کیا آپ کا شوہر/بوائے فرینڈ بے وفا ہے؟


صبح نو بجے ہی ثوبیہ کے نمبر سے آنے والی کال کو دیکھ کر مجھے اچانک گھبراہٹ ہونے لگ گئی کہ اس لڑکی نے کچھ کر تو نہیں دیا۔ ڈرتے ڈرتے کال پک کی تو بس ہچکیوں کی آواز آ رہی تھی۔ دو تین بار پوچھنے پہ صرف اتنا بتا سکی کہ وہ آج بھی جاگی تو زندہ تھی۔ جب کہ روز یہ خواہش لے کر سوتی تھی کہ صبح مردہ حالت میں پائی جائے گی۔ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ ثوبیہ میرے پاس آ رہی تھی اس کے فرینڈ نے اس سے شادی کا عہد کیا تھا مگر اب وہ ”امی کو منانے“ میں ناکام ہو رہا تھا۔

اور میں اسے یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر وہ بے وفا نکلا ہے اور اپنے والدین کو ان کے گھر نہیں بھیج رہا تو کوئی بات نہیں، اس کے اپنے والدین کے پاس دو تین اچھے متبادل موجود ہیں کہیں بھی ہاں کر دے۔ اسے متبادل کی فکر سے زیادہ جو قلق تھا وہ بے وفائی کا تھا۔ عدم قبولیت یا ریجیکشن کا صدمہ تھا جو کھائے جا رہا تھا۔

شادی سے پہلے ہی بے وفائی کا شکار ہونے والی خواتین کے پاس متبادل کی سہولت موجود ہوتی ہے مگر شادی ہو جانے کے بعد یہ سہولت تقریباً ختم ہی ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے جعلی پیروں کا دھندا چلانے والی خواتین کی بہت بڑی تعداد شوہروں کو مطیع کرنے کے تعویذ لینے والی ہوتی ہے۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ شوہروں کو قابو کرنے کے اشتہار اخبارات و جرائد میں چھپتے ہیں اور دیواروں پہ بھی آویزاں نظر آتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی بھی کچھ نہیں کرتا۔

یہ تصور اب ایک عمومی قبولیت رکھتا ہے کہ مرد بے وفا ہوتے ہیں۔ وفا وہ ٹکہ ہے جو صدیوں سے عورت ہی کی پیشانی پہ سجا ہوا ہے۔ یہ تصور کسی حد تک درست بھی ہو گا کیوں کہ دنیا میں مثالیں تو بہر حال ہر طرح کی مل ہی جاتی ہیں۔ اس تصور کی قبولیت کی وجہ سے خواتین کی ذہن سازی ہو چکی ہے۔ اس ذہن سازی کے نتیجے میں خواتین کے ہاتھ سوائے رونے کے کچھ نہیں آتا۔

دراصل مردوں نے ہمیشہ عورت پہ لکھا۔ عورت کو ایک پہیلی بنائے رکھا۔ اسے پیچیدہ اور ناقابل فہم گھنڈی بنا کر کتب لکھتے رہے۔ اور ذہنی آسودگی حاصل کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا مرد بطور جنس نظر انداز ہوئے۔ نہ صرف یہ کہ نظر انداز ہوئے بلکہ بے وفا، ٹھرکی اور ہوس کے پجاری جیسے القاب بھی کمائے۔ حالاں کہ معاملے کا ایک دوسرا رخ بھی تھا جس پہ زیادہ بات نہ ہو سکی۔ وہ یہ تھا کہ مرد مختلف طریقے سے محبت کرتے ہیں۔

قرت العین حیدر اپنے شہرہ آفاق ناول آگ کا دریا میں لکھتی ہیں کہ مردوں کی دنیائیں الگ ہوتی ہیں۔ عہدے، ترقیاں، کاروبار، پیسہ اور پاور پلے اور پھر اس سب کے ساتھ ساتھ محبت۔

مردوں کی دنیاؤں کا کھوج نہیں لگایا گیا۔ ان کی دنیا عورتوں کی دنیا سے مختلف ہوتی ہے۔ مردوں کی دنیا افق کی وسعت کی طرح بے پایاں ہے۔ جبکہ عورت کی دنیا محفوظ مگر محدود چار دیواری میں بنے گھونسلے کی مانند ہے۔ مختلف دنیاؤں پہ ایک ہی طرح کا معیار وفا لاگو نہیں کیا جا سکتا۔

دنیا کے جن معاشروں میں مردو زن کی دنیائیں تقریباً ایک جیسی ہوتی ہیں وہاں وفا کے طعنے کے نشانے بھی دونوں جانب لگتے ہیں۔

عورتیں گھروں میں بہت سے حقوق حاصل نہیں کر پاتیں مگر یہ ایک بالکل دوسرا موضوع ہے۔ مردوں کی وفا ایک الگ موضوع ہے جس پہ خواتین کی ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ چھوٹی چھوٹی بات پہ سٹریس لے کر اپنی اور پارٹنر کی زندگی اجیرن نہ بنائیں۔

اگر آپ کا بوائے فرینڈ آپ کا خیال رکھتا ہے۔ آپ کی صحت، آپ کی خوشی، آپ کی ضرورت اور آپ کا انتخاب اسے عزیز ہیں تو خاطر جمع رکھیئے وہ وفادار ہے۔

اسی طرح اگر آپ کا شوہر آپ کی صحت، آپ کے انتخاب، آپ کے رشتہ دار اور اور آپ کی ضروریات کو عزیز رکھتا ہے۔ تو وہ وفادار ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ وہ زندگی کی پلاننگ کرے۔ آپ انتظار نہ کیجیے بلکہ خود پلاننگ کیجیے وہ آپ کے ساتھ ہو گا۔

شوہر کے خاموش بیٹھنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ آپ کی رنگت کا موازنہ اپنی کسی محبوبہ کی رنگت سے کر رہا ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ بچے کی فیس یا آپ کے لیے کسی نئے سوٹ کا سوچ رہا ہو۔

مڈل کلاس کے مردوں کی زندگی میں دوسری عورت آ جائے تو شرمندگی میں بھاگ بھاگ کر بیوی کی خدمت کرتے ہیں تاکہ اسے شک نہ ہو۔

گھریلو خواتین کی نفسیات سے شوہر کو قابو کرنے جیسے اوہام کو ختم کرنے کے لیے پیرا ڈائم شفٹ کی ضرورت ہے۔ تھراپی کی ضرورت ہے۔ اگر چہ یہ ایک مسلسل نفسیاتی عمل ہے جو دو تین نسلوں تک جاری رہے تو ہی بہتری کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ مگر کہیں سے شروع تو ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments