عدم اعتماد کی بین الاقوامی سازش تھیوری


میرا دل چاہتا ہے کہ میں مان جاؤں کہ کپتان کے خلاف بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ سازش کر رہی ہے۔ تو کپتان نے اس سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے 4 سال میں کیا کیا ہے۔ پی پی پی قیادت کو معلوم ہے کہ اس کی نظر میں پاکستان کے مفادات بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ سے مختلف ہیں تو وہ 1970 سے کے کر آج تک وسیع تر قومی اتفاق رائے کی جدوجہد کرتی ہے۔ اپنے منشور کو پیچھے چھوڑ کر مخالف سیاسی جماعتوں کی ہر جائز ناجائز بات مانتی ہے۔

گزشتہ چار سال میں کوئی ایک موقع بتائیں جب عمران خان نے بطور وزیراعظم ایک لمحہ کے لیے بھی ایکٹ کیا ہو اور مخالف ارکان قومی اسمبلی تک یہ پیغام پہنچایا ہو کہ پاکستان کے مفادات کو کسی غیر ملکی یا بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ سے خطرہ ہے۔

چینی انجینئر اور کارکن پاکستان کی سرزمین پر بار بار قتل ہوئے۔ آج تک وزیراعظم عمران خان نے ان کے کسی ایک ملزم کی گرفتاری کے لیے جدوجہد کی ہے۔ چین پاکستان کا قدیم ترین دوست ہے اور چین اور پاکستان کے خطہ میں مفادات ایک جیسے ہیں۔ چین نے وزیراعظم عمران خان کو آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی سفارش پر تین ارب ڈالر کی سلامی دی تھی۔ کیا اس دن کے بعد آج تک چینی قیادت کے ساتھ اعتماد سازی کے لئے وزیراعظم کی جانب سے کوئی چھوٹی سے چھوٹی جدوجہد بھی دیکھنے کو ملی۔

قمر جاوید باجوہ کی سفارش پر سعودی عرب کے پرنس محمد بن سلمان نے دو ارب ڈالر کی سلامی سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان کو پیش کی تھی۔

کیا آج تک وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کے ساتھ معاملات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کی اور کسی بھی لیول پر سعودی قیادت کے ساتھ اپنے مبینہ اختلافات کو دور کرنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا ہے۔

اسی طرح امریکہ برطانیہ یا دیگر دنیا کے اہم ممالک کے ساتھ ساتھ عمران خان کے تعلقات کی نوعیت زیرو سے نیچے رہی۔ خود پسندی اور نرگسیت کے مرض نے ان کو ناقابل علاج ہی نہیں بنا دیا بلکہ بین الاقوامی برادری کا ایک مفید رکن بننے کی صلاحیت بھی چھین رکھی ہے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت پر جب بھی مشکل وقت آتا ہے بلکہ وہ عام حالات میں بھی اپوزیشن کو چھوٹے بچے کی طرح گود میں کھلاتی رہتی ہے۔ پی پی پی کی قیادت یہ بات جانتی ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ ان کے نظریاتی اختلاف اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ انہیں برداشت نہیں کرتے اور انہیں ملک کو اپنی مرضی سے جمہوریت کی سمت میں موڑنا ہے۔

نواز شریف اور عمران خان کی ہر لمحہ پیپلز پارٹی کی قیادت نہ صرف عزت کرتی ہے احترام کرتی ہے بلکہ ان کے پہنچائے ہوئے زخموں کو چھپا کر ان کی جانب اچھائی کا ہاتھ بڑھاتی ہے۔ کسی بھی موقع پر وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن اور بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی کہ اس کے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ یا پاکستان کی اپنی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ یہ مسائل پیدا ہوچکے ہیں انہیں حل کرنے میں مدد دی جائے۔

فرض کر لیں کہ میں یہ مان لوں وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے مابین ایکسٹینشن اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری پر شدید نوعیت کے اختلافات بن چکے ہیں۔ کیا آج تک وزیراعظم عمران خان نے ان دونوں معاملات کے حل کے لیے پارلیمان کا فورم استعمال کرنے کی کوشش کی ہے یا اپوزیشن کے پاس کوئی وفد بھجوایا کہ مجھے سول سپریمیسی اور ووٹ کو عزت دو کی جدوجہد میں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ کبھی آپ نے سنا کہ وزیراعظم نے اپنی ہی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ان دو موضوعات پر بلایا ہو۔ اور ارکان اسمبلی کو ان کی اپنی جماعت کے ہیں ان سے مشاورت کی ہو کہ سول امور میں فوجی مداخلت کو کس طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اس کے الٹ اپنی جماعت کے ارکان کو فوجی افسروں سے دھمکیاں دلا کر اور بلیک میل کروا کر وہ ارکان اسمبلی کے ووٹ مختلف اوقات میں قانون سازی کے لئے لیتے رہے۔

میرے سوالات کا جواب نفی میں ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن یا پارلیمان، قومی اسمبلی کو کبھی بھی اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ڈائیلاگ کے آدمی بن ہی نہیں سکے۔ ہیڈ ماسٹر کی طرح تحکمانہ انداز سے تقاریر کرتے اور اپنے اور مخالفین کے لتے لیتے رہے۔

بلکہ ان کی زندگی کی انتہائے مقصود یہ ہے کہ امریکہ، روس، چین اور افواج پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان اپوزیشن لیڈرز کو جیل میں رکھنے اور ان کے سیلز سے ائر کنڈیشنر اتارنے میں ان کی سرپرستی اور مدد کریں اور کوئی ایسا ماحول بنائیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ذبح کر کے بحیرہ عرب میں مچھلیوں کی خوراک بنا دیا جائے۔

آپ یقین کریں کہ عمران خان کی سیاست عمران خان کے نظریات اور اس کی شخصیت کا انتہائی پہلو یہی ہے کہ اس سے زیادہ اسے کچھ نہیں چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments