حسین، حریتِ فکرِ سماجی شعور اور انسانی مساوات کا وارث


کسی جابر اور آمر کے سامنے مظلوم کا حرف انکار انسانی شعور کی بلندی اور مساوات انسانی کی پہلی منزل ہے۔

تاریخ میں ایسی کسی بھی صدا کی ایک اہمیت ہے، ہر حرف انکار انسانوں کو غلامی اور اطاعت پہ مجبور کرنے والوں کو ناگوار گزرا۔ ان کی کمتر آنا پہ چوٹ پڑی تو وہ اپنے تکبر کے خول سے چنگھاڑتے ہوئے نکلے اور کہیں دار اور کہیں کربلا سجا دی۔

لیکن ہر کہیں ان کی زخمی انا ذلت و رسوائی سے دو چار ہوئی، کہ حریت انسان کا ازلی اثاثہ ہے۔ کوئی جابر انسان اور انسانیت کو حریت فکر سے محروم نہیں کر سکتا۔ کربلا مساوات اور عوام دوستی کی وہ شاندار مثال ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ اپنے جد کی طرح اپنے کنبے کو لیے یوں کھڑے ہوجانا، آساں نہیں۔

تاریخ کا کوئی ایک ہیرو بھی ایسا نہیں جو خود اور اپنی فیملی کو اپنی چوائس سے یوں مقتل میں لے آیا ہو، حسین نے چراغ بجھا کر اس چوائس پہ اٹھنے والے ہر سوال کا جواب دے دیا! اور زینب نے دمشق کے دربار میں خطبہ دے کر اس تاریخی شعور کو ایک نیا موڑ عطا کر دیا۔

حسین انسانی اور اور زینب نسائی شعور کا نمائندہ کردار ہے۔ ہمارے ہاں سماجیات کے علوم کے ماہرین کربلا اور خانوادۂ حسین کو مسلکی الہیات اور مقدسات سے باہر نکال کر زیر بحث نہیں لاتے

اس کی وجہ یہ خوف ہے کہ کہیں وہ بونے نہ رہ جائیں، لیکن یہ ایک دیوار حصار اور بیریئر ہے جو کربلا اور حسین کو انسانیت کا مشترکہ اثاثہ بننے سے روکتا ہے۔ میری یہ تحریر اس سانحہ کو تہذیبی اور سماجی تناظر میں زیر بحث لانے کی ایک کوشش ہے۔

کامیاب بغاوتیں انقلاب ہوتی ہیں۔ ایک رویہ یہ ہے کہ ناکامی کو بغاوت کہہ دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ بہت سے تاریخی معرکوں میں ایسا ہو چکا ہے۔

اس کے لیے دور کی کوڑی یہ لائی جاتی ہے کہ اگر کامیاب ہوتے تو وہ بھی مخالفین کو کچل ڈالتے، یہ دلیل تاریخ کو مسخ کرنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مزاحمت و حرف انکار کس کے خلاف اور کس کے حق کے لیے تھا۔ کربلا! معروف معنوں میں خروج نہیں تھا۔ اس وقت اور بعد کے ہر خروج کے زمانی تقاضوں میں سے کسی ایک پر بھی کربلا کو نہیں پرکھا جا سکتا، یہ صرف اتمام حجت اور حرف انکار تھا، نہ کہ طالع آزمائی۔

کربلا کا یہ سفر اور اس کا قیام بتاتا ہے کہ وہاں صرف ایک خاندان اور اس کے چند ہمدرد تھے۔ جن کی گفتگو میں نہ بزدلی ہے نہ انتقام۔ اس قافلہ کے سالار نہ گورنری کا وعدہ کر رہے ہیں، نہ مال و زر اور غنائم کا لالچ دلا رہے ہیں۔ وہ لوگوں کو ترغیب دے کر پاس بلانے اور روکنے کے بجائے اپنی زندگی بچانے اور مقتل سے بحفاظت نکلنے کا راستہ دیتے ہیں۔

اس مظلوم سالار اور اس کے خاندان کے خلاف تو گزشتہ ایک دہائی سے ایک حکمران طائفہ سرگرم عمل ہے۔ ایک دو سال سے تو اسے سب انجام سامنے دکھائی دے رہا تھا۔ پھر بھی وہ جتھوں اور غنائم کی سیاست نہیں کرتا حق بات کرتا ہے۔ ترغیب و تحریص سے کوسوں دور ہے۔ اپنا اصولی موقف سب تک پہنچاتا ہے اور اس پہ ڈٹ جاتا ہے

یوں ایک مضبوط بادشاہت کو ایک کمزور اور صحرا کی ریت میں کم بلند صدا بھی خوف میں مبتلا کر دیتی ہے خوف بھی ایسا کہ وہ پاگلوں کی طرح چڑھ دوڑتی ہے۔

یاد رہے۔ اس مختصر گروہ کو آسانی سے گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ لیکن خوف تھا کہ قتل کے بغیر وہ ان کے خوف سے نہ بچ سکیں گے۔ تاریخ دیکھتی ہے کہ حرف حق سنگ زن ہو تو ایوان کیسے کانپتے ہیں۔

تاریخ نے حسین، شامی لشکر اور یزید کے بہت سے خطبات محفوظ رکھے ہیں، ان کا تجزیہ یہ واضح کر دیتا ہے کہ مظلوم منتقم نہیں تھا۔ وہ اس چلن کو باور کرانا چاہتے تھے کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہو رہا، ادائے حکمرانی آمرانہ ہے، اور چند برس پہلے کے جمہوری دور سے یکسر مغائر ہے۔

حسین کے سامنے دیکھا بھالا اور جھیلا ماضی تھا۔ شیخین اور حضرت عثمان کا زمانہ اور اپنے والد کے دور کے واقعات تھے۔ انھوں نے مدینہ میں جتھوں کی کارستانی بھی دیکھی تھی۔ جب وہ عثمان رضی اللہ کے لیے پہرا دے رہے تھے۔ وہ جمہوری اور عوام دوست رویوں پہ ایمان رکھتے تھے۔ اس لیے لوگوں کی کمزور نفسیات اور لالچ کے بجائے اصولوں پہ جان دے دی۔ ورنہ کیا تھا۔ کہ وہ کربلا میں اکیلے رہ گئے۔ دوسری صف میں لوگ لالچ اور جبر کی بنیاد پر ہی اکٹھے تھے۔ عرب ایک انقلاب دیکھ کر آئے تھے۔ لیکن عام عربوں نے اس انقلاب میں صرف غنائم دیکھے سو جہاں سے بھی خزانے کا منہ کھلا منصب کی آفر ہوئیں وہ اسی گروہ کے لیے جنگ پہ تیار ہو گئے۔ حسین اس دور انتشار کے ان منفی رویوں کا استثنا تھے جب ریاست بدترین فاشزم پہ آمادہ تھی۔

یاد رہے اس وقت کی ریاست کا تقابل اس سے پہلے کے ادوار سے ہو گا۔ ہم یہ مقابلہ آج کی جمہوری ریاستوں سے نہیں کر سکتے تھے۔ حسین کا خلافت کے لیے کربلا میں سفر تھا نہ کہ وراثت کے لیے۔ وہ سماجی مساوات اور عوام دوستی کے لیے نکلے۔ ان کے اس رویے کو ان کے خطبات اور ان کے فیصلے سچ ثابت کرتے ہیں۔

کیا چراغ کر بجھا اپنے چند ساتھیوں کو شرمندگی سے بچانے والا ہوس اقتدار کے لیے کوئی پلاننگ کر سکتا ہے۔ اس لیے جب بھی کربلا اور حسین پہ بات ہوگی تو ، لازما ہمیں ان کی مظلومانہ شہادت کو ان کی چوائس مان کر بات کرنا ہوگی۔

حسین کی زندگی میں مدینہ سے کربلا تک کہیں بھی ان روایتی طریقوں کا ابلاغ نہیں ملتا۔ جس کا مظاہرہ دوسری صف میں پہلے دن سے ہی تھا۔ اور ہاں اپنے مخالفین سے ان کا رویہ عمومی ذاتی پرخاش کا بھی نہیں۔

حسین کے اس کردار کے حوالے سے بیدل شناسی کی ضمن میں اختر عثمان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔ واقعہ کربلا انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عوام دوست استعارہ ہے۔ کربلا تہذیبی و تاریخی تغیرات سے ماورا ہے۔ واقعہ کربلا نے دنیا کے مظلوموں کو ایک نکتے پہ اکٹھا کر دیا۔ اور عالم انسانیت کو انسان دوستی کا رستہ سجھایا۔ مرزا بیدل اسے عوامی مساوات کا سب سے بڑا ذریعہ کہتے ہیں۔

کربلا کے کردار اپنے مزاج اور انقلابی شعور کی وجہ سے کسی بھی فسطائیت اور آمریت کو قبول نہیں کر سکتے تھے۔ انھوں نے عوام کے حق میں خروج کیا اور آمریت کی بنیادیں ہلا دیں۔

اگر ہم حسین کے خطبات کا تجزیہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ عام آدمی پسے ہوئے طبقے کے حقوق کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، انھیں اس وقت کی آمریت اور سرمایہ داری کا سامنا تھا جو عوام کو پیسے لالچ دھونس دھاندلی ہر طریقے سے گمراہ کرنا جائز سمجھتے ہیں۔

اپنے خلاف پروپیگنڈا مہم کاوہ بہت پہلے سے شکار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو حسین کی شہادت کے بعد پتہ چلا کہ یہ باغی کون ہیں۔

حسین و کربلا مسلمانوں کی ضرورت ہی نہیں یہ تو نوع انساں کی ضرورت ہیں۔ ہمیں کوئی مضبوط دلیل نہیں ملتی کہ حسین کسی قسم کی طالع آزمائی چاہتا تھا جیسا کہ میں نے پیچھے بھی کہا ہے کہ اس زمانے میں غنائم اور عہدوں کی بنیاد پہ یا بشارتوں اور آلہیات کی بنیاد پہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لینا، حسین کے لیے چنداں مشکل نہ تھا۔ تو پھر حسین نے صرف کوفیوں کے خطوں پہ کیوں بھروسا کیا۔ حالانکہ کوفہ و بصرہ کا مزاج یہ خاندان جھیل چکا تھا۔ اقتدار اور اس پہ قبضے کا انجام اسے معلوم تھا۔ اپنی خاندانی روایات اور تعلیم کی بنیاد پہ وہ اپنے مخالفین کا طرز عمل اختیار نہ کر سکتا تھا۔ سو اس نے مقابلے کی کج بحث ڈھیٹ عصبیت کو آخری پتہ نہ کھیلنے دیا۔ اور بیعت سے انکار کر دیا۔

حسین سے بیعت کا تقاضا صرف ضد آنا اور غرور تھا۔ اور حسین اس کے آگے شکست تسلیم کرنے کو جبریت اور فاشزم کو ہمیشہ کے لیے پروانہ دے دینا سمجھتے تھے۔ انھیں پتہ تھا کہ ایسی فاشسٹ مقتدرہ انسانی وقار کو آخری درجے تک گرا دے گی۔ اس سے پہلے وہ ان کے عمومی رویوں کو دیکھ چکے تھے۔ حسین کے بعد اس تحریک سے متاثر فقہا اور علماء نے اموی حکمرانوں اور اعمال پہ جو اعتراض کیے وہ یہی تھے کہ یہ بہت المال سے عیش کرتے ہیں، دربان اور غلام پالتے ہیں، عام آدمی میں نہیں رہتے۔ غریب اور مظلوم پر ظلم کرتے ہیں لعو لعب کے اسیر ہیں۔ یہ سب ایک سماجی اور عوامی بیانیہ ہے۔ اور اس بیانیہ کی حسین کربلا میں توثیق کر چکے تھے۔

جو لوگ سمجھتے ہیں کہ جبر کے سامنے حرف انکار نوع انسان کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے وہ ان کے گرد مذاہب و مسالک کے کھینچے دائروں کو اہم نہیں سمجھتے۔ اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ہزار مسالک و مذہب کا جدل رہا لیکن حسین و کربلا سے انسپائریشن فرقہ وارانہ وابستگی سے بالا رہی۔

وہ مزاحمتی شعور جو کربلا کی مٹی میں لہو سے نم ہوا۔ ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گیا۔ کربلا ایک زمین تھی اب ایک شعور ہے۔ حسین ایک شخص نہیں ایک انقلاب ہے۔ انسانی تاریخ جن سانحات سے شدید طور پہ متاثر ہوئی اس میں کربلا پہلے سانحات میں شامل ہے۔ اس کی وجہ واقعات ظلم ردعمل یا حسین کا کسی مقدس گھرانے سے ہونا نہیں۔

کربلا کے سب متاثرین اس مذہب کے پیروکار نہیں۔ باوجود حسین اور اس کے انسانی مساوات کے شعور کی غلط تشریح کے، مزاحمت کرتی اور فاشزم کے خلاف صف آراء قوتوں نے کربلا اور حسین سے بہت گہرا اثر لیا ہے۔

حسین تاریخی شعور کو ایک جست عطا کر گیا، ایسے ہی کربلا ایک تہذیب کو معتبر بنا گئی۔ کربلا اور حسین تاریخ کے چہرے کا غازہ ہے۔ اس سانحہ سے مورخ کے قلم کو جراءت عطا ہوئی۔ اور کلمۂ حق حرف زن کرنے کا سلیقہ نصیب ہوا۔ حسین قیامت تک ہر حرف انکار کا محافظ اور ہر سلطان جائز کا آئینہ ہے۔

لہو اور حرف کیسے انقلاب اور تاریخ بنتے ہیں، یہ حسین کے حرف انکار اور کربلا پہ گرے حسین اور ان کے خاندان کے لہو نے بتا دیا۔

زمانہ تاریخ اور تہذیب میں نمو اور زندگی دمشق سے نہیں کربلا سے ہے۔
کربلا حیات جاوداں اور دمشق مرگ دوام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments