حکمرانوں کی گھبراہٹ اور خارجہ معاملات کی نزاکت


بڑے منصب پر چھوٹے لوگوں کی موجودگی ناصرف کے منصب کے وقار کو مجروح کرتی ہے بلکہ جب ان کی کرسی کمزور پڑنے لگتی ہے تو اس وقت وہ اپنے مفاد کے لیے ہر شے کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے ہے۔ اس وقت وطن عزیز کو بھی اسی نوعیت کا معاملہ درپیش ہے۔ بگڑتی معیشت نے یہ واضح کر دیا تھا کہ حکومت کی اپنی صفوں میں بھی انتشار پھیل جائے گا اور اسی پنپتی صورت حال کو بھانپتے ہوئے اپنی اقتدار سے رخصتی کو بین الاقوامی سازش قرار دیا جانے لگا ہے تاکہ کسی طرح اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالا جا سکے۔

معاشی ناکامیوں کے ساتھ سفارتی محاذ پر بھی بے بسی ایک تلخ حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ چین اور روس کے دوروں کو ایسے پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے موجودہ سیاسی عدم استحکام اس بنا پر ہو رہا ہے۔ حالانکہ جب سی پیک پر دستخط کی غرض سے چینی صدر پاکستان تشریف لا رہے تھے تو اسلام آباد میں دھرنے کا ڈرامہ اسٹیج کیا گیا تھا اور پاکستانی عوام کے دلوں میں شک کے کانٹے پیوست کرنے کی غرض سے موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید اس وقت ٹی وی چینل پر بیٹھ کر یہ بتانے میں مصروف تھے کہ سی پیک سے اتنے قرضے چڑھ جائیں گے جو اتارے نہیں جا سکے گیں اس لیے یہ منصوبہ درست نہیں ہے۔

جب دو ہزار اٹھارہ میں سیلیکشن ہو گئی تو اس وقت حکومتی پالیسی کے طور پر سی پیک کے خلاف ایک ذہن سازی شروع کر دی گئی سی پیک کو قابل اعتراض منصوبہ بنانے کی مہم کا آغاز کر دیا گیا۔ مشیر رزاق داؤد نے اس حوالے سے اس منصوبے کو منجمد کرنے کی تبلیغ شروع کر دیں کرپشن کرپشن کے نعروں کی آڑ میں ہر چیز کو گدلا کرنے کا منصوبہ پروان چڑھنے لگا اور اسی سبب سے سی پیک کے پالیسی ساز ادارے جے سی سی کا ایک عرصے تک اجلاس منعقد نہیں کیا گیا بلکہ فیز ون کے سب سے بڑے منصوبے ایم ایل ون کو آج تک بھی صرف فائلوں تک محدود رکھا گیا ہے۔

اسی دوران ٹرمپ سے ملاقات، اور تعریف کرنا اسے پیش کیا جا رہا تھا کہ جیسے کشمیر فتح کر لیا گیا ہو حالانکہ اس وقت امریکی اپنے معاملات کو افغانستان میں حتمی شکل دے رہا تھا۔ ان کو بھلا ڈrون حملے کی کیا ضرورت رہ گئی تھی۔ امریکی فوجی انخلاء ان کے سامنے درپیش تھا اور امریکہ کو کوئی نقصان نہ پہنچنے دینے کی سہولت وہ پاکستان سے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ملاقات اور تعریفوں کے عیوض انہوں نے عمران خان سے یہ سب حاصل کر لیا۔

بہت سستے چھوٹے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی سے لے کر ایف اے ٹی ایف کے معاملات حل کرانے تک کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکا۔ افغان طالبان اور امریکہ کا معاہدہ ہو گیا اور ہم صرف سرحد پار دہشت گردی کا رونا رونے کے لئے رہ گئے۔ روس کا دورہ اس وقت کرنے سے جو چاہے تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے آصف زرداری اپنے عرصہ صدارت میں جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے تو اپریل 1999 میں بھی روس کا دورہ کیا تھا یہ 25 سال بعد کسی پاکستانی وزیراعظم کا دورہ روس تھا۔

اور جب وہ تیسری بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو پھر دوبارہ روس گئے اور اس دورے میں سابقہ سوویت یونین کے دور میں موجود کچھ تجارتی رکاوٹوں کو ہٹانے پر مذاکرات شروع ہوئے جو شاہد خاقان عباسی کے دور میں باقاعدہ حتمی شکل اختیار کر گئے۔ 2014 میں روسی وزیر دفاع نے 45 سال بعد پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان سے دفاعی معاہدہ کیا اور دفاعی سامان کی پاکستان کو فروخت کی پابندیاں ختم کی گئی۔ 2015 میں پاکستانی اور روسی افواج نے روس میں وار گیمز میں حصہ لیا جبکہ دو ہزار سولہ میں فرینڈشپ ایکسرسائز دونوں ممالک کی افواج کے درمیان میں ہوئی جس کو بھارت نے سرکاری طور پر روکنے کی کوشش کی مگر روس نے انکار کر دیا۔

2015 میں ہی روس کے ساتھ چار ایم آئی 35 ہیلی کاپٹرز کی خریداری کا بھی معاہدہ کیا گیا۔ مگر اب دورہ روس کو ایسے پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے اس سے قبل ہمارے تعلقات آپس میں منجمد تھے اور دنیا اس لئے ”خلاف“ ہو گئی ہے۔ یورپی یونین کے سفیروں نے یوکرین کے مسئلے پر پاکستان کو خط لکھ دیا بہت پریشانی کی بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ گزشتہ 75 برسوں میں ان کو ایسی جرات کیوں نہیں ہوئی اور اب کیوں ہو گئی۔ سفارتی محاذ پر پسپائی کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہو گی۔

یہ کوئی ماضی بعید کا قصہ نہیں جب آصف زرداری دور میں شام کے مسئلے پر پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی قونصل کا غیر مستقل رکن ہوتے ہوئے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اب تو بات صرف جنرل اسمبلی کی ہے حالاں کہ امریکہ اور مغربی دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے برادر ممالک سعودی عرب اور ترکی بھی چاہتے تھے کہ ہم شام کے خلاف ووٹ دیں۔ شام جنگ پر وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے طاقت سے حکومتوں کی تبدیلی کی مذمت کی، یمن جنگ میں فوج بھیجنے سے صاف انکار کر دیا، ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کو ممکن بنایا گیا مگر اس سب کے باوجود کسی کو خط لکھنے کی جرات نہ ہوئی مگر آج ہو گئی افسوس صد افسوس۔

ان سب مثالوں کے ساتھ ساتھ انگنت اور مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر اب جب کرسی ہلنے لگی تو ملک کی خارجہ پالیسی اس کی اہمیت کو مزید داؤ پر لگانے کے لئے ہر حربہ استعمال جا رہا ہے۔ عوامی جلسوں میں ان معاملات کو ایسے پیش کیا جا رہا ہے کہ بس ان معاملات کو بھی بد زبانی سے ہی حل کیا جائے چاہے ملک کو جتنا مرضی نقصان پہنچ جائے۔ بات وہ ہی ہے کہ جب چھوٹے لوگ چھوٹے لوگوں کے ”فیض“ سے مناصب پر پہنچ جاتے ہیں تو وہ منصب کی توہین سے لے کر اپنے لانے والوں سب کے لئے درد سر بن جاتے ہیں کہ ان سے اپنے بچاؤ میں کچھ بھی سرزد ہو سکتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments