نوجوان برائی کا رستہ کیوں اختیار کرتے ہیں


کبھی کبھار انسان کو اپنی ذات میں عجیب بے بسی دکھتی ہے۔ اس کی عزت نفس کو بھی مجروح کیا جا رہا ہوتا ہے اور اسے بولنے کا کوئی حق بھی نہیں ملتا۔ اگر وہ بولے تو تنہا ہوتا ہے اور کوئی ساتھ دیتا ہے تو بس زبانی شاباشی کی حد تک یا بے مقصد دلائل دے کر اسے چپ کرا دیا جاتا ہے۔

اس بے بسی کا شکار سب سے زیادہ ہماری نوجوان نسل ہے جسے کبھی نوکری کی لالچ میں گورنمنٹ اداروں تو کبھی بڑی بڑی کمپنیوں میں انٹرویوز اور اس جیسی کئی فارمیلیٹیز کے لئے بلا کر دکھایا جاتا ہے کہ کس طرح تعلقات کو اہلیت پر فوقیت دی جاتی ہے اور کبھی تعلیمی اداروں میں مختلف مقامات پر عہدوں کا رعب یا اور اتھارٹی دکھا کر ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے۔

اکثر لوگ یہ گلہ کرتے ہیں کہ آج کے نوجوان میں جذبہ، ہمت اور بہادری نہیں۔ نوجوان اپنی ذات اور خواہشات کی پیروی کے لئے بے راہروی اور برائی کا راستہ اختیار کر رہیں ہیں۔ لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو اس موضوع پر بات کرتے ہیں کہ نوجوان برائیوں کا ارتکاب کیوں کرتے ہیں۔ اس موضوع پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جن اداروں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ نوجوانوں کے اور ملک کے تابناک مستقبل کے علمبردار ہیں انہیں میں نوجوان محرومی، بے بسی اور نا انصافی کا شکار ہوتے ہیں، انہیں مقامات پر وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ کن کن طریقوں سے دوسروں کو دھوکہ دے کر ان کے جذبات روند کر اپنے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔

تعلیمی ادارے کسی بھی قوم کا بہترین اثاثہ ہیں لیکن بدقسمتی سے نوجوانوں خصوصاً پیشہ ورانہ (پروفیشنل) ڈگری حاصل کرنے والے طلباء اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے سے ڈر رہے ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو مہنگی تعلیم اور ادارتی مفاد کے لئے بنائے گئے قوانین ہیں۔ اگر کسی طالب علم کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہو تو وہ ڈگری اور گریڈ کے لئے چپ کر کے سب سہ لینے میں عافیت سمجھتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھانے پر اسے کسی بھی جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ فیل کر دینے سے لے کر ادارے سے نکال دینے تک ہو سکتا ہے۔

چونکہ ہمارے ہاں تعلیم اتنے مشکل اور مہنگی کر دی گئی ہے کہ اگر کسی طالبعلم کو کسی وجہ سے کسی ادارے سے نکلنا پڑ جائے تو اس کے لئے کسی دوسرے ادارے میں داخلہ لینا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر ایسے ماحول میں وہ طالب علم منفی ذرائع استعمال کر کے اپنے مقاصد کے اصول تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت سے عادت اور پھر عادت سے فطرت بن کر معاشرتی ناسور بن جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس جہاں میں جب انسان کو بھیجا تو فرمایا کہ انسان کو فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر دی گئی ہے یعنی عمومی طور پر ہر شخص قابل احترام اور لائق عزت ہے رشتے اور عہدے بعد کی تقسیم ہیں۔ بلاشبہ رشتوں اور عہدوں کا احترام ضروری ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز نہیں کہ ایک شخص جو رتبے کے لحاظ سے بڑا ہے بس عزت کا حقدار وہی ہے۔ ہر شخص عزت نفس کا مالک ہے اور سب انسان برابر عزت کے حقدار ہیں۔ عہدے یا رشتے کا دباؤ ڈال کر کسی نچلے طبقے یا کسی رشتے کی عزت نفس مجروح کرنا انسان کو انتقام اور برائی کے طرف مائل کرتی ہے۔ اگر معاشرتی برائیوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر وہ برائیاں جو معاشرتی ناسور بن چکی ہیں یا تو دوسروں کو دیکھ کر نئی نسل نے اختیار کی ہیں یا بدلے اور انتقام کی آگ کو بجھانے کے لئے اپنائی گئی ہیں۔

اگر مسائل اور ان کی وجوہات پر لکھا جائے تو ہر مسئلے پر کئی صفحوں پر مشتمل تحاریر لکھی جا سکتی ہیں لیکن لکھنے کا مقصد مسئلے کی تشہیر نہیں بلکہ اس سے نمٹنے کے لئے کیا لائحہ عمل اپنانا چاہیے۔ لہذا نوجوانوں یا نئی نسل کو برائی سے بچانے اور ملک کے مستقبل کو شاندار بنانے کے لئے بچوں اور بالخصوص نوجوانوں کو ایک ایسا ماحول فراہم کیا جائے جہاں دھوکہ دینے اور عہدوں کا رعب استعمال کرنے کے طریقہ کار کی بجائے عزت، حق اور انصاف کا عمل اپنایا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان اتنا جلدی پڑھنے یا سکھانے سے نہیں سیکھتا جتنا جلدی وہ چیزوں کو ہوتا ہوا دیکھ کر سیکھتا اور یاد رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments