نیو یارک میں تیزاب گردی کا شکار ہونے والی پاکستانی امریکن نافیہ اکرام کی المناک کہانی


نیویارک کی ناساؤ کاؤنٹی کے علاقے ایلمونٹ میں کمیونٹی لیڈروں، پاکستانی امریکن اور ہوفسٹرا یونیورسٹی کی طالبہ، نافیہ اکرام کے خاندان نے ایک بار پھر پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نافیہ پر ایک سال قبل بغیر کسی اشتعال کے تیزاب پھینکنے والے حملہ آور کو تلاش کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کریں۔

تیزاب سے حملہ کرنا دنیا بھر میں ہونے والے سرفہرست جرائم میں سے ایک سنگین جرم بن گیا ہے۔ نیویارک کی ایک پاکستانی امریکن خاتون پر 17 مارچ 2021ء کو ایک نامعلوم شخص نے حملہ کیا تھا، اور آج تک، ملزم کا پتہ نہیں چل سکا۔ 22 سالہ نافیہ اکرام کے اہل خانہ ناساؤ کاؤنٹی پولیس ڈیپارٹمنٹ کو اس کیس میں مہارت نہ ہونے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ 17 مارچ، 2021ء کو جب نافیہ اکرام ایک مقامی (سی وی ایس) سٹور میں رات 40 : 7 کے قریب کام سے فارغ ہو کر واپس اپنے گھر ایلمونٹ، لانگ آیئلنڈ (نیویارک) پہنچی۔ گاڑی پارک کر کے جونہی وہ اپنے ڈرائیو وے سے اندر کی جانب مڑی۔ کوئی شخص تیزی سے اس کے پاس آیا، اور اس کے چہرے پر کوئی تیزاب نما سیال مادہ پھینک کر فرار ہو گیا۔

تیزاب پھینکنے کے بعد وہ شخص تیزی سے بھاگا۔ لیکن اس واقعہ کی فوٹیج سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈ ہو گئی۔ ثبوت دستیاب ہونے کے باوجود اور پورا ایک سال گزرنے کے باوجود ناساؤ کاؤنٹی پولیس مجرم کو گرفتار کرنے میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی۔ ملزم بدستور فرار ہے۔ جبکہ تیزاب سے متاثرہ نافیہ کی ایک آنکھ کی بینائی ضائع ہو چکی ہے۔ اور وہ شدید جھلسے ہوئے چہرے کے ساتھ ہر گزرتے پل انتہائی اذیت سے گزر رہی ہے۔

نافیہ اکرام نے اپنے حملہ آور کو تلاش کرنے کے لیے ایک نئی درخواست دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ”میں اپنے لیے انصاف حاصل کرنا چاہتی ہوں، میں نہیں چاہتی کہ یہ واقعہ کسی اور شخص کے ساتھ ہو۔

حملے کے بعد ، ناساؤ کاؤنٹی پولیس ڈیپارٹمنٹ اور ایف بی آئی دونوں کی طرف سے اعلان کردہ ایوارڈز کے باوجود، کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی۔ اور نہ ہی کوئی سراغ مل سکا ہے۔ ناساؤ پولیس ڈیپارٹمنٹ اور ایف بی آئی ، دونوں نے اس واقعہ کے متعلق اطلاع دینے والے شخص کے لیے بیس بیس ہزار ڈالر، مجموعی طور پر 40 ہزار ڈالر کا انعام بھی مقرر کر رکھا ہے۔

نافیہ نے واقعہ کے ایک سال گزر جانے کے بعد تفتیش پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا کے سامنے کہا کہ ”انہیں لگتا ہے کہ ابتدائی طور پر انہوں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا، وہ اس واقعہ کو ایک عام کیس کے طور پر دیکھتے ہیں۔

انہوں نے میرے سوشل میڈیا، میرے ٹیکسٹ میسجز، ان سب کو دیکھا اور پھر بھی انہیں کوئی لیڈ نہیں ملی۔ تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یا تو وہ کافی کوشش نہیں کر رہے یا یہ کہ ملزم واقعی ایک اچھا چھپنے والا شخص ہے ”۔

تیزاب کے حملے سے پہلے نافعہ اکرام ہوفسٹرا یونیورسٹی، لانگ آیئلنڈ (نیویارک) میں پری میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ حملے کے بعد سے اب تک اس کی متعدد سرجریاں ہو چکی ہیں۔ اور ابھی مزید ہوں گی۔ لیکن پھر بھی اس کا چہرہ بدستور مسخ ہے۔

17 مارچ، 2022ء کو نافیہ کے والد پچاس سالہ شیخ اکرام نے ’نیویارک پوسٹ‘ کو بتایا کہ ”پولیس ڈیپارٹمنٹ نے اس کیس کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا، لہذا برائے مہربانی! حملہ کرنے والے جانور کو تلاش کرنے میں ہماری مدد کریں۔ میری بیٹی ہر روز انتہائی اذیت سے گزرتی ہے اور ہم گزشتہ ایک سال سے بہت مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔ یہ حملہ آور جو کوئی بھی تھا، وہ واقعی اسے (اسکی بیٹی) کو اچھی طرح سے جانتا ہے۔ اور اس کے پاس پوری معلومات ہیں۔

گزشتہ جمعرات کو ایک بیان میں، ناساؤ کاؤنٹی کے پولیس کمشنر پیٹرک رائیڈر نے کیس کو حل کرنے کے لیے تفتیش کاروں کی کوششوں کا دفاع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ناساؤ کاؤنٹی پولیس ڈیپارٹمنٹ ایک سال پہلے ہونے والے نافیہ اکرام پر گھناؤنے فعل کی شدید اور جامع تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔

اس مقصد کے لیے متعدد انٹرایجنسی وسائل تفویض کیے گئے ہیں، اور ذمہ دار شخص کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے تعاون جاری رکھیں گے۔ ناساؤ کاؤنٹی کرائم سٹاپرز اور ایف بی آئی، دونوں نے یکساں طور پر اس واقعہ سے متعلق اطلاع دینے والے کے لیے انعام کو مجموعی طور پر 40 ہزار ڈالر تک بڑھا دیا ہے، جو ذمہ دار شخص کی گرفتاری کا باعث بن سکتا ہے۔ ہم اکرام فیملی کے ساتھ برابر رابطے میں ہیں ”۔

تیزاب سے متاثرہ نافیہ اکرام کی مالی سپورٹ کے لیے ”گوفنڈ می“ نامی ویب سائٹ پر اب تک تیرہ ہزار چار سو لوگوں کے عطیات سے تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ ڈالر کی رقم اکٹھی ہو چکی ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ دیگر کمیونٹیز، انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا نے بھی اس واقعہ پر موثر انداز سے آواز اٹھائی ہے۔

تاہم یہ بدستور سوالیہ نشان اپنی جگہ پر ہے کہ پولیس گزشتہ ایک سال سے تیزاب پھینکنے والے ملزم کا سراغ لگانے میں ناکام کیوں رہی ہے؟

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments