Oh Solovki Solovki!
Such a long road
The heart cannot beat
Terror crushes the soul

ترجمہ:
اوہ سولوکی سولوکی
راہ کتنی طویل ہے
کہ دل دھڑکنے سے قاصر ہے
دہشت نے روح کچل ڈالی ہے

گولاگ پالیسی کے تحت اسٹالن نے سائبیریا اور قازقستان میں بڑے پیمانے پر جبری لیبر کے کیمپ تعمیر کروانا شروع کر دیے تھے۔ بڑے پیمانے پر جبری محنت کے کیمپوں کی ضرورت اس لئے پیش آئی تھی کہ اسٹالن نے لاکھوں یوکرینی کسانوں کو یوکرین بدر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اسٹالن کو باور کرایا گیا تھا یا یہ اس کی نام نہاد دانش تھی کہ وہ یقین کر بیٹھا تھا کہ ملکیتی زمین کے حامل کسان سرخ انقلاب کے لئے بہت بڑا خطرہ ہوں گے۔

اسٹالن نے زرعی زمین رکھنے والے کسانوں کے لئے ایک اصطلاح ”Kulkas کل کاز“ کے نام سے وضع کرتے ہوئے اعلان کیا کہ کمیونسٹ رجیم کلکاز کو ایک طبقہ میں بدل ڈالے گی۔ اس اصطلاح کے ساتھ ہی چھوٹے زمینداروں کے خلاف کردار کشی کی مہم شروع کر دی گئی۔ یوکرین میں جابجا ایسے پوسٹر آویزاں کیے گئے جن پر لکھا ہوتا تھا کہ کلکاز طبقے کو یہ انقلاب ختم کر کے دم لے گا۔ ایک اور پوسٹر سے اندازہ لگائیں کہ کسانوں کے خلاف پروپیگنڈا کس طرح ہوتا تھا۔

اس پوسٹر پر تصویر تھی کہ ایک کلکاز گائے کے تھن سے منہ لگا کر دودھ پی رہا ہے۔ اس پوسٹر سے یہ پروپیگنڈا مقصود تھا کہ شہریوں کو یہ باور کروایا جائے کہ کسان کتنے اجڈ اور بدتہذیب ہیں۔ کمیونسٹ رجیم نے ایک تکونی اشتراک بنایا تھا جو کسی بھی یوکرینی کو کلکاز قرار دینے کا اختیار رکھتا تھا۔ اس تکون میں ریاستی پولیس افسر ، اسسٹنٹ پروسیکیوٹر اور لوکل کمیونسٹ لیڈر ہوتا تھا۔ جیسے ہی کسی شہری کو کلکاز کا لیبل لگایا جاتا تھا اس کی زمین کو ضبط کر کے اسے اس کے خاندان سمیت ٹرانزٹ کیمپ میں بھیج دیا جاتا تھا۔

جب ٹرانزٹ کیمپ میں کئی ہزار کسان اور ان کے اہلخانہ جمع ہو جاتے تھے تو انہیں مال گاڑیوں میں ٹھونس کر سائبیریا اور قازقستان کے جبری مزدوری کے مراکز میں بھیج دیا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ انقلابی انتظامیہ صحت مند کسانوں کو اجتماعی زراعت کے مراکز میں بھیج دیتی تھی۔ اسٹالن نے اپنی پالیسی سے ہزاروں برس پرانے زرعی نظام کو تہہ و بالا کر ڈالا تھا۔ اسے اجتماعی کاشت کاری کا جنون تھا تا کہ کسان کو انفرادی طور پر خوشحال اور خود کفیل ہونے سے روکا جا سکے۔

اسٹالن کے اس اقدام سے پہلے 1930 میں یوکرین نے اتنا اناج پیدا کیا تھا جو تمام سوویت یونین کا پیٹ بھر سکتا تھا۔ انقلابی قیادت کے کسان مخالف اقدام سے زرعی پیداوار اتنی گری کہ کسانوں کو پیٹ بھرنے کے لئے اپنے مویشی کاٹ کر کھانا پڑے اور جو پیداوار ہوئی اسے ریاست نے ضبط کر کے مال گاڑیوں میں بھر کر رشین علاقوں میں بھیج دیا۔ اب گیہوں اگانے والوں کو گیہوں کا دانا میسر نہیں آ رہا تھا۔ نئے منظم کردہ اجتماعی زرعی مراکز کو بیجوں کی کمی کا سامنا تھا اور جانوروں کی کمی کی وجہ سے ہل چلانا ممکن نہ تھا۔ غلہ اگانے والے تجربہ کار کسانوں کی اکثریت سائبیریا کے کیمپوں میں وہاں کی جمی ہوئی مٹی کو اپنے بیلچوں سے کھودنے میں مصروف تھی۔

انقلابی حکومت نے اس صورتحال میں جبر کو اور بڑھانے کا فیصلہ کیا اور حکومت کسانوں کی کمیونٹی کو بلیک لسٹ کرنے کا قانون لے آئی۔ اب جو کمیونٹی کم پیداوار دیتی تھی ان کا اناج ضبط کر کے انہیں بھوک کے حوالے کر دیا جاتا تھا، ان کے مویشی ضبط کرلئے جاتے تھے۔ قحط جوں جوں بڑھتے جا رہا تھا اسٹالن رژیم کے جبر اور بھی بڑھتے جا رہے تھے۔ روسی سیاسی اشرافیہ اپنے مظالم اس خطے کے لوگوں پر ڈھا رہی تھی جہاں سے روسی سلاوک تہذیب نے جنم لیا تھا۔ یوکرین کا قدیم نام ہی ”Kievan Rus کیوان روس“ تھا۔

سوویت یونین نے یوکرینی باشندوں کی نسل کشی کو ایک عرصہ کامیابی سے چھپا کر رکھا تھا مگر بھوک کے ہاتھوں ہونے والے قتل چھپ نہیں سکتے تھے۔ انسانی تاریخ کی اس ہولناک نسل کشی میں ساٹھ سے اسی لاکھ باشندوں نے اپنی جان ہاری تھی۔ یہ تعداد دوسری جنگ عظیم میں میدان جنگ میں مارے جانے والے سپاہیوں سے زیادہ ہے۔

یوکرین کے لوگ ایک بار پھر بین الاقوامی سامراجیت کا جبر بن رہے ہیں، انہیں ایک بار پھر سے نسل کشی کا سامنا ہے۔

جب قحط زدہ یوکرینی باشندہ بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنے جاں بلب بچے کو کاٹ کر کھاتا ہو گا تو شاید عرش الہی ہل جاتا ہو گا۔ ہاں اسٹالن کی بیوی کا دل بھی دہل گیا تھا۔ اس نے پستول اپنے دل پر رکھ کر لبلبی دبا دی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments