خان صاحب، آپ بھٹو نہیں بن سکتے


میرا بچپن گاؤں میں گزرا ہے، والد محترم سرکاری سکول کے ہیڈ ماسٹر ہونے کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی سے بھی وابستہ تھے۔ دریائے سندھ کے قریب ہونے کی وجہ سے ہم لوگ گرمیوں میں سیلاب کا نشانہ بنتے رہتے تھے، جس سے نہ صرف ایکڑوں کے ایکڑ کپاس کی فصل برباد ہوجاتی تھی بلکہ مٹی کے بنے ہمارے گھر بھی اسی سیلاب کی نذر ہو جاتے تھے۔ نوے کی دہائی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں سیلاب آیا تو اسی دوران حکومتی قرضے پر ہم نے ٹریکٹر بھی لیا ہوا تھا۔

اس کی قسطیں دینا بھی محال ہو گیا ہوا تھا تو والد صاحب بار بار ذکر کرتے رہتے تھے بھٹو کی حکومت آ جائے۔ اب میں سیاسی طور پر نابالغ تھا تو میں والد محترم سے ایک دن پوچھ ہی لیا کہ آپ یہ بار بار بھٹو کی حکومت آ جائے کیوں بولتے رہتے ہیں۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ بیٹا بے نظیر بھٹو جب بھی آتی ہیں تو وہ زرعی قرضے معاف کر دیتی ہیں۔ یہ لوگ (نواز شریف حکومت ) صنعتکاروں کو فائدہ دیتے ہیں۔ اسی لئے بس دعا کرو کہ بھٹو کی حکومت آ جائے۔ حالانکہ میرے والد محترم مرحوم پکے مسلم لیگی تھے، انہوں نے 40 کی دہائی میں ایم ایس ایف میں شمولیت اختیار کر کے 1945 کے انتخابات میں مسلم لیگ کے لئے مہم بھی چلائی تھی۔

یہ واقعہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے مشیروں کے ان بیانات کے تناظر میں بیان کر رہا ہوں، جس میں انہوں نے خود کو ذوالفقار علی بھٹو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اپنے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد کو روس کی طرف جھکاؤ اور امریکہ کو سیدھا انکار کرنے سے جوڑا۔ بھلا ہو بی بی سی کا جس نے امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے بھٹو کی معزولی اور پھانسی کے ایام کے دوران سفارتکاری کی خفیہ دستاویزات کو شائع کیا۔ ان دستاویزات نے وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزراء کے اس پراپیگنڈا کا تیاپانچہ ایک کیا ہے۔ جس کے تحت وہ پاکستانی عوام کا امریکہ اور مغرب ممالک جذبہ ابھارنا چاہتے ہیں۔ بی بی سی کی اس خصوصی رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات اپنے قارئین کے لئے گوش گزار کیے دیتا ہوں۔

ایک بات جو اس پوری رپورٹ میں بیان کی گئی خط و کتابت، سفارتکاری سے عیاں ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ نہ صرف بھٹو کو پھانسی دینے کے سخت خلاف تھا بلکہ اس وقت کے امریکی صدر اور ان کی انتظامیہ صدر ضیاء الحق کو بار بار معافی کے لئے قائل کرتے رہے۔ دستاویزات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو امریکہ کے سخت ناقد تھے۔ امریکی وزیرخارجہ اور اس وقت کے چینی نائب وزیراعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے اس بات کا اظہار کیا کہ بھٹو جذباتی آدمی ہیں وہ امریکہ اور چین دونوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

بی بی سی کے مطابق امریکی وزیرخارجہ وینس نے چینی نائب صدر کو بتایا کہ ”امریکہ نے جنرل ضیا پر زور دیا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد جان بخشی کر دیں حالانکہ ذوالفقار بھٹو نے امریکہ پر کڑی تنقید کی تھی“ ۔ ان دستاویزات کے مطابق چین نے بھٹو کو اپنے پاس رکھنے کی بھی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ دوسرا پراپیگنڈا جو موجودہ حکومت کی جانب سے کیا جا رہا ہے وہ او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کے بارے میں ہے کہ کیونکہ عمران خان اسلامی ممالک کو ایک میز پر لے آئے ہیں تو مغرب اس چیز بھی خائف ہے۔

وزیراعظم عمران خان جو کہ خود جلسوں میں سوشل میڈیا کی طاقت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب لوگ باشعور ہو گئے ہیں۔ تو خان صاحب آپ کے او آئی سی اجلاس اور بھٹو دور کے او آئی سی اجلاس میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ اس وقت ہونے والا اجلاس سربراہی اجلاس تھا جس میں تمام اسلامی ممالک کے سربراہان شریک تھے۔ دوسرا اس وقت او آئی سی کی تشکیل کو بمشکل 5 سال ہوئے تھے۔

اگر آپ کی اس تھیوری کو سچ مان لیا جائے کہ آپ کو او آئی سی اسلام آباد میں لانے کی سزا مل رہی ہے تو بھائی صاحب سعودی عرب جہاں اس کا صدر مقام ہے وہاں تو آل سعود کی حکومت کب کی اتاری جا چکی ہوتی۔ اسی طرح نائجیریا میں جہاں 2020 میں او آئی سی کی وزرائے خارجہ کانفرنس ہوئی وہاں بھی حکومت کو اٹھا کے باہر پھینک دیا جا چکا ہوتا۔

وزیراعظم عمران خان صاحب ذوالفقار علی بھٹو نے کبھی عوامی جلسوں میں محلے کی پھپھو کی طرح یہ نہیں بولا تھا کہ منحرف لوگوں کے بیٹے بیٹیوں کا رشتہ کوئی نہیں لے گا۔ ان کی حکومت نے عام لوگوں کا خون چوسنے کو ریکارڈ ٹیکس کلیکشن کا بھی نام نہیں دیا تھا۔ آپ کی حکومت نے گھی پانچ سو روپے کلو کیا ہے، بے روزگاری عروج پر ہے، ڈالر ایک سو اسی پر پہنچا ہوا ہے۔ پیٹرول 150 پر ہے۔ آپ کس منہ سے خود کو عام آدمی کا ہمدرد کہتے ہیں؟ آج صنعت کار اربوں کما رہا ہے، میڈیا کے سیٹھوں کے نخلستان ہرے بھرے ہوچکے ہیں۔

خان صاحب آپ بھٹو کے پاس سے بھی نہیں گزرے، آپ کی سیاست گل سے شروع ہو کر پاشا سے ہوتی ہوئی فیض یاب ہوتی رہی ہے۔ نہ آپ بھٹو بن سکتے ہیں، بھٹو جذباتی ضرور تھے، بدتمیز یا ہٹلر اور ڈاکٹر گوئبلز کے پیروکار ہرگز نہ تھے۔ وہ تو ان کا شکار ہوئے جن کے ہاتھوں میں کھیل کر آپ نے کرسی حاصل کی ہے۔ بھٹو کو تو آج بھی ان کے ناقدین بھی اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ عام آدمی تو پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھٹو کی حکومت کہہ کر یاد کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments