سیاست کہاں جا رہی ہے؟ ذرا سوچئے


سیاست پیسے کا کھیل بن چکی ہے، میرے ایک دوست نے انگلینڈ سے آزاد کشمیر کے الیکشن میں حصہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا اور ان کی کچھ حکومتی ارکان سے ملاقاتیں ہوئیں تو ابتدا ایک کروڑ پارٹی فنڈ کے ساتھ ٹکٹ کے لئے اپلائی کرنے سے ہوئی۔

عرض یہ ہے کہ اے ایماندارو جو کہانی شروع ہی کم از کم ایک کروڑ سے ہوتی ہے پھر الیکشن پر خرچے۔ کئی کروڑ لگا کر آپ آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبر بن سکتے ہیں، بالکل اسی طرح جب ممبر قومی اسمبلی کی سیٹ پر خرچ ایک ارب آئے گا تو آپ نے تو اس کاروبار کی بنیاد ہی کرپشن پر رکھ دی ہے۔ تو پھر صادق اور امین کہاں سے آئیں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی کابینہ دیکھ لیں تقریباً وہی لوگ ہر کابینہ میں نظر آتے ہیں، پارٹی نام بدلتے رہتے ہیں پر لوگ وہی ہوتے ہیں۔ جب ایک شخص الیکشن میں ووٹ کے حساب سے ضروریات یا پیسے دے کر ووٹ حاصل کرتا ہے تو پھر اس کو بھی اپنا ووٹ بیچنے کا مکمل حق ہونا چاہیے۔ یا پھر سسٹم اتنا بہتر بنائیں کہ ووٹ کسی بھی سطح پر خریدنا یا بیچنا جرم ہو اور اس کی فوراً سزا ہو۔

اگر ممبران اسمبلی قانون سازی اور خدمت خلق کے لئے آتے ہیں تو پھر ان کو منتخب بھی اسی فارمولے کے تحت کرنا چاہیے۔ چوہدری نذیر مرحوم کوہستان بس سروس والے ہمارے گاؤں کے حلقے سے الیکشن لڑتے تھے الیکشن سے پہلے ہی علاقے کے تمام کام اپنے پیسوں سے شروع کروا دیتے تھے۔ اور کہتے تھے اگر میں الیکشن ہار گیا تو سب اکھاڑ کر لے جاؤں گا اور ایسے ہی کرتے تھے۔

آج ایک لطیفہ سرانجام ہوا، ریڈ زون میں واقع سندھ ہاؤس جہاں کچھ حکومتی ممبران قومی اسمبلی حکومت کے خلاف چلنے کے لئے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ کو ذلیل کرنے کے لئے حکومتی پارٹی کے ورکر پہنچ گئے۔ ریڈ زون میں عوام کا داخلہ تقریباً بند ہے، وہاں باآسانی اتنے لوگوں کا پہنچ جانا پھر توڑ پھوڑ کرنا یقیناً کسی کی تو آشیرباد تھی۔ پھر گرفتار لوگوں کا شخصی ضمانت پر رہا ہوجانا بھی کمال فعل ہے۔ پچھلی حکومتوں نے بھی سپریم کورٹ پر حملے کیے اور باعزت بری ہو گئے۔

فرق کیا ہے نئے اور پرانے پاکستان میں۔ عام آدمی ٹریفک کا اشارہ توڑے تو جرمانہ اور کچھ لوگ سندھ ہاؤس میں توڑ پھوڑ کریں تو عام معافی۔ تحریک انصاف کو کم از کم اپنے سٹینڈرڈ بہتر بنانے چاہئیں۔ مجھے تکلیف اس وقت ہوئی جب ان سب کی شخصی ضمانت کے لئے امریکہ کی یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے کو چھوڑ کر آنے والے میرے شہر فیصل آباد کے جٹ پتر تھانے گئے اور سب کو لے آئے۔ مجھے پروفیسر صاحب آپ سے ایسی امید نہیں تھی۔

آپ تو بہت با اصول انسان ہیں، مہذب ترین زبان استعمال کرنے کے لئے مشہور ہیں تو پھر یہ منجھی کسی اور کو ٹھوکنے دینی تھی۔ جو جو لوگ اپنے گھر چھوڑ کر آئے تھے تو ایک اور وکٹ گر گئی کا اعلان ہوتا تھا، اب جب وہ گھر لوٹ رہے ہیں تو دفع کریں میچ کھیلتے وقت دونوں ٹیموں کی وکٹ گرتی ہیں۔ حکومت کا سوشل میڈیا کانٹینٹ رائٹر بھی کمزور ہے اس کمپین میں۔ بار بار اتنی جماعتوں کے سامنے خان اکیلا کھڑا ہے، معذرت اتنی ساری جماعتوں کے سہارے ہی خان کھڑا ہے۔

جب کہا گیا کہ میں نہیں چھوڑوں گا تو لوگ چھوڑ گئے اب برداشت کریں۔ سب واپس جا رہے ہیں تو جانے دیں۔ جانے والے بھی کبھی رکا کرتے ہیں، نئے الیکشن کی تیاری کریں۔ آئندہ ٹیم سوچ سمجھ کر بنائیں۔

مجھے ہمیشہ سے ہی پارٹی بدلنے والوں سے نفرت رہی تب بھی جب یہ اپنی پارٹیاں چھوڑ کر حکومتی پارٹی میں آئے تھے اور آج بھی جب یہ حکومتی پارٹی کو چھوڑ کر واپس آنے والی حکومتی پارٹی میں جا رہے ہیں تو اس میں نیا یا برا کیا ہے۔

جن کی وزیراعظم صاحب نے ڈیوٹی لگائی ہے ماشاءاللہ وہ تمام بھی یہی ڈگری رکھتے ہیں۔ اور اگلی حکومت میں یہ چٹانیں بھی زمانے کی ٹھوکروں سے گول ہو کر شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہوں گے ۔ ان کا کردار بس ہر حکومت میں وزیر رہنا ہے۔

قرض دار قوم کبھی غیرت مند نہیں ہو سکتی اور قوم کو قرض دار آپ سب نے مل کر بنایا ہے۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ لاکھوں کا مقروض ہے۔ چاہے وہ ہاورڈ یونیورسٹی سے پڑھے یا میرے گاؤں کے سکول سے۔ قرض دار کی کوئی عزت نہیں ہوتی، نہ ہی اس کو عزت اور غیرت کی بات کرنی چاہیے۔ نہ ہی اس کو خطے کا اہم ملک ہونے کا زعم ہونا چاہیے۔ بس نعرے لگانے چاہئیں جو بھی سٹیج سے لگیں اور تقریریں سننی اور کرنی چاہئیں۔ اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments