اچھی عورتیں نہیں


غزالہ اپنی سوچوں میں گم بیٹھی اپنی مرحومہ پھوپھی زاد بہن کے بارے میں سوچ رہی تھی جس کی کم عمری میں ایک ایسے شخص سے شادی ہوئی تھی جو نہ صرف عمر میں اس سے 15 سال بڑا اور ان پڑھ تھا جبکہ اس کی بہن سلما کانونٹ سے پڑھی تھی اور اس کا بچپن میں ہی اس کے بھائی سے ساتھ رشتہ طے تھا لیکن بدقسمتی سے جڑ نہ پایا۔ اس کی پھوپھی جو کہ بیوہ اور 6 بچیوں کی ماں تھی، نے جلدی سے سلما کی شادی نور سے کردی کیونکہ وہ جہیز کے بغیر بیاہنے کو تیار تھا۔

سلما اور نور کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ نور ہر وقت سلما کو اس کے کزن کا طعنہ دیتا اور بات بات پر شک کا اظہار کرتا۔ اوپر تلے پانچ بچوں کی پیدائش، مار پیٹ، آنے جانے پر پابندی اور بلاوجہ شک نے سلما کو دل کی مریض بنا دیا اور آخرکار ایک رات دل کا دورہ پڑنے سے جہان فانی سے رخصت ہو گئی۔ اس کے انتقال کے چند ماہ بعد ہی نور نے دوسری اور پھر دوسری کو تین ماہ کے بعد طلاق دے کر تیسری شادی کرلی جو کہ دو شوہروں کو چھوڑ کر آئی تھی لہذا اس نے آنے سے قبل ہی اپنی شرائط منوا لی مثلاً اس کے آنے جانے اور کسی سے بھی ملنے پر پابندی نہیں ہوگی، ہر ہفتے پارلر جائے گی، ماہانہ ساٹھ ہزار خرچہ لے گی مگر کہاں خرچ کرے گی کوئی نہیں پوچھے گا وغیرہ وغیرہ۔ اب وہی نور جو نہایت مذہبی، دعا گو، بیوی کو باپردہ اور پابندیوں میں رکھتا تھا۔ ہر بات کو بالائے طاق رکھ کر دن رات بیوی کی خوشامد کرتا، اس کی ہر بات پر آمین اور یہ کہتا نظر آتا کہ اس کی پہلی بیوی کو تو عقل ہی نہیں تھی۔ سمجھدار بیوی تو اسے اب ملی ہے۔

28 سال کی عطیہ تین بیٹیوں کی ماں اور چوتھے بچے کی آمد کی منتظر گھروں میں کام کر کے اپنے بچوں کو پالتی ہے جبکہ اس کا شوہر نشے میں دھت سارا دن یا تو گھر میں پڑا رہتا ہے یا پھر بیوی کو مار پیٹ کر اس کی کمائی چھین لیتا اور بدلے میں اسے آوارہ ہونے کا طعنہ بھی دیتا ہے اور لوگوں میں اس کے کردار پر کیچڑ اچھالتا یا جن گھروں میں وہ کام کرتی ہے وہاں سے ایڈوانس پیسے ہتھیانے کی ہر سعی کوشش کرتا رہتا ہے۔

آمنہ 55 سال کی ادھیڑ عمر کی عورت اپنی بیٹی کے مرنے کے بعد اس کے چار چھوٹے چھوٹے بچوں کو پالنے کی خاطر کانپتے ہاتھوں سے گھروں میں برتن دھونے پر مجبور ہے کیونکہ بیٹی کے سسرال والے بچوں کو پالنے سے صرف اس لیے انکاری ہیں کیونکہ آمنہ کی بیٹی نے مرضی کی شادی کی تھی جسے اس کے سسرال والوں نے کبھی قبول ہی نہیں کیا۔

تہمینہ ایک غیر سرکاری ادارے میں کام کرتی ہے اس کے دو بچے ہیں وہ سارا دن دفتر میں کام کرنے کے بعد گھر جا کر اپنے بچوں اور ساس سسر کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ وہ صبح 5 بجے اٹھتی اور رات 2 بجے تمام کاموں کو سمیٹ کر سوتی ہے تاکہ کسی بھی قسم کی شکایت کا موقع نہ دے مگر پھر بھی اس کا شوہر اور سسرال بات بات پر اسے یہ جتاتے ہیں کہ وہ نوکری کر کے کوئی پہاڑ نہیں توڑتی جو تھکنے کی شکایت کرتی ہے بلکہ گھر داری اس کا پہلا فرض ہے جبکہ نوکری تو وہ شوق سے کرتی ہے نہ کہ گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹانے کو۔

کوئی بھی اس بات کو جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتا کہ وہ کیسے ماحول میں کام کرتی ہے اور اسے وہاں کسی قسم کی ہراسانی کا سامنا تو نہیں۔ جبکہ تہمینہ جو کہ ہر روز گھر سے نکلنے سے لے کر شام گھر آنے تک مختلف اقسام کے مسائل کا سامنا کرتی، یہ باتیں گھر والوں کو بیان نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا الزام بھی اس کے لباس اور میک اپ سے جوڑ دیا جائے گا۔

مائی بختاں کے دس بچے ہیں جو اپنے اپنے گھر کے ہونے کے بعد اس کا اور اس کے معذور شوہر کا خیال نہیں رکھتے۔ مجبوراً اس نے رکشہ چلانا شروع کر دیا جو پہلے اس کا شوہر چلا کر گھر کا نظام چلاتا تھا۔ لیکن اس کے بچوں کو یہ گوارا نہیں کیونکہ اس سے معاشرے میں ان کی ناک کٹتی ہے کہ دس بچے اپنے ماں باپ خیال نہیں رکھ سکتے مگر معاشرہ کو نہیں نظر آتا کہ یہ والدین ان دس بچوں کے لیے بوجھ ہیں۔

رحیماں تین بیٹوں کی ماں ایک گھریلو خاتون ہے جس کی 16 سال کی عمر میں شادی ہو گئی تھی جس کا شوہر نکھٹو ہے لیکن اسے باہر کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ اس پر اعتبار کرتا ہے۔ البتہ ہر رات وہ اسے تسکین فراہم کرے خواہ اس کا دل چاہے یا نہ چاہے۔ مذمت کا اظہار کرنے پر اس کے کردار پر شک کیا جاتا ہے لیکن جب وہ کسی رشتہ دار سے قرض مانگنے جائے تو اس کا شوہر اسے ڈھال بنا کر لوگوں سے قرض کے نام پر پیسے بٹور لے تب نہ تو اس کے غیر مردوں کے ساتھ مسکرا مسکرا کار بات کرنے پر اس پر شک کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے کردار پر شک کا اظہار ہوتا ہے۔

ایسی کئی کہانیاں ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں جن کے کردار حقیقت میں ہر روز اپنے گھر اور باہر کی جنگ لڑ رہیں ہیں لیکن ان کی تمام کاوشوں کا صلہ انہیں بس ایک لفظ میں ملتا ہے کہ ”یہ اچھی عورت نہیں“ ۔

صغراں تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے جس نے اپنی محنت سے اعلی تعلیم حاصل کی جبکہ اس کے بھائی میٹرک سے آگے نہیں گئے۔ اس نے تمام گھر کا بوجھ 18 سال کی عمر میں ہی اٹھا لیا تھا ور ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی جاری رکھی۔ آج وہ 45 سال کی ہونے کو ہے لیکن اپنے گھر کی واحد فرد ہونے کی وجہ سے اس کی شادی نہیں ہو سکی اور نہ ہی کسی نے اس بارے میں کبھی سوچا سوائے اس کی ماں کہ جو دس برس پہلے اس دنیا سے رخصت ہو چکی جبکہ اس کے بھائی اپنی اپنی زندگی میں اتنے مگن ہیں کہ انہیں صغراں کی تنہائی نظر ہی نہیں۔ اب وہ اپنے بھائیوں کے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کر رہی ہے۔

حقیقت میں یہ اچھی عورتیں نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے ہر طرح کے ظلم پر خاموشی اختیار کی جبکہ انہیں چاہیے تھا اپنے گھر والوں کے کرتوت معاشرے کے سامنے لاتیں۔

یہ اچھی عورتیں نہیں کیونکہ یہ گھر کے ساتھ ساتھ باہر کی ذمہ داریاں بھی سنبھالتی ہیں تاکہ اپنے بچوں اور پیاروں کو بہتر مستقبل دے سکیں۔

یہ اچھی عورتیں نہیں کیونکہ یہ اپنے شوہروں کا کسی بھی صورتحال میں ساتھ نبھاتی ہیں چاہے اس کے لیے گھروں، دفتر یا فیکٹری میں کام کرنا پڑھے یا رکشہ چلانا پڑے یا پھر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے۔

یہ اچھی عورتیں نہیں کیونکہ بیوی کی شکل میں شکایت نہیں کرتیں، ماں کی صورت میں اپنی اولاد کو بددعا نہیں دیتی، بہن کی صورت میں اپنا حق نہیں مانگتی، گھریلو تشدد پر پردے ڈالتی اور ماں باپ کی عزت کا خیال کر کے لوگوں کو تماشا نہیں دکھاتیں۔

نوٹ (مندرجہ بالا مضمون میں تمام کرداروں کے نام فرضی تحریر ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).