دوسروں کی وجہ سے بندہ اپنا موڈ کیوں خراب کرے؟


اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ اگر کسی نے انھیں برا بھلا کہہ دیا یا پھر صبح کے آغاز میں ہی کوئی ایسا کام ہو گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا، پورا دن منہ سجا کر گھومتے ہیں۔ یہ لوگ تو پھر بھی سمجھ آتے ہیں لیکن ان لوگوں کی سمجھ بالکل نہیں آتی تو جو ایک ہی حادثے یا بات کو لے کر ہفتوں یاد رکھتے ہیں۔ اس سارے دورانیے کے دوران اپنا قیمتی وقت تو ضیاع کرتے ہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کا بھی موڈ خراب کرتے ہیں جو اچھے بھلے ان سے ملنے یا پھر کسی کام کے حوالے سے ان سے پالا پڑ گیا ہوتا ہے۔ یہ کسی اور بات کا غصہ ان پر نکالتے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک دو ایسی طبیعت کے ضرور نکل آتے ہیں اور وہ اپنا غصہ آگے منتقل کرتے جاتے ہیں اور یوں ایک عجیب قسم کا سائیکل شروع ہو جاتا ہے۔ جو بنا کسی وجہ کے ہی چلتا رہتا ہے۔

اگر کسی نے بلاوجہ ہی ڈانٹ دیا تو یہ نہیں کہ اس بات کو وہی بھول کر نئے لمحے کی شروعات کی جائے، بلکہ اس بات کو پہلوٹھی کے بچے کی طرح سینے سے ہی لگا لیتے ہیں۔ جناب یہ بات اس نے کہی تو کہی کیوں۔ وہ ایسا بھی تو کہہ سکتا تھا نا۔ اسے ہر بار میں ہی کیوں ملتا ہوں، ایسی باتیں کہنے کے لیے۔ اس طرح سوچ کر یا پھر کسی دوسرے کو دکھڑا سنا کر اس لمحے کے حق کو کھانے کے مترادف ہے جو اس وقت چل رہا ہوتا ہے۔

اسی طرح اگر کسی کام کو ہاتھ ڈالا ہو اور وہ خراب ہو جائے تو مہینہ بھر اسے کو سوچتے رہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا یا پھر اگر ایسا کر لیتا تو ایسا ہو جاتا۔ اگر ایسا کر لیتا تو مجھے یہ مل جاتا۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ جو آپ کا ہے وہ آپ کا ہی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت وہ آپ سے نہیں لے سکتی۔ باقی قدرت کی یہی تو اصول ہے کہ ایک بندے کا لاحاصل دوسرے کا حاصل بنتا ہے۔ اس لیے اپنی بھر پور کوشش کر کے اسے بھول جانا چاہیے کہ اس کے نتائج کیا ہیں۔ آپ کو نتائج سے زیادہ اس پروسیس سے محبت ہونی چاہیے۔

باقی اگر اس کے دوران کوئی بھی ایسا کام یا حادثہ ہوتا ہے جو آپ کے مطابق نہیں ہونا چاہیے تھا بہ شرط یہ کہ وہ کسی طرح کا فزیکل ڈیمج نہ ہو تو وہ اپنی جگہ ایک الگ اور آزاد حادثہ ہوتا ہے۔ آپ خود سوچیے کہ اگر رات کو آپ کی دوست کے ساتھ تلخ کلامی ہو جائے تو یہ حادثہ اپنی جگہ بالکل ایک الگ اور آزاد حیثیت رکھتا ہے۔ اگر رات کو آپ اسی وقت کسی اور کام میں مصروف ہو جاتے تو وہ اپنا جگہ بالکل الگ ایونٹ بن جاتا۔ جس سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ جو اب ہونے اور نہ ہونے کی ساری صورت حال ہے، ساری سائنس اسی میں ہے۔ اسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم اس بات کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا حصہ سمجھ کر اپنے تعلقات تو خراب کرتے ہی ہیں ساتھ میں نفسیاتی مریض بھی بنتے چلے جاتے ہیں۔

بالکل اسی طرح روزمرہ کے کافی سارے معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی خاص ہماری زندگی پر اثر نہیں پڑنا ہوتا لیکن ہم جان بوجھ کر ان کو سوچ کر زبردستی اپنی زندگی پر تھوپتے چلے جاتے ہیں۔

بات پلے پڑی کہ نہیں؟ نہیں تو چلو اس بات کو یوں سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی آپ سے کسی بات پر گالم گلوچ کرتا ہے تو وہ اس کے منہ کے الفاظ تھے جو اس نے ادا کیے۔ ان الفاظ نے آپ کو فزیکلی کسی لحاظ سے بھی ڈیمج نہیں کیا یا پھر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ کسی بندے کے برے الفاظ کسی لحاظ سے بھی آپ کی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوں گے جب تک آپ خود ان کو حاوی نہ کر لو۔

یہ ساری کہانی انسان کے خود سے شروع ہو کر خود پر ہی ختم ہوتی ہے۔ جب تک انسان خود لوگوں کی بری باتوں کا برا نہیں منائے گا، وہ کبھی برا محسوس نہیں کرے گا۔ بس ان باتوں اور چیزوں کو بھولنا سیکھیے جن کا سروکار دوسروں سے جڑا ہوتا ہے۔ ہر اس چیز کو بھول کر دیکھیے جس کے ذمہ دار آپ نہیں ہیں۔ جیون سفل نہ ہو گیا تو کہیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments