کالج اساتذہ کا مختلف ٹائپ کا دھرنا


کوئی دو ہفتے سے زیادہ وقت بیت گیا جب سے کالج کیڈر کے اساتذہ اپنے جائز حق ( جو کہ پہلے حاصل بھی تھا) کے لئے لاہور سیکریٹیریٹ کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ہمارے ہاں عام طور ”دھرنا“ کی اصطلاح اس عمل کے لئے استعمال ہوتی ہے جس سے لوگوں کی معمولات زندگی میں خلل ڈالا جائے۔ عام لوگ جو پہلے سے پریشان ہیں ان کی زندگی کی مشکلات میں اور اضافہ کیا جائے، لیکن یہ اساتذہ اور پڑھے لکھے لوگوں کا دھرنا ہے۔ یہاں کا ماحول ہی کچھ اور ہے۔ شرکاء اور راہگیر یکساں طور پر رقصاں ہیں۔

دھرنے کو چار چاند لگانے کے لیے ”لال“ بینڈ نے بھی پرفارم کیا اور ساتھ ہی تھیٹر کا پروگرام بھی جاری رہا۔

اساتذہ بھی کمال کے لوگ ہیں ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے پروگرام ترتیب دیتے، گویا کوئی دھرنا نہیں بلکہ کوئی ادبی محفل سجی ہے۔ کچھ استاد شعرا اپنے شعر سنا رہے ہوتے ہیں تو باقی محو رقص نظر آتے ہیں۔ لوک گیت، نغمے اور پنجابی و سرائیکی ٹپوں نے بھی خوب محفل گرمائی ہوتی ہے۔

کچھ دن پہلے شب برات کے موقع پر باقاعدہ نعت خوانی اور مذہبی و معاشرتی اقتدار پر واعظ فرمایا گیا، اور شب برات کی رات خصوصی عبادات اور دعائیں کی گئیں۔ کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا کہ یہ لوگ دھرنا دیے بیٹھے ہیں بلکہ ایسے محسوس ہوتا تھا ایک محلے کے لوگ مل جل کر شب برات منا رہے ہیں۔ جمعہ کے دن جمعہ نماز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔

جہاں دھرنے میں مرد اساتذہ موجود ہیں وہیں پر خواتین اساتذہ بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ وہ نہ صرف دھرنے میں موجود رہتی ہیں بلکہ انتظامی امور بھی سر انجام دے رہی ہیں۔ مقامی خواتین اپنے ساتھیوں کے لئے گھر سے بریانی، پلاؤ اور میٹھا بنا کر لاتی ہیں اور پھر سب لوگ اکٹھے بیٹھ کر کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اس دھرنے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کی یہاں بہت سے ننھے بچے اور بچیاں بھی شامل ہو رہی ہیں اور اپنے والدین کے حقوق کی خاطر یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔

ایسے دھرنے پاکستان میں تو شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ہم سب کو احتجاج کے مہذب انداز کو فروغ دینا چاہیے۔ گو کہ اس سے شاید احتجاج کی شدت میں کمی آ جائے لیکن مستقل مزاجی سے اس شدت کی کمی کو بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔

ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق حکومت کی طرف سے کوئی مثبت جواب تو موصول نہیں ہوا لیکن حکومتی نمائندے کوشش کر رہے ہیں کہ ہمیشہ کی طرح ”لولی پاپ“ دے کر اساتذہ کو گھر بھیج دیں۔ لیکن بظاہر اساتذہ اس بار حکومت کے چکمے میں آنے والے نہیں اور ابھی تک ڈٹ کے کھڑے ہیں۔ کاش کہ حکومت کو یہ بات سمجھ آ جائے کہ ”خوشحال اساتذہ ہی خوشحال پاکستان“ کی ضمانت ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments