ماحولیاتی تبدیلیاں اور دنیا کی قدیم تہذیبیں


دنیا کی اکثر قدیم ثقافتوں میں دھرتی اور اس کے ماحول کو نہایت قابل احترام حیثیت حاصل رہی ہے۔ آسٹریلیا میں پڑھائی کے سلسلے میں رہائش کے دوران مجھے آسٹریلیا کی قدیم ابورجنل تہذیب کے بارے میں جاننے کا موقعہ ملا اور یہ معلوم ہوا کہ اس براعظم کے قدیم قبائل کا رہن سہن نہایت ماحول دوست رہا ہے اور ان کی ثقافت میں کئی ماحول دوست روایات موجود رہی ہیں۔ یہ لوگ دھرتی اور فطرت سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مغربی آسٹریلیا کے ایک سیاحتی مقام سے جب بھی کسی مسافر کا گزر ہوتا ہے تو ابورجینل روایات کے مطابق اسے وہاں کی کچھ خاک ہاتھ میں لے کر فطرت سے یہ عہد کرنا پڑتا ہے کہ وہ اس علاقے میں اپنی رہائش کے دوران یہاں کی زمین، درختوں اور ماحول کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔

اسی طرح کی کئی اور روایات ان کی ماحول دوست تہذیب کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی کہانیوں اور گیتوں میں زمین کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ زمین کسی ایک نسل کے لئے نہیں ہے بلکہ زمین کی زرخیزی اور وسائل آئندہ نسلوں کی امانت ہیں اس لیے آج کی نسل پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ زمین کے وسائل کا استعمال کرتے وقت دھرتی کے ماحول کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ابورجنل کہانیوں میں انسان کو بار بار یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ کوئی الگ تھلگ فرد نہیں بلکہ اپنے اردگرد کے ماحول اور حیاتیاتی تنوع کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس لئے اپنے ذاتی مفاد کے لئے اسے ماحول کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا چاہیے۔

دنیا کی قدیم تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ان ہی ماحول دوست روایات اور فطرت کے ساتھ ان کی صدیوں پر محیط قریبی رفاقت کی وجہ سے عالمی ماحولیاتی اداروں اور سائنسدانوں کو بھی اب اس بات کا احساس شدت کے ساتھ ہونے لگا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے فطرت کی قربت میں رہنے والے ان لوگوں کا تعاون بہت ضروری ہے۔

ایک طرف تو دنیا کے جنگلی علاقوں، پہاڑوں، ساحلوں اور صحراؤں میں رہنے والے مقامی لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، کیونکہ وہ لوگ عام طور پر ذریعہ معاش سے لے کر رہن سہن تک ماحول اور اس کے وسائل پر ہی انحصار کرتے ہیں اور ماحولیاتی تبدیلیاں ان کی زندگی کو سب سے زیادہ مشکل بنا رہی ہیں۔ خشک سالی، حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ اور دیگر عوامل دنیا کے دور دراز ماحولیاتی خطوں میں رہنے والے ان لوگوں کو سیدھی طرح متاثر کر رہے ہیں، جبکہ گرین ہاؤس گیسز کے زیادہ اخراج سے جنم لینے والے اس بحران کو پیدا کرنے میں قدیم لوگوں کا کردار نہ ہونے برابر ہے۔ جبکہ دوسری طرف ماحولیاتی ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید طور پر متاثر ان لوگوں سے ہی یہ امید وابستہ کر ر ہے ہیں کہ فطری ماحول اور مختلف ایکو سسٹمز کی دوبارہ بحالی کے حوالے سے ان قدیم باشندوں کی روایات اور لوک ذہانت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

مقامی لوگوں نے اپنے طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے کئی اقدامات کیے ہیں، جن کو اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں نے سراہا ہے۔ ماحولیاتی نظاموں اور ہمارے سیارے کے ماحولیاتی تحفظ میں بھی ایسے اقدامات کا کردار بے حد اہم ہے۔ مثال کے طور پر بنگلادیش میں دیہاتیوں نے سبزیاں اگانے کے لئے تیرنے والے باغ تیار کیے ہیں تا کہ سیلاب کے دوران ان کا ذریعہ معاش محفوظ رہ سکے۔ ویتنام میں مقامی لوگوں نے مینگروز کے گھنے جنگل لگائے ہیں تا کہ سمندری طغیانی سے ان کی بستیاں اور روزگار محفوظ رہ سکے۔

اسی طرح جنوبی امریکہ اور کیریبین کی مقامی آبادیاں زرعی سرگرمیوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ بنانے کے لئے مختلف اقدامات کر رہی ہیں۔ جن سے اس بحران پر قابو پانے کے حوالے سے مدد کی جا سکتی ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی دنیا کے قدیم لوگوں کا کردار اہم ہے کیونکہ آج بھی زمین کا 24 فیصد حصہ قدیم مقامی لوگوں کے پاس ہے۔ دنیا کے ماحولیاتی لحاظ سے نہایت اہم قدرتی وسائل پر بھی قدیم لوگوں کا کنٹرول ہے۔ یہی لوگ دنیا کے گھنے جنگلوں کے محافظ ہیں اس لئے جب تک ان علاقوں پر قدیم ماحول دوست تہذیبی روایات اور رہن سہن قائم رہے گا یہ علاقے ماحولیاتی تباہی سے کافی حد تک محفوظ رہ سکیں گے، اسی لئے آئی پی سی سی کی عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ اور عالمی سطح پر کلائیمیٹ چینج کے حوالے سے ہونے والی بحث میں اس بات پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے کہ فطرت سے قریب تر رہنے والی ان کمیونیٹیز کی بات کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دی جائے اور ان لوگوں کی ماحول دوست تہذیبی روایات اور تہذیبی ورثے کو بچانے کے لئے اقدامات کیے جائیں تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بحران پر قابو پایا جا سکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments