سیاست: ہم دنیا کو کیا دکھانا چاہتے ہیں؟


مختلف صحافیوں کے تبصرے، ٹی وی پروگرام اور ہر طرف ایک ہی بازگشت سے یہ بات تو واضح سمجھ آ رہی ہے کہ موجودہ حکومت پر اپوزیشن کا دباؤ ظاہر کر رہا ہے کہ شاید حکومت اپنی مدت پوری نہ کرے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بھی واضح ہو گا کہ ایک عبوری حکومت اور پھر 2023 کے جنرل الیکشن ہوں گے۔ اگر کوئی یہ امید لگائے کہ موجودہ مہنگائی، بے روزگاری، عدم برداشت کا ماحول، لا اینڈ آرڈر کی بگڑی صورتحال حکومت کے جانے سے بہتر ہو جائے گی تو جناب یہ خام خیالی دل سے نکال دیجیے۔ کیونکہ آنے والی حکومت جانے والی حکومت کی کوتاہیوں کا رونا رو (ہمیشہ کی طرح) کام کرے گی۔

اس وقت گالی گلوچ، ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ پارلیمنٹ سے لے کر سوشل میڈیا سب پر جاری ہے جبکہ پارلیمانی نظام جمہوریت میں سیاسی قیادت میں تدبر، معاملہ فہمی اور عملی گفتگو ایک لازمی جزو کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ مگر صد افسوس کہ پارلیمانی لوگ، غیر پارلیمانی زبان بولتے نظر آر ہے ہیں۔ اب تو لوگ نجی محفلوں میں ازراہ مذاق یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جناب پارلیمانی زبان سے گریز کیا جائے۔ اپوزیشن پرانی فلموں کی طرح ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر ایک ہو نے کا کردار نبھاتے نظر آرہے ہیں۔

سیاسی اکھاڑے میں پرانے اور نئے پہلوان اپنے اپنے داؤ آزماتے نظر آرہے ہیں۔ ایک دوسرے کی کردار کشی کو سیاست کا نام دیا جا رہا ہے ہم دوسرے لفظوں میں اپنی تہذیب بھلا چکے ہیں گو کہ ماضی میں بھی غیر شائستہ زبان کا استعمال رہا لیکن اس دور حکومت میں تو انتہا ہی ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا جو کہ فاصلوں کو سمیٹنے اور تیزی سے معلومات پہچانے کا ذریعہ ہے اس پہ سیاست دانوں پر کیچڑ اچھالنے کا کام سر انجام دیا جا رہا ہے، تصویروں پر لعنت لکھ کر پوسٹ کی جا رہی ہیں یعنی ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ وزارتوں پر بیٹھے لوگ بازاری زبان استعمال کریں گے تو عوام کا تو پھر کیا ہی کہنا۔

پاکستان دنیا کا پانچواں اور جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ جس کی کل آبادی کا 64 فیصد تیس سال سے کم عمر افراد ہیں اور تقریباً 30 فیصد آبادی 29۔ 15 سال کے نوجوانوں پر محیط ہے بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح، بے روزگاری، نشے کی لعنت، شدت پسندی اور فیصلہ سازی میں عدم شرکت نے نوجوانوں کو تعمیری کی بجائے تخریبی سرگرمیوں کی جانب زیادہ راغب کیا جس کی ایک مثال سندھ ہاؤس کے مرکزی دروازے کو توڑنا، اراکین سے استعفی کا مطالبہ اور حکومتی مشنری کے ساتھ براہ راست تصادم ہے اس سے قبل سیالکوٹ میں سری لنکن شخص کا بہیمانہ قتل، چرچ اور مندروں پر حملے اور کسی بھی شخص پر جھوٹا الزام لگا کر جان سے مار دینے جیسے واقعات (بنا یہ جانے کہ وہ شخص ذہنی طور پر ٹھیک بھی ہے کہ نہیں ) میں تخریب کاری اور نوجوانوں کی شمولیت ہے۔ موجودہ حکومت نے عوام کو جہاں بہت سارے مسائل دیے ان میں سے ایک پرتشدد اور تخریبی سوچ بھی ہے جس کے ثمرات کافی عرصے تک عوام کو بھگتنے ہوں گے۔ چلیں اب ذرا ان عوامل پر نظر ڈالتے ہیں جن سے عوام نپٹنے کی اپنی سعی ناکام کوشش کر رہی ہے اور جو عدم برداشت کے ماحول کو بڑھوتی دے رہے ہیں۔

معاشی صورتحال کا جائزہ لیں تو 2021 ء کے عالمی غربت انڈیکس کے مطابق پاکستان 24.7 کے اسکور کے ساتھ 116 ممالک میں 92 نمبر پر ہے یعنی غربت کی سنگین صورتحال ہے اب اگر ہم اپنے پڑوسی ممالک ہر نظر دوڑائیں تو ہندوستان 26.5 اسکور کے ساتھ 101 ویں، بنگلہ دیش اور نیپال 19.1 اسکور کے ساتھ 76 ویں نمبر پر ، سری لنکا 16.0 کے سکور کے ساتھ 65، افغانستان 23.3 کے ساتھ 103 اور ایران 7.7 کے اسکور کے ساتھ 35 ویں نمبر پر ہے۔

آئی ایم ایف سے معاہدہ جو ڈاکٹر حفیظ شیخ نے 2019ء میں کیا تھا اس کی شرائط کے مطابق مہنگائی کے بے لگام گھوڑے کو اب لگام لگانا ممکن نہیں اور نہ ہی امریکہ سے کسی قسم کی ہمدردی کی امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو نظر ثانی کی درخواست کرے گا جب کہ ہم نے روس کی جانب دوستی کا ہاتھ اس وقت بڑھا یا ہے جس وقت ساری دینا بشمول امریکہ روس کا یوکرائن سے جنگ اور حملوں کی مذمت کر رہے ہیں۔ جب کہ آج کے ہمارے وزیراعظم نے کبھی اسی روس کے خلاف چیچنیا میں قتل عام پر کھلے لفظوں میں احتجاج کیا تھا۔ خیر چلیں ایک لمحہ کو فرض کر لیں کہ امریکہ ہمارے کہنے پر مان جائے گا تو ہمیں کیا معلوم وہ اپنی کون سی شرائط منوائے گا؟

اب ہم بات کریں تعلیمی اصلاحات کی تو ہمیں ایک ایسے نصاب کی ضرورت تھی جو ہمارے اسکولوں میں غیر ضروری طور پر مذہب کا استعمال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیر نتیجہ خیز گفتگو کی جانب سے ہماری توجہ ہٹا کے قابلیت اور مہارت کی کمی کو دور کر سکتا نیز زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی شعبے میں افراد کا انتخاب، ترجیحات اور تعلیمی بحران کو دور کرنے کے لیے نظام کو لچکدار بناتا لیکن موجود نظام تعلیم تدریسی متن کو لازمی مضامین میں شامل کرنے سے غالب مذہبی گروہوں سے تعلق نہ رکھنے والے طلبہ میں بیگانگی کے احساس کو برقرار رکھنے نیز، اس کے نتیجے میں اکثریتی طلبا میں احساس برتری اور اور اقلیتی طلبہ میں احساس کمتری پیدا کرنے کا موجب بنے گا۔

صحت کے شعبے کی بات کی جائے تو اس سے کم عمری میں ہونے والی بچیوں کی شادیاں اور شرح پیدائش کی زیادتی نہ صرف آبادی پر قابو پانے کی مہم میں ایک بڑی رکاوٹ ہے بلکہ کم عمر بچیوں میں خواتین کی نسبت حمل سے متعلق صحت کے زیادہ خطرات اور بچوں کو صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں زچہ اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کی بلند شرح کا کم عمری کی شادی سے گہرا تعلق ہے۔ کم عمر شادی شدہ لڑکیوں کو خواتین کی نسبت گھریلو تشدد کا بھی زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ہدایت کردہ پانچ فیصد کی بجائے کل سالانہ بجٹ کا صرف 1.2 فیصد ہی صحت کے اداروں کی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لیے جبکہ تعلیم کے شعبے میں مال سال 20۔ 21 میں صرف 1.5 کل بجٹ رکھا گیا جو کہ ناکافی تھا۔

معاشرہ میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی، ریپ کیسز میں اضافہ، کام والی جگہوں اور تعلیمی اداروں میں خواتین اور لڑکیوں ہراساں کرنا جیسے ان گنت واقعات اور عدم برداشت جیسے معاملات کو سلجھانا اور قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے مگر حکومت صرف قوانین پاس کرنے پر زور دے رہی ہے نہ کہ عمل درآمد کو ۔

سکھر میں ہندو لڑکی پوجا کماری کا اغوا، جبری شادی کے لیے جبری تبدیلی مذہب کے خلاف مزاحمت کرنے پر قتل کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب حکومت پاکستان او آئی سی کانفرنس منعقد کر رہی تھی، ملک میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بیرون ملک مسلمانوں کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال جاری تھا۔

نابالغ لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب اور صنفی بنیاد پر تشدد پاکستان میں ایک دیرینہ اور مستقل مسئلہ ہے۔ ادا رہ برائے سماجی انصاف کے جمع کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2021 کے دوران جبری طور پر تبدیلی مذہب کے کم از کم 78 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 39 ہندو، 38 مسیحی، اور ایک سکھ لڑکیاں /خواتین شامل ہیں۔ سندھ میں 40، پنجاب میں 36 اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ایک ایک کیس سامنے آیا ہے۔ ان واقعات میں 2020 کے مقابلے میں 80 فیصد اور 2019 کے مقابلے میں 50 فیصد اضافہ ہوا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان متاثرین میں سے 76 فیصد لڑکیاں نابالغ تھیں ( 18 سال سے کم) ، اور 33 فیصد 14 سال یا اس سے بھی کم عمر تھیں، مزید برآں، 18 فیصد کی عمر کا ذکر نہیں کیا گیا، اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ جبری تبدیلی مذہب کا شکار ہونے وا لی 94 فیصد بچیاں نابالغ تھیں۔

حکومت اور ریاست کی ذمہ داریوں میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے جان و مال اور مذہبی آزادی کی نہ صرف حفاظت کرے بلکہ اس کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات بھی کرے۔ تاکہ تمام شہری بلا تفریق باہمی احترام، مساوی حقوق اور مذہبی آزادی کے ساتھ پر امن زندگی بسر کرسکیں۔ ایک پارلیمانی جمہوری ملک تب ہی پنپ سکتا ہے جب ملک کی پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا اپنے اپنے کام بہتر طریقے سے سر انجام دے رہے ہوں۔ ادارے مضبوط ہوں، لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر ہو عوام کی بھلائی بالخصوص اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے قوانین نہ صرف بنیں بلکہ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے اقدامات بھی کیے جائیں۔ سیاستدان زبان کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ وہ ایک مہذب معاشرہ کی نمائندگی کر رہے ہیں نہ کہ جاہل۔

اب تو صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ خدا اس ملک اور اس کے عوام پر رحم کرے اور سیاسی قیادت (حکومت اور اپوزیشن) کو وہ فہم عطا فرمائے جس کا فقدان ان دنوں شدت سے نظر آ رہا ہے۔ تاکہ ہم دنیا کے سامنے ایک تہذیب یافتہ قوم ہونے کا ثبوت دے سکیں۔ ایک ایسی قوم جہاں باہمی ہم آہنگی، بھائی چارہ اور امن ہو، جہاں تمام شہری بلا تفریق رنگ، نسل و مذہب کے سکون سے زندگی بسر کرسکے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).