روس یوکرین مخاصمہ



اٹھارہ روز پہلے روس کی فوج ملک میں داخل ہوئی تھی۔ اس دوران اس بارے میں نے کچھ نہیں لکھا اگرچہ میرا روس اور یوکرین دونوں میں ہی سیاسی سوچ کے حامل پاکستانی دوستوں سے مسلسل رابطہ رہا اور قائم ہے۔

ماسکو میں مقیم دوست یکسر مطمئن ہیں اور روس کے اس اقدام کو ایک خاص تناظر میں درست جانتے ہیں اگرچہ انسانی اور جمہوری حوالے سے اس کی مذمت بھی کرتے ہیں۔ یوکرین میں موجود دوست شروع میں یہ سمجھتے تھے کہ لوگ محض ہراساں ہو گئے ہیں مگر دو دن بعد ہی وہ یوکرین میں لوگوں کی قوم پرستی اور مزاحمت آرائی دیکھتے ہوئے یوکرینیوں کی سوچ کے زبردست حامی ہو گئے اور اب اگرچہ یہی سمجھتے ہیں کہ یوکرینی لڑنے مرنے پہ کمر بستہ ہیں اور یہ کہ درست کمر بستہ ہیں مگر روس کی عسکری طاقت اور نیٹو کی وعدوں سے پسپائی دیکھ کر مایوس بھی ہیں۔

تاریخی پس منظر کے مطابق یوکرین نام کا نہ کوئی ملک تھا نہ ہی کوئی خطہ۔ روسی زبان میں اوکرائنا، روسی اور یوکرینی زبانوں میں موجودہ ملک کو اسی نام سے پکارا جاتا ہے، کا مطلب ہے، آخری سرے پر یعنی سلطنت روس کا کنارہ۔ ازمنہ وسطٰی میں روس راجواڑوں پر مشتمل تھا جو ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے۔ شہر کیو یا کیف کے شہزادے وولدی میر نے ان سب کو مجتمع کیا تھا اور تب روس ”کیوسکی روس“ یعنی کیف کا روس کہلایا تھا یہی اس خطے میں بسنے والوں کا تفاخر ہے۔

اس خطے میں بسنے والوں سے روسی النسل لوگ جو مرکزی روس کے لوگ خود کو کہلاتے چلے آئے ہیں، نفرت کرتے رہے ہیں یا یوں کہیں کمتر سمجھتے رہے ہیں جیسے پاکستان میں شیخ اور میمن برادری کو کاروباری دکاندار صفت لوگ جان کر ان کو حقیر مگر چالاک مانا جاتا ہے۔ وجہ وہی تھی جیسے ہمارے ہاں فیوڈل مزاج کے سبب کاروبار کرنے والوں کو بازاری لوگ سمجھا جاتا ہے۔ یوکرینی بھی کاروباری ذہنیت کے لوگ تھے، شاید اس لیے کہ وہ یورپ سے نزدیک تر تھے جہاں صنعتی انقلاب آ چکا تھا۔ یوکرینی وہاں سے مال خریدتے اور مرکزی روس جا کر وہاں لوگوں کو نہ صرف مہنگے داموں بیچتے بلکہ ان کے زمیندارانہ مزاج کے برعکس کنجوس یا کفایت شعار بھی ہوتے۔ یوکرینی ایک خاص قسم کی پگڑی پہنا کرتے تھے جسے خخلا کہا جاتا تھا یوں یوکرینیوں کو حقارت سے خخول کہا جانے لگا تھا اور اب تک کہا جاتا ہے۔

1917 کے انقلاب کے بعد کمیونسٹوں نے ملک کی نئی جغرافیائی حد بندیاں کرتے ہوئے اوکرائنا کے نام سے ایک خطہ قائم کیا جو 1991 کے بعد ملک بنا۔ کمیونسٹ سربراہوں میں ایک سربراہ خروشچوف کا تعلق یوکرین سے تھا جنہوں نے جزیرہ نما کریمیا، یوکرین کو بطورحفہ دان کر دیا تھا جہاں انیسویں صدی کی ابتدا سے سلطنت روس کی بحریہ، جس کی بنیاد روس کے ایک نامور زار پیوترپیروے یعنی پیٹر اول جنہیں پیٹر اعظم بھی کہا جاتا ہے، نے رکھی تھی، کا صدر مقام تھا جہاں سیویستوپل نام کا شہر بھی آباد کیا گیا تھا اور اس جزیرہ نما میں بیشتر آبادی روسی النسل لوگوں کی تھی کچھ آبادی خود کو کریمیائی تاتار کہلانے والوں کی تھی اور بہت ہی کم نام نہاد یوکرینیوں کی، نام نہاد اس لیے کہ یوکرینی بھی نسلا ”سلاؤ ہیں، ویسے ہی جیسے روسی۔

کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی سوویت یونین ٹوٹ جائے گا البتہ جنگ عظیم دوم کے دوران یوکرین میں قوم پرستوں نے سر ابھارا، بیندر یا بندر نام کے فیمیلی نیم والے انتہا پسند یوکرینی سرغنہ کی سرپرستی میں بہت سے یوکرینیوں نے کھلے عام نازی فسطائیوں کا ساتھ دیا تھا اور بابی یارنامی جگہ پہ یہودیوں کا قتل عام کرنے میں پیش پیش تھے۔ آخر تک روسیوں کے خلاف لڑتے رہے تھے جن کا بعد میں قلع قمع کر دیا گیا تھا۔ بہرحال سوویت یونین ٹوٹ گئا اور یوں کریمیا میں روس کی بحریہ کا صدر دفتر یوکرین میں چلا گیا۔ روس نے یہ خطہ پٹے پر لے لیا اور خطیر رقم ادا کرتا رہا۔

تیونس سے نام نہاد رنگین انقلابات کا چلن عام ہوا جو مغرب کی تیارکردہ سازشوں کا ثمر تھا جس کی لپیٹ میں جارجیا اور یوکرین سمیت کئی ملک آئے۔ یوکرین میں اس انقلاب کو نارنجی انقلاب کہا گیا تھا جس کے سبب یوکرین میں مغرب دوست روس مخالف حکومت قائم ہوئی تھی۔ دوسری بار روس نے پینترا بدلا تو یانوکووچ نام کے ایک روس دوست کاروباری شخص یوکرین کے صدر منتخب ہو گئے تھے۔

بات چونکہ روس کی بحریہ سے شروع ہوئی تھی اس لیے بدنام زمانہ ”گرم پانیوں“ کی غلط العام اصطلاح ذہن میں آتی ہے جس کا ذکر کر کے مغرب نے اپنی ”کمیونزم کے آگے بند باندھو“ نام کی پالیسی کے تحت، پاکستان میں اپنے ساتھی مذہب پسند حلقوں کے توسط سے ہمیں لرزہ براندام کیے رکھا تھا کہ سوویت یونین افغانستان کے راستے بحیرہ عرب تک پہنچنا چاہتا ہے جبکہ روس کے پاس بحیرہ اسود کے سال بھر نہ جمنے والے پانی کی بندرگاہیں بشمول سیویستوپل کی بحریہ کی بندرگاہ سمیت بندرگاہیں تھیں اور ہیں۔

سوویت یونین اور بعد میں روس کے جنگی اور تجارتی جہاز بحیرہ اسود سے نکل کر بحیرہ روم میں داخل ہوتے اور وہاں سے بحور میں داخل ہوتے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ، روس کی دوسرے ملکوں میں محض ایک ملک کی چھوٹی سی بندرگاہ پر ورکشاپ اور جائے استراحت باقی بچ رہی تھی، وہ تھی شام کی بندرگاہ طرطوس جہاں بحیرہ روم میں خراب ہونے والے جہاز لائے جاتے ہیں یا عسکری و تجارتی جہازوں کا عملہ بوقت ضرورت استراحت کر سکتا ہے۔

مغرب کی بحیرہ اسود پہ تو نگاہیں ایک عرصہ سے ہیں جہاں آج روس کے علاوہ نیٹو و امریکہ کے اتحادی ملکوں ترکی اور بلغاریہ کی بھی بندرگاہیں ہیں پھر یلسن کے ساتھ ملی بھگت کر کے جہاں مغرب نے ان سے معاہدہ وارسا نام کا عسکری بلاک تڑوا دیا تھا وہاں شراب کے نشے میں دھت یلسن کو زبانی کلامی یقین دلا کے کہ نیٹو خود کو مشرقی یورپ کے ملکوں میں روس کی سرحدوں کے قریب تر نہیں لے جائے گا، ٹرخا دیا تھا۔

سب سے آسان راستہ یہ تھا کہ شام میں حکومت الٹ دی جائے طرطوس کی بندرگاہ روس سے چھین لی جائے مگر یہ روس کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا چنانچہ روس نے شام کے صدر بشار الاسد کی درخواست پر جہاں ایک طرف اپنی فوج تعینات کی وہاں دوسری طرف داعش کا قلع قمع کرتے ہوئے بشارالاسد کی حکومت کو بچائے رکھا اور مغرب پر اپنی خارجہ پالیسی کا حاوی ہونا ثابت کر ڈالا۔

اس طرف سے ناکام ہو کے مغرب نے روس کے نزدیک تریوکرین میں ایسی آگ بھڑکائی کہ پاپولزم استعمال کرتے ہوئے ملک کو خانہ جنگی تک دھکیل دیا۔ اوڈیسہ یا ادیسہ میں تو سو سے زیادہ لوگوں کو قوم پرستوں نے ایک حال میں زندہ جلا ڈالا تھا۔ کیف کے مرکزی میدان میں نشانچیوں نے عمارتوں کی بالائی منزلوں سے لوگوں کو تاک تاک کر گولیاں مار کے مار ڈالا تھا۔ اس طرح یوکرین میں مغرب دوست روس مخالف صدر پیوترپوروشینکو چنے گئے تھے۔

جب سے نیٹو نے یکے بعد دیگرے مشرقی یورپ کے ملکوں کو اپنی آغوش میں لینا شروع کیا تھا روس کی حکومت نے ہر بار ایسا کرنے سے سفارتی ذرائع سے روکنے کی کوشش کی تھی مگر اس کی کبھی نہ سنی گئی حتٰی کہ نیٹو نے پولینڈ اور رومانیہ میں اپنے میزائل مخالف نظام نصب کر دیا، جواز یہ پیش کیا گیا کہ یورپ کو بنیاد پرست شیعہ ملک ایران سے خطرہ ہے۔ ساتھ ہی بحیرہ بالٹک کے ساحل پر واقع چھوٹی چھوٹی ریاستوں لاتویا، لتھوانیا اور استونیا کو بھی شامل کیا اور لتھوانیا میں اپنے دستے بھی عارضی طور پر تعینات کرنے لگا۔

یوکرین میں خانہ جنگی کی سی فضا کے بعد جب یوکرینی حکومت نے روسی زبان بولنے والوں کا ناطقہ یوں بند کیا کہ روسی زبان کا پڑھایا جانا اور استعمال کیا جانا بالکل روک دیا تو یوکرین کے مشرقی حصے دو نباس کے لوگوں نے جو سب کے سب روسی بولنے والے تھے اپنے حقوق مانگے، ان سے سختی سے نمٹا گیا تو وہ بغاوت کر گئے۔ روس نے بلاشبہ درپردہ ان کی اعانت کی اور انہوں نے وہاں لوہانسک اور دو نیتسک نام کی دو چھوٹی چھوٹی ری پبلکیں قائم کر لیں اور اپنے طور پر آزاد ہونے کا اعلان کر دیا یوں یوکرین کی ان علاقوں کے لوگوں سے مسلسل ٹھنی رہی۔ یہ بات 2014 کی ہے۔

24 فروری 2022 تک روس یوکرین مخاصمہ پر بیسیوں بار مذاکرات ہوئے۔ بالآخر ”میثاق منسک“ پر دستخط کر دیے گئے تھے جس کے تحت خود آزاد کردہ یوکرینی علاقے سے یوکرینی فوج خاص طور پر قوم پرست تشدد پسند نیم عسکری دستوں کو وہاں سے ہٹایا جانا، روسی زبان بولنے والوں سے امتیازی سلوک سے گریز اور سکولوں اور دفاتر میں روسی زبان کی بحالی پر اتفاق کیا گیا تھا۔ مگر ان آٹھ برسوں میں ان پر نہ صرف بالکل عمل نہ کیا گیا بلکہ یوکرینی فوج اور شدت پسند نیم عسکری دستے اس علاقے میں یورپی تنظیم برائے تحفظ و سلامتی کے مبصروں کی موجودگی کے باوجود میزائل داغتے رہے۔

ان دو منحنی خود آزاد کردہ ریاستوں کو روس کی ہر طرح کی دوسری امداد کھلے عام حاصل تھی جبکہ ڈھکے چھپے انداز میں فوجی مشیروں اور اسلحے کی فراہمی کی صورت میں بھی امداد دی جاتی رہی۔ اس اثنا میں یوکرین میں نیا صدر چنا جا چکا تھا۔ یہ صاحب ایک طنز کار اداکار رہے ہیں۔ وولدی میر زیلنسکی کو ایک سیریل سے شہرت ملی تھی جس میں وہ ایک فرضی ملک کے صدر منتخب ہو جاتے ہیں۔ یہ کردار یوکرین میں کرپشن کے خلاف بڑھتے پاپولسٹ انداز سے مماثل تھا چنانچہ لوگوں نے جذباتی طور پر متاثر ہو کر کے انہیں منتخب کر لیا تھا۔ صدر چنے جانے کے بعد وہ واضح طور پر مغرب دوست رویہ اپنا چکے تھے اور یوکرین کو نیٹو میں بطور رکن لیے جانے کی خاطر سرگرم ہو گئے تھے۔

ایسے میں روس کو یقین تھا کہ وہ کریمیا کا پٹہ ختم کر دیں گے یوں روس کی بحریہ کو برقرار رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ بحریہ کسی بھی ملک کے لیے ٹانگوں کی مانند ہوتی ہے جو اگر نہ ہوں تو اس ملک کے دفاع کے بازو تن سے جدا کر دینا دشوار نہیں رہتا۔ چنانچہ روس نے پٹے پہ لیے ہوئے اپنے علاقے میں ریفرنڈم کروایا، آبادی کی اکثریت روسی تھی چنانچہ نتیجہ کریمیا کو روس کے ساتھ ملحق کیے جانے کے حق میں آیا۔ روس نے کریمیا کو یوکرین کی جانب سے مزاحمت کیے جانے کے بغیر خود سے ملحق کر لیا۔ چونکہ بجلی، پانی، گیس اور راستہ سب یوکرین کی جانب سے تھے چنانچہ ان سب کی فراہمی بقول شخصے روس کے خیال میں سونے کے بھاؤ پڑنی تھی مگر پڑی ہیروں کے بھاؤ لیکن اپنی بحریہ کے استقرار کی خاطر سودا کرنا ہی تھا۔

اب مغرب کے پاس روس کی اہمیت تمام کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ یوکرین کو نیٹو کا رکن بنا لیا جائے یوں جہاں نیٹو عین روس کی سرحد تک آ جاتی وہاں روس کی بحریہ کو بحیرہ اسود تک محدود رکھے جانے کی راہ بھی ہموار ہو جاتی چنانچہ روس کو کسی طور قبول نہیں تھا کہ ایسا ہو۔

دسمبر 2021 میں ہی روس نے یوکرین کی سرحد کے نزدیک فوج مجتمع کر کے وہاں جنگی مشقوں کا آغاز کر دیا تھا۔ مغرب نے واویلا کرنا شروع کر دیا کہ روس یوکرین پر دھاوا بولنے والا ہے۔ اس کے لیے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے نئے سال کے آغاز کی تاریخیں دی تھیں جن کو مغرب کے میڈیا نے دنیا کے لوگوں تک پہنچانا شروع کر دیا تھا۔

روس ان خبروں کی تردید کرتا رہا اور تقاضا کیا کہ روس کو اس بات کی بین الاقوامی قانونی ضمانت دی جائے کہ نیٹو یوکرین کو رکن نہیں لے گا۔ اصل میں یہ تقاضا 1991 میں یلسن کو کرنا چاہیے تھا جو انہوں نے نہیں کیا تھا۔ اس لیے بھی کہ تب سوویت یونین کے بکھراؤ کے بعد روس کمزور تھا۔ آئندہ کے دور میں روس کی پالیسی کو اندرونی حلقوں کی زبان میں ”مردہ بازو کی پالیسی“ کہا جاتا تھا کہ اگر مغرب خاص طور پر امریکہ روس پر جوہری حملہ کرتا ہے تو روس ختم ہوتے ہوئے بھی مغرب پہ کاری جوہری وار کر جائے گا۔

لیکن شام میں بشارالاسد کی حکومت کے استقرار اور بندرگاہ طرطوس کو اپنے کنٹرول میں برقرار رکھنے، جارجیا کی جانب سے ہوئی جارحیت سے سخت انداز میں نمٹنے، کریمیا کو روس کے ساتھ ملحق کیے جانے اور خود آزاد کردہ یوکرین سے علیحدہ ہوئی دو چھوٹی ری پبلکوں کی امداد جاری رکھنے اور ان کو برقرار رکھنے میں اعانت سے روس کو یقین ہو چکا تھا کہ اب وہ ”مردہ بازو“ نہیں رہا بلکہ بفرض محال امریکہ اور نیٹو کی جانب سے جوہری حملے کی صورت میں نہ صرف یہ کہ زیادہ جارحیت سے جوہری جواب دے گا بلکہ جوہری حملے کے بعد بھی صفحہ ہستی پہ قائم رہے گا۔

جب روس نیٹو کے قریب نہ لائے جانے کی قانونی دستاویز کا تقاضا کر رہا تھا تو جواب میں یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ یوکرین ایک آزاد ملک ہے وہ جس کے ساتھ چاہے شامل ہو سکتا ہے۔ اس پر روس کو یقین ہو گیا تھا کہ یوکرین کو زود یا بدیر نیٹو کا حصہ بنا دیا جائے گا جس کے بعد روس کی فریاد صدا بہ صحرا ثابت ہوگی۔

روس نے فوری طور پر لوہانسک اور دو نیتسک کی ری پبلکس کو تسلیم کیا، ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے ان کی سرزمین پر روسی مستقر تعمیر کیے جا سکتے تھے اور روس ان ریاستوں کا عسکری طور پر تحفظ کرنے کا ذمہ دار تھا۔ ایک صدارتی حکم کے تحت روسی فوج وہاں داخل ہو گئی اور مخالف یوکرینی دستوں سے اپیل کی گئی کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور گھروں کو چلے جائیں۔ ان سے کوئی تعرض نہیں ہو گا۔

اسی روز یوکرین کے صدر وولدی میر زیلنسکی نے ایک بیان دے ڈالا کہ وہ ”بودا پیسٹ معاہدے“ کو نہیں مانتے اور نیٹو کی جوہری طاقتوں کو اجازت دیتے ہیں کہ اپنے جوہری ہتھیار یوکرین کی سرزمین پہ پارک کریں۔ یہ بہت ہی غیر مناسب بیان تھا۔

ہنگری کے دارالحکومت بوداپیسٹ میں یہ معاہدہ روس، یوکرین، امریکہ اور نیٹو کے مابین ہوا تھا جس کی رو سے یوکرین سے سوویت یونین کے تمام جوہری ہتھیار ہٹا کر کے اسے جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ بنایا گیا تھا۔

ایسے میں روس کو جلدبازی سے کام لیتے ہوئے یوکرین کی سرزمین میں خصوصی فوجی کارروائی کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا تھا جس کے ذریعے یوکرین کو عسکری ارادوں سے باز رکھنا اور سرزمین یوکرین کو نیونازی قوم پرست تنظیموں اور عسکری شدت پسند دستوں سے پاک کرنا مقصود تھا اور ہے۔

یہاں میں یہ بتانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ جس طرح سوویت یونین پروپیگنڈا کے میدان میں کمزور تھا اسی طرح آج روس بھی مغرب کے مقابلے میں اس میدان میں بہت کمزور ہے۔ اگر سوویت یونین کر سکتا تو گرم پانیوں کے جھوٹے پروپیگنڈا کو رد کرتا۔

دوسرا یہ کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے یوکرین میں روس دشمنی کو باقاعدہ فروغ دیا جاتا رہا ہے۔ روس نے غیر عسکری انسانی جانوں کے تحفظ کی خاطر تھوڑا توقف کیا کیا کہ امریکی، برطانوی، یورپی سارے میڈیا روس پہ پل پڑے۔ ویسے بھی مابعدالصدق دور ہے جس میں جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے کا چلن عام ہے۔ اس کا مغرب نے بے محابا استعمال کیا۔ روس کے پاس لے دے کے ایک ریڈیو وائس آف رشیا کی یورپی زبانوں کی نشریات ہیں جو بہت کم لوگ سنتے ہیں اور ایک انگریزی زبان کا ٹی وی چینل رشیا ٹوڈے جس کی یورپ میں رسائی روک دی گئی۔

پوتن کو وحشی کمیونسٹ کے طور پر اور روسی فوج کو بربر بنا کے پیش کیا گیا۔ باقی دنیا نے یوکرین کو مظلوم اور روس کو ظالم تسلیم کر لیا۔

جیسے ان دنوں ایک وڈیو گردش میں ہے کہ روس کے ٹینک شہر خرسون میں گھوم رہے ہیں جن کے جلو میں خوش پوش اور مطمئن شہریوں کا ہجوم چل رہا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ اپنے موبائل پر وڈیو بھی بنا رہے ہیں۔

لوگوں کے ہجوم سے ”تم فسطائی ہو۔ تم فسطائی ہو“ کی صدائیں آ رہی ہیں۔ کبھی کبھار ٹینک پہ سوار کوئی روسی فوجی ایک ہوائی فائر کر دیتا ہے اور بس۔ روسیوں کو آپ جتنی چاہے گالیاں دے لیں شاید جھگڑا نہ ہو لیکن خود کو فاشسٹ گردانے جانا عام روسی بھی برداشت نہیں کر سکتا چہ جائیکہ مسلح حملہ آور فوج۔ میں تو روسی فوج کے صبر کی داد ہی دے سکتا ہوں مگر لگتا ہے لفظ فاشسٹ کا وڈیو میں ”اوورلیپ“ ہے۔

یوکرین میں کیف سے 130 کلومیٹر دور بیٹھے دوست نے خرسون میں میری ایک پاکستانی سے بات کروائی جو گھر میں بیٹھے خود کو قیدی سمجھ رہے تھے اور وہاں سے نکلنا چاہتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ روس مخالف مظاہرے ہوتے ہیں، لوگ ٹینکوں کے آگے لیٹ بھی جاتے ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ روسی آ کر ان سے اشیائے ضرورت کے بارے میں پوچھتے ہیں اور اگر درکار ہو تو دیتے بھی ہیں۔

یوکرین کے لوگ ظاہر ہے ہمسایہ ملک کی فوج کو خوش آمدید نہیں کہیں گے۔ مظاہرہ بھی کریں گے اور مزاحمت بھی مگر روس کی فوج کی ان سے کوئی لڑائی نہیں۔ روسی اور یوکرینیوں کی آپسی رشتہ داریاں ہیں چنانچہ روس اپنی خصوصی فوجی کارروائی کے مقصد کو پورا کرتے ہوئے انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کی خاطر کارروائی کو مدھم کیے ہوئے ہے۔

مگر یہ آگ بھڑکنی ہے۔ جب یوکرین نے بیس ہزار غیر ملکی جنگجووں کو بلانے کا دعوی کیا تو روس نے بھی مشرق وسطی غالباً شام سے سولہ ہزار جنگجو رضاکاروں کی پیشکش کا ذکر کر دیا۔

مغرب اگر چاہتا ہے کہ یوکرین پراکسی وار کا میدان بنے تو بنا لے مگر اس سے اس کا اپنا دامن جلے گا۔ سچی بات ہے کہ فی الحال یہ ناقابل فہم ہے کہ مغرب یوکرین کو بھڑکتا ہوا خطہ بنانے کی راہ پہ کیوں چل رہا ہے۔

فی الحال تو امریکہ اور یورپ نے روس کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے کو پابندیاں عائد کی ہیں لیکن جب روس جوابی پابندیاں لگائے گا تو خود مغرب کو کس قدر گزند پہنچے گا اس کا اندازہ کیا جانا مشکل ہے۔

جیسا کہ کل روس کے وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ چونکہ روس پابندیوں کے سبب اپنے خزانے کے 640 ارب ڈالروں میں سے 300 ارب ڈالر استعمال نہیں کر سکتا چنانچہ وہ غیر دوست ملکوں کو ادائیگیاں روبلوں میں کرے گا چنانچہ وہ ساری کمپنیاں جنہوں نے روس سے منہ موڑا ہے روس کے بے قدر کیے گئے روبل لے کر جھنجھنا بجائیں۔

عقل مندی یہی ہے کہ امن مذاکرات کیے جائیں۔ یوکرین کو غیر جانبدار خطہ قرار دیا جائے۔ روس کی معیشت بحال کی جائے جس سے وہ یوکرین کے عوام کو جنگ سے متاثر ہونے کا معاوضہ دے سکنے کے قابل ہو۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ جنگ جو ابھی پوری طرح شروع نہیں ہوئی پتہ نہیں کس کس کو کس کس طرح متاثر کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments