ریاست مدینہ ’علامہ اقبالؒ کا جناح کے نام خط!


  

انسانوں کا گروہ علاقہ ’نسل اور زبان کے اشتراک پر ایک قوم بن سکتا ہے تو عقیدہ کے اشتراک پر بھی ایک قوم بن سکتا ہے۔ اقبالؒ اکثر یہ کہتے تھے کہ نبی پاک ﷺ نے ہجرت مدینہ کے بعد اشتراک ایمان کی بنیاد پر ایک امت‘ ملت یا قوم کو بنایا تھا۔ علامہ اقبال ؒچاہتے تھے کہ مسلم قومی ریاستیں پہلے اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑی ہوں اور بعد ازاں اشتراک ایمان اور تمدنی ہم آہنگی کی بنیاد پر جمہوریتوں کے ایک زندہ خاندان کی طرح اکٹھی ہو جائیں۔

قوموں کی اجتماعی زندگی میں نظریہ کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ قوموں کے سیاسی ’معاشرتی اور معاشی نظریات مل کر ایک نظام حیات ترتیب دیتے ہیں۔ نظریہ کی بدولت قومی زندگی کا نظام وجود میں آتا ہے۔ کوئی نظریہ اپنانے کے لئے جرات اور قوت برداشت کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ انسان نظریات کی چھتری کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر اسے نظریات کی چھتری میسر نہ ہو تو وہ نہ صرف جانور بن جاتا ہے بلکہ دنیا کے ہر جانور اور درندے سے بھی زیادہ خونخوار ہو جاتا ہے۔

علامہ اقبالؒ نے مسلمانان برصغیر پاک و ہند کے لئے نظریات کی چھتری مہیا کی۔ مسلمان قوم کو خواب غفلت سے بیدار کر کے سیاسی شعور پیدا کیا۔ دسمبر 1930 ء میں علامہ اقبالؒ نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد کی صدارت کی اور اپنے خطبہ میں فرمایا کہ ”میری خواہش ہے کہ پنجاب‘ سرحد ’سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست بنا دیا جائے“ ۔

اقبالؒ کا لکھا گیا ایک خط ”28 مئی 1937 میرے پیارے مسٹر جناح ’آپ کے خط کا بہت شکریہ جو وقت پر مجھ تک پہنچا۔ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آپ اس بات کو ذہن میں رکھیں گے کہ میں نے لیگ کے آئین اور پروگرام میں تبدیلی کے بارے میں آپ کو کیا لکھا تھا۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں تک مسلم ہندوستان کا تعلق ہے آپ کو حالات کی سنگینی کا بخوبی اندازہ ہے۔

لیگ کو آخرکار یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا یہ ہندوستانی مسلمانوں کے اعلیٰ طبقوں کی نمائندگی کرنے والی ایک تنظیم رہے گی یا مسلم عوام کی جو اب تک معقول وجہ کے ساتھ اس میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ ذاتی طور پر میرا ماننا ہے کہ ایک سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی بہتری کا کوئی وعدہ نہیں کرتی وہ ہمارے عوام کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتی۔

نئے آئین کے تحت اعلیٰ عہدے اعلیٰ طبقے کے بیٹوں کے پاس ہیں۔ چھوٹے وزراء کے دوستوں یا رشتہ داروں کے پاس جاتے ہیں۔ دیگر معاملات میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے عام طور پر مسلمانوں کی بہتری کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ روٹی کا مسئلہ دن بدن گمبھیر ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمان نے محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ پچھلے 200 سالوں میں نیچے کی طرف جا رہا ہے۔ عام طور پر اس کا ماننا ہے کہ اس کی غربت ہندو قرض دینے یا سرمایہ داری کی وجہ سے ہے۔

یہ ادراک کہ مساوات غیر ملکی حکمرانی کی وجہ سے ابھی تک پوری طرح سے اس کے ذہن میں نہیں آئی ہے۔ لیکن یہ ضرور آنے والا ہے۔ جواہر لال نہرو کے ملحدانہ سوشلزم کو مسلمانوں کی طرف سے زیادہ ردعمل ملنے کا امکان نہیں ہے۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟ اور نون لیگ کا سارا مستقبل اس سوال کے حل کے لیے لیگ کی سرگرمی پر منحصر ہے۔ اگر لیگ ایسے وعدے نہیں کر سکتی تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے لاتعلق رہے گی۔

خوشی کی بات ہے کہ اسلام کے قانون کے نفاذ اور جدید نظریات کی روشنی میں اس کی مزید ترقی میں ایک حل موجود ہے۔ اسلامی قانون کے طویل اور بغور مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو صحیح طریقے سے سمجھا جائے اور اس کا اطلاق کیا جائے تو آخر کار رزق کا حق ہر ایک کو حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلامیہ کا نفاذ اور ترقی اس ملک میں آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ کئی سالوں سے میرا ایماندارانہ یقین رہا ہے اور میں اب بھی یہ مانتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے روٹی کے مسئلے کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک پرامن ہندوستان کو محفوظ بنانے کا یہی واحد طریقہ ہے۔

اگر ہندوستان میں ایسا ناممکن ہے تو اس کا واحد متبادل خانہ جنگی ہے جو درحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کچھ عرصے سے جاری ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ملک کے کچھ حصوں میں، جیسے شمال مغربی ہندوستان، فلسطین کو دہرایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جواہر لال کے سوشلزم کو ہندو ازم کی جسمانی سیاست میں داخل کرنے سے خود ہندوؤں میں بہت زیادہ خونریزی کا امکان ہے۔ سوشل ڈیموکریسی اور برہمن ازم کے درمیان مسئلہ برہمن ازم اور بدھ مت کے درمیان مختلف نہیں ہے۔ کیا سوشلزم کا حشر ہندوستان میں بدھ مت کا حشر جیسا ہو گا ’میں نہیں کہہ سکتا۔ لیکن میرے ذہن میں یہ بات واضح ہے کہ اگر ہندوازم سماجی جمہوریت کو قبول کرتا ہے تو اسے لازمی طور پر ہندو ازم کو ختم کرنا ہو گا۔

اسلام کے لیے سوشل ڈیموکریسی کو کسی مناسب شکل میں قبول کرنا اور اسلام کے قانونی اصولوں سے ہم آہنگ ہونا کوئی انقلاب نہیں ہے بلکہ اسلام کی اصل حالت کی طرف واپسی ہے۔ لہٰذا جدید مسائل کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوؤں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے کہ مسلم ہندوستان کے مسائل کے حل کو ممکن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کو دوبارہ تقسیم کیا جائے اور ایک یا زیادہ مسلم ریاستوں کو مطلق اکثریت کے ساتھ ثابت کیا جائے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ایسے مطالبے کا وقت آ پہنچا ہے؟ جواہر لال نہرو کے ملحدانہ سوشلزم کو آپ شاید یہی بہترین جواب دے سکتے ہیں۔

بہرحال میں نے اپنے خیالات آپ کو اس امید کے ساتھ پیش کیے ہیں کہ آپ ان پر یا تو اپنے خطاب میں یا نون لیگ کے آنے والے اجلاس کے مباحث میں سنجیدگی سے غور فرمائیں گے۔ مسلم ہندوستان امید کرتا ہے کہ اس سنگین موڑ پر آپ کی ذہانت ہماری موجودہ مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ نکال لے گی۔ آپ کا خیر خواہ) محمد اقبال ”۔

برصغیر میں ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کا تصور انہوں نے اسی مشن کی تکمیل کے لیے پیش کیا تھا کہ انسانیت کی ایمانی ’اخلاقی اور روحانی بالیدگی اور نشوونما کے لیے ایک ماڈل وجود میں لایا جائے جو ریاست مدینہ کے رنگ اور آہنگ میں ڈھلا ہوا ہو۔ اقبال ؒکے نزدیک یہی وہ نظام اور پیغام ہے جس سے ایک عالمی تہذیب وجود میں آ سکتی ہے۔ آئیے پیغام اقبالؒ کو دنیا کے سامنے اس اعتماد کے ساتھ پیش کریں کہ یہ ہمارے موجودہ عالمی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments