فلم دی لائیوز آف ادرز پر ریویو


The Lives Of Others 2006

یہ میرے لڑکپن کے آخری دنوں کی بات ہے سیاست کا جنون اور اوپر سے شدید انقلاب لاحق تھا۔ بدقسمتی سے کوئی انقلابی جماعت تو دستیاب نہ تھی سو ایک تقریباً سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔

بس اہل اقتدار کو للکارنا بھی کوئی ایسا ڈھنگ کا کام نہیں بس ایک نشہ ہے اور نشہ کون ضروریات زندگی سمجھ کے کرتا ہے۔ بس ایک سرور سا ہی تو ہوتا۔ اور اقتدار بھی ایسا کہ ریاست ساری اس فرد کے پیچھے کھڑی ہو۔ بہرحال ہمیں بھی یہ نشہ چڑھا اور سر چڑھ کے بولا تھا۔

پنجاب میں چودھری پرویز الہی حکمران ہوا کرتے تھے اور ہمارا ان سے سیدھا سیدھا پھڈا۔ سردیوں کی ایک کہر آلود صبح ہم نے احتجاج کی کال دے رکھی تھی۔ اور یار لوگوں نے پولیس بھیج رکھی تھی تصادم ہفتہ وارانہ معمول تھا سو ڈی ایس پی اور ایس پی سے ایک رشتہ سا قائم ہو گیا۔ پولیس آفیسر سے آنکھ آنکھ میں طے پا گیا کہ تھوڑی دیر ہمیں لیڈری کرنے دینا بعد میں پھینٹی پھینٹی کھیل لیں گے۔

وقت وقت کی بات ہے لاہور پریس کلب کے سامنے ایک منحنی سا جوان یعنی بقلم خود میں تقریر کر رہا تھا اور جب جذبات کو اپنی پوری کوشش سے جس شدید درجہ حرارت تک لے جا سکتا تھا لے گیا تو مجمع کے جذبات جاننے کی ٹھانی۔ ایک بھرپور نعرہ بلند لگوایا فضا جوابی فلک شگاف نعرے سے گونج اٹھی۔ جس قوت سے جواب ملا تھا قدرتی طور پر نگاہ انسانی دیوار بنائے پولیس اہلکاروں کی جانب اٹھی تو میں نے زندگی کا حیران کن ترین منظر دیکھا۔ میرے نعرے کے جواب میں اسی پولیس پارٹی کا سربراہ اور چند پولیس اہلکار بھی اسی شدت سے نعروں کا جواب دے رہے تھے۔

ریاستیں اپنے اہلکاروں کو ریاست چلانے کے لیے جدید سے جدید آلات دیتی ہیں لیکن گوشت پوست کے انسان کے دل کو جانچنے اور قابو میں رکھنے کا آلہ تو آج تک ایجاد نہیں ہوا یہ فلم بھی ایسی ہی ایک کشمکش کی داستان ہے۔ ایک انقلابی لکھاری ایک فنکارہ کے دل میں کون سا حساس دریچہ کہاں سے وا ہوتا ہے الفاظ کس کی آنکھوں کو پر نم کر سکتے ہیں کوئی نہیں جانتا۔ وقت اپنا راستہ کسی متعین پگڈنڈی پر نہیں بناتا بس یہ خود ہی زمانہ سازی کر جاتا ہے۔ گرنے لگے تو دل کیا چیز ہے برلن کی دیوار گر جائے۔ اس فلم کی کہانی بھی جذبات کی انسانی دل پر راج کی داستان ہے۔ یہ فلم دعوت فکر ہے کہ جھوٹ کی ریت سے جو عارضی پشتے باندھے جائیں وہ بغاوت کے سیلاب میں معاون بھی بن جایا کرتے ہیں۔

پس تحریر: میں نے عرصہ ہوا انقلابی نظریات سے توبہ کر لی ہے اور سائیڈ پر بیٹھ کر دہی کھاتا رہتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments