یہ ایک تکفیر ضروری نہیں، واجب ہے


تکفیر ایک لفظ جس کی تائید و تردید میں ایک طرف لوگوں نے صفحے سیاہ کیے تو دوسری طرف برسر ممبر بیان پر بیان اور فتووں پر فتوے داغے گئے۔ الفاظ اپنے وجود میں اچھے یا برے نہیں ہوتے بلکہ ان کا استعمال ان کی اچھائی اور برائی کو طے کرتا ہے۔ کسی نے خوب کہا تھا کہ انسان 5 سال کی عمر تک بات کرنا سیکھ جاتا ہے پر کون سی بات کہاں کرنی ہے اور کون سا لفظ کہاں اور کیسے استعمال کرنا ہے یہ سیکھنے میں پوری عمر نکل جاتی ہے۔

تکفیر دوسروں کی کی جائے تو جرم کہلاتی ہے۔ پر یہی تکفیر اگر اپنی ذات میں پنہاں کج اندیشیوں کی کی جائے تو عین فریضہ اور عمل واجب ہے۔ مالک کائنات نے جب اپنی ہیبت و جلال کا ذکر آیت الکرسی میں کر دیا تو اس سے اگلی سطر میں انسان کی جبلی آزادی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دین میں جبر نہیں کیوں کہ خالق حکم نے ہر اچھائی کو برائی سے واضح الگ کر دیا ہے، اور لوگوں کے ایمان قبولنے کی شرط یہ رکھی ہے کہ پہلے طاغوت سے کفر اختیار کرو پھر اللہ پر ایمان لاؤ تو ہی اللہ کی اس رسی سے متمسک ہو پاؤ گے جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں۔

اس آیت کا ذکر یہاں اس لیے اہم سمجھا تاکہ اس امر کو باور کیا جا سکے کہ اللہ بھی بذات خالق حکم انسانوں سے پہلے طاغوت کی تکفیر کا تقاضا کرتا ہے اور اسے ایمان کے مقبول ہونے کی شرط کرار دیتا ہے۔ ”طاغوت“ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی ہیں، بت، جادو، جادوگر، گمراہوں کا سردار، سرکش، دیو اور کاہن۔ قرآن کریم میں یہ لفظ 8 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ شرعی اصطلاح میں طاغوت سے مراد خاص طور پر وہ شخص ہے، جو ارتکاب جرائم میں ناجائز امور میں اپنے گروہ کا سرغنہ یا سربراہ ہو۔

کسی گروہ کا سرغنہ ہونے کے لئے ایک سرغنہ کا اس گروہ کے امور میں باقی ماندہ ارکان سے زیادہ ہنر مند ہونا ضروری ہوتا ہے، چہ جائے کے گروہ کے امور ہی جرم کا ارتکاب ہوں۔ طاغوت کے لفظی معنی بھی ایسے بت کدے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا سحر انسان کو پہلے سرکش و گمراہ اور پھر اپنے جیسوں کا سردار و کاہن بنا دیتا ہے۔ اور کون نہیں جانتا کے سرداری اکثر لوگوں کے دماغ خراب کر دیتی ہے۔

اور وہی سردار جب کاہن بھی ٹھہرے تو سمجھو گمراہی روحانیت کی منزل کو جا پہنچتی ہے کہ جس سے اگر تکفیر نہ کی جائے تو روحانیت کا یہ سرکش و گمراہ چہرہ اپنے سوا ہر ایک کو کفر کے دائرے میں لا کھڑا کر دیتا ہے۔ جو انتشار کا باعث بنتا ہے۔ اور انتشار ہی وہ واحد معاشرتی کیفیت رہ جاتی ہے جو اس سرکشی کی سرداری کو بنائے رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس لئے یہ تکفیر ضروری نہیں واجب ہے، ہر اس طاغوت کی جو معاشرے میں پنپتے ہوئے انتشار کا معمار ہے۔ بس ضرورت ہے تو اس کو پہچاننے کی اور اس کی جائے سکونت کو ڈھونڈ نکالنے کی۔

طاغوت سے متعلق احکم الحاکمین کے حکم کی تشریح یہی ہے کہ وہ سرکشوں کے سردار ہیں جن کا سرپرست اعلیٰ ابلیس ہے۔ اگر انسان اپنی ذات کی قضاوت کرے تو اس کی چشم شعور اس حقیقت کی خود شاہد ہو جائے گی کہ سرکشی کی پہلی سکونت تو اس کا اپنا وجود ہے۔ مولا علی ؑ نے کہا تھا ہر انسان کے اندر ایک قاضی بیٹھا ہے جو اس کو اچھے برے کی تمیز دیتا ہے۔ جس کو صاحبان شریعت و طریقت نفس لوامہ اور اہل سخن ضمیر کہتے ہیں۔

نفس لوامہ یا ضمیر، انسان کہ وجود میں اپنی سکونت یہ دیکھ کر نہیں کرتا اس کا نظریہ، سوچ، مذہب یا عقیدہ کیا ہے، بلکہ یہ وہ ریڈار سسٹم یا کہہ لیجیے کہ ایسا سنسر ہے جو اپنی مخلوق میں خالق نے اس لئے رکھا ہے تاکہ یہ اس کی غلط کاریوں کے لئے اس کی مسلسل ملامت کرتا رہے پھر چاہے وہ موحد ہو یا ملحد۔ اب یہ اور بات کہ انسان جب سرکشی پر اتر آئے تو خود کی بھی نہیں سنتا۔

سرکشی کی سرداری جب کاہنوں کے ہاتھ آ جائے تو زیادہ خطرناک ہوجاتی ہے۔ پھر وہ جو مصلح ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں (کہ جن کو اللہ نے فسادی کہا ہے ) اور ان میں کئیوں کی تو پیشانیاں بھی نقش محراب کی سند لئے پھرتی ہیں، پر انہی کی زبانیں اللہ کی زمین پر انتشار کا باعث بنتی ہیں۔ اور کیوں نہ بنیں کہ کاہن کا تو کام ہی یہ ہے کہ سرکشی و گمراہی کو روحانیت کی چادر اوڑھا دے اور تجسس و سوال کا دروازہ بند کردے تاکہ اپنے پیرو کاروں کو نجات دائمی کے ساتھ باغ عدن کی بشارت بھی دے سکے۔

نتیجہ یہ کہ اب جو کاہن چاہے گا وہی حق ٹھہرے گا پھر چاہے ضمیر اس کی کتنی ہی ملامت کیوں نہ کرتا رہے۔ اور پھر معبدوں میں نام تو خدا کا چلے گا پر حکم کاہن معبد کا اب بھلے ہی نفس لوامہ ملامت کرے پر کرنا وہی ہے جو کاہن اعظم کا حکم ہو۔ اور جہاں سے مذہب کا گزر نہ ہو، وہاں بندے کا اپنا وجود معبد اور وہ خود کاہن بن کے اپنی سرکشی سے روحانی فیض لینے کی سعی میں جٹا رہتا ہے۔ اس کی ایک صورت آج کل یہ ہے کہ موحد ہوں یا ملحد دونوں ہی اپنی نظریاتی تاویلات کے مخالفین کی تکفیر میں دل و جان سے جٹے رہتے ہیں۔ پر اپنی ذات کی کجی کی کبھی تکفیر نہیں کرتے۔

یہ وہ سب امور ہیں جن سے اہل سخن بخوبی واقف ہیں پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ اور ان کی اس خاموشی کا کاہنان وقت بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انتشار کی روحانی تاویلات معروف ہوتی جا رہی ہیں جس سے متاثر ہجوم گروہ در گروہ معاشرے کا امن تباہ کر رہے ہی۔ جبکہ امن و اتفاق کی ترکیب کو بزدلی و بے غیرتی سے تشبیہ دی جا رہی ہے اور انسانیت کا چہرہ مسلسل لہولہان کیا جا رہا ہے۔ ہے۔ پھر بھی اہل سخن چپ ہیں اور ہمارے دانش کدوں پہ ہو کا عالم چھایا ہوا ہے۔

میں یہاں اپنی بات کی تائید میں سلمان حیدر کی نظم ”میں بھی کا فر توبھی کافر“ تو نہیں دہرانے والا پر اتنا ضرور کہوں گا کہ جتنی شدت سے کاہنان انتشار اپنی افکار کے مخالفین کی تکفیر کر رہے ہیں۔ اس سے آدھی شدت کے ساتھ اگر ان کی پر استدلال تکفیر کی جائے۔ اور معاشرے میں پنپتے انتشار سے مقابلہ کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنے اندر کے طاغوت سے کفر اختیار کیا جائے تو یقیناً یہ معاشرہ بذات خود وہ جنت بن جائے گا جس کا جیتے جی آنکھوں سے مشاہدہ ممکن ہو گا۔

یقین جانیئے کہ پھر ہی ہم اس جنت کے بھی حقدار ٹھہریں گے کہ جس کی بشارت خود خالق بہشت نے دی ہے۔ اس لئے میں اس تکفیر کو محض ضروری نہیں بلکہ واجب سمجھتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments