اماں حاجرہ کا طواف اور ہماری تعبیرات


ہمیں ہر سنت کو معجزہ بنانے کی اور ہر عظیم ہستی کو فرشتہ مان لینے کی عادت ہے۔ ہم فوراً سے پیشتر پیغمبروں کو انسان سے اوپر کی مخلوق مان کر سنگھاسن پر بٹھا دیتے ہیں، ان کو عام انسانوں سے بہتر مرتبہ پر فائز کر دیتے ہیں چنانچہ نتیجہ کار ان کی سنت کو اپنے لئے یہ سوچ کر متروک کر لیتے ہیں کہ وہ تو پیغمبر تھے ہم عام انسان ہیں۔ ہم نے پیغمبروں کی زندگی کے قوانین اور اپنے اعمال میں فرق اسی بنیاد پر رکھا ہیں کہ وہ خدا کی خاص ہستیاں تھیں ہم عام لوگ ہیں۔

اسی طرح ہم نے بی بی ہاجرہ کے پہاڑوں کے چکر کو آفاقی مان لیا اور وہاں سے فوارہ پھوٹنے کو معجزہ مانا اور ہم نے یقین کر لیا کہ خدا نے بی بی ہاجرہ کی تعظیم میں طواف کو فرض کر دیا۔ ہم نے یہ کیوں نہیں جانا کہ خدا نے ایک عورت کے عمل کو حج کا حصہ بنا دیا مردوں کی تمام عبادتوں کو عورت کی سنت کی پیروی کے بغیر ناممکن کر دیا۔ ہمیں ہمیشہ سے ہی مذہب کو اپنی نظر سے دیکھنے کی عادت ہے اور ہم اکثر اس سے وہی اخذ کرتے ہیں جو کسی بھی حیثیت سے ہم کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے یقین کر لیا کہ یہ سب کچھ صرف اور صرف پیغمبروں کی ماں بی بی ہاجرہ کی تواضع تھی اس سے عام عورت کے رتبے اور مقام کا کچھ بھی لینا دینا نہیں۔

مائیں جانتی ہیں کہ زندگی میں کتنی بار وہ اپنے بچوں کی خاطر صحراؤں کی تپتی دھوپ میں ہزار ہا خدشات پال کر کتنے ہی اوپر نیچے کے چکر لگاتی ہیں۔ بیویاں جانتی ہیں کہ کتنی ہی بار شوہروں کے لئے دی قربانیاں ان کے لئے دیس نکالے اور آزمائشوں کا باعث بنتی ہیں۔ ہر عورت جانتی ہے کہ مردوں کے اس معاشرے میں جہاں عورت کے بغیر مرد کا وجود ممکن نہیں مگر مرد کی حاکمیت کے بغیر عورت کی حیات مہیا نہیں وہاں عورت ایک عورت کے طور پر زندگی میں کتنے تپتے صحرا کاٹتی ہے۔ ہم یہ بھی سوچ سکتے تھے کہ خدا نے اس عورت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اس کی سنت کو اسلام کے سب سے بڑے رکن کا حصہ بنا دیا جہاں ہر مرد کو اس ایک عورت کے چلے رستے پر چلنا ہی ہو گا اگر اسے خدا تک رسائی چاہیے۔ مگر ہم نے یہ بہتر جانا کہ اسے صرف اور صرف بی بی ہاجرہ سے منسوب کر دیا جائے اور باقی عورتوں کے لئے اسے عزت کا بہانہ نہ بنایا جائے۔

سچ یہ ہے کہ انسان خسارے میں ہے، وہ سامنے پڑی نشانیوں سے نظر بند کرتا ہے اور احکامات اور سنت کو اپنی مرضی سے وہ معانی دیتا ہے جو اس کے لئے زندگی کے کاروبار میں مفید ثابت ہو سکیں۔ ورنہ کیسے ممکن تھا کہ جس مذہب کا آغاز علم سے ہو اس کی عورتوں پر علم اور درسگاہیں تنگ ہو جائیں۔ جس مذہب کا علم سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ جیسے اساتذہ سے شروع ہوا ہو اس میں تمام تر علم و ہنر کے مالک صرف مرد بن بیٹھیں، جس میں فیصلے مردوں کے ہو جائیں، قبیلے اور کاروبار صرف مردوں کے رہ جائیں، حقوق مردوں کی جھولی میں چلے جائیں اور فرائض عورت کی جھولی میں رہ جائیں۔ جس مذہب کا والی اپنی بیوی سے مشورے طلب کرتا ہو اس مذہب کی پیروکار عورت صرف کھانے بنانے اور لبھانے تک محدود ہو کر رہ جائے۔ عورت سے اپنی زندگی کے فیصلوں کا اختیار چھن جائے۔ گھر کی چاردیواری سے باہر اس کی جگہ ختم ہو جائے، اسے ایک ہی کمرے میں جینے اور اسی میں مرنے کی دعائیں دی جائیں۔ انسانوں نے عورت پر جتنے ظلم کیے ہیں ان میں سے بدتر ظلم وہ ہیں جو طاقتور کے مفاد کی خاطر، اور مرد کی اجارہ داری کو مضبوط کرنے کے لئے مذہب کہ نام پر کیے گئے۔

ہم نے ایک ظلم اور کیا کہ مولوی سے دنیا کا، فزکس اور کیمسٹری کا علم چھین لیا چنانچہ آج تک مذہب کا سارا علم جنت اور جہنم، گناہ اور ثواب کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ چنانچہ موت کو بھول جائے انساں تو مذہب کو کہیں دیکھ ہی نہیں پاتا کہ سارے احکامات اور فرائض تو صرف بعد از موت جنت کما نے اور جہنم سے بچنے کے لئے ہیں اور جب انسان موت کو ہی بھول بیٹھا تو اچھے اور برے کاموں کی کوئی توجیہہ ہی نہ رہی۔ چنانچہ ہماری اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پبلک کبھی یہ سمجھ ہی نہ سکی کہ دین ایک اخلاقی کتاب ہے۔ ایک مینول ہے۔ جیسے گاڑی لی جائے اور اس کا مینول نہ پڑھا جائے یا آٹو میٹک واشنگ مشین لی جائے اور اس کے ساتھ کا تربیتی کتابچہ نہ کھولا جائے تو مشین کیسے چلے گی سمجھ ہی نہیں آتا، کوئی خرابی ہو گی تو کیا کرنا ہے اس کے لئے بار بار اس کتابچے کو کھولنا ہی پڑتا ہے۔ اسی طرح انسان اور دنیا کے ساتھ تربیتی کتابیں اتریں جو یہ بتاتی ہیں کہ کس دروازے کے پیچھے ٹینشن ہے، کس کے پیچھے سکون، کہاں ڈپریشن چھپا ہے اور کہاں قرار، کسی رستے پر کامیابی ملے گی کس پر ذلت اور یہ ساری رہبری اس دنیا کی زندگی کے لئے تھی صرف جنت اور جہنم کے لئے نہیں تھی۔

آج ہم موٹیویشنل اسپیکر کو سنتے ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ دوسروں کے کام آؤ تو خوشی ملے گی۔ اور ہم ان پر یقین کرتے ہیں۔ مگر جس مذہب کے نام پر اس معاشرے میں اس قدر ظلم برپا ہے اس کی بات پر آج تک کوئی یقین نہیں کر سکا کیونکہ کوئی اس طرح آسانی سے سمجھا ہی نہ سکا۔ ہم اتنی سی معمولی بات نہ سمجھ سکے اور آج ہمارے معاشرے میں گھٹن، ظلم، نا انصافی بھری پڑی ہے کہ انسانوں نے معاشرہ اور زندگی برتنے کا علم نہ سیکھا۔ محض جانوروں کی طرح لوٹ لو کھا لو، نوچ لو کی فلاسفی پر ہی چلتے رہے۔ چنانچہ آج اس ریاست میں قیامت برپا ہے تو وہ اسی اخلاقی پستی اور جہالت کے سبب ہے کہ ہم جان ہی نہ سکے کہ انسان، معاشرے اور زندگیاں کن اصولوں کے تحت آسان اور خوبصورت اور محفوظ بنائی جاتی ہیں، کن اعمال کی کثرت زندگیوں کو پریشانی، دکھ اور تکلیف سے بھر دیتی ہے اور کون سے اقدام معاشروں اور لوگوں کو ذلت اور پستی میں دھکیل دیتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے لئے تمام تر مذہب نام کے ساتھ حاجی لگانے، پردہ کرنے، داڑھی رکھنے، اور مرنے کے بعد اعمال کی بنیاد پر جنت اور جہنم جانے تک محدود رہا۔ چنانچہ ہم نہ جان سکے کہ زندگی بھی انہی اعمال کے ساتھ بننی تھی جو ہم سے نہ بن سکی۔ جو رستہ ہم سر اٹھا کر عزت سے پار کر سکتے تھے وہ ہم نے ذلت اور پستیوں میں ڈوب کر پار کیا۔

انسانی کردار کی تشکیل کی جاتی تو انسانوں کی ذاتی زندگیوں میں سکون اور امن قائم ہو جاتا اور بہت سے پرسکون لوگوں کا گروہ ایک پرسکون اور امن پسند معاشرہ بناتا۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہی ہے کہ یہ زندگی کے بنیادی فلسفے، مذاہب کی وجوہات، پیغمبروں کی اور ان کی سنت کی ضرورت کے اصل معانی نہ سمجھ سکا۔ اگر ہم یہ سمجھ لیتے کہ پیغمبر اس لئے اتارے گئے تھے کہ ہم ان کے ماڈل پر اپنی زندگیوں کو ترتیب دے لیں، تو ہمارے معاشرے کے رنگ ڈھنگ بدل جاتے۔ مگر ہم اپنے دو صدیوں پرانے برصغیری کلچر سے تو آج تک چمٹے ہیں مگر اپنے صدیوں پرانے دین کو محض ایک بہترین زندگی کا نسخہ سمجھ کر آج تک نہ اپنا سکے۔ جو جہالت برصغیر کے مسلمانوں میں تقسیم سے پہلے تھی آج کے پاکستان میں اس سے چار گنا زیادہ ہے۔ کیونکہ پچھلے ستر سالوں میں اس قوم کو علم دینے کی کوشش کسی سرکار کسی پارٹی نے نہ کی۔ مفاد اور طاقت کے کھیل میں ہر کسی نے اس معاشرے کو پیچھے سے پیچھے دھکیلا۔ تعلیم محض کچھ صفحات رٹا لگا کر ڈگری اور نوکری حاصل کرنے تک محدود رہ گئی اس میں تربیت کا عنصر بھی غائب ہو گیا۔

آج کا پاکستانی اپنے آبا و اجداد سے زیادہ ذہنی ابتری اور کم علمی کا شکار ہے۔ تقسیم سے پہلے ہمارے لیڈران اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ آج ہمارے لیڈران کم تعلیم یافتہ سرمایہ داران بن چکے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ رہبر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ یہ اس قوم کی پستی کی کھلی علامات ہیں کہ جو کل گورے سرکار کے انگلینڈ میں پیسہ اکٹھا کرنے پر تلملا اٹھتے تھے اب اپنے ہی چنے ہوئے براؤن صاحبان کے سرمائے دبئی، لندن، آسٹریلیا اور امریکہ میں بھر لینے کو غلط نہیں سمجھ پاتے۔ اس قوم کو ہمیشہ محض استعمال کیا گیا تا کہ طاقت طاقتور کے ہاتھ میں ہر طرح سے سمٹی رہے۔ پھر چاہے ان کا علم روکا جائے یا شعور! ان میں نفرت پھیلائی جائے یا آگ بڑھائی جائے۔

گورے نے تو ہندو مسلم میں تقسیم کیا تھا ہمارے براون صاحبان ستر سالوں سے محلے، زبان، شہر، رنگ، نسل، کاروبار، پارٹی ہر طرح کی تقسیم در تقسیم کرتے چلے آ رہے ہیں تا کہ ان کی طاقت کو کوئی للکار نہ سکے۔ جن پر ذہنی شعور اور انسانی سربلندی کبھی اتر نہ سکی نہ اتاری گئی۔ ایک ایسی قوم جنہیں کبھی بھی کسی پلیٹ فارم پر سکھانے، سمجھانے یا علم دینے کی کبھی کوئی مخلص کوشش نہ کی گئی۔ جن کی سوچ، شناخت، مذہب یا وراثت ان کی ذاتی اور اجتماعی زندگیوں کو بہتر کرنے میں کام نہ آ سکی وہ معاشرے کیا سنواریں گے۔ ظلمت میں ڈوبے لوگوں کے گروہ ایک ظلمت بھرا معاشرہ بناتے ہے۔ جو ایک فاتحانہ جنگ لڑنے کی مذہبی پیش گوئی پر یقین رکھتے ہیں مگر مذہب کو ذاتی زندگیوں میں بالکل دخل نہیں دینے دیتے۔

پاکستان میں ایسے دانشور طبقے کا قحط ہو رہا ہے جو قوم کی صحیح راہ متعین کر کے ان کی رہبری کر سکی۔ پوری قوم صرف سیاست اور شوبز کی نذر چڑھ چکی ہے۔ کسی پلیٹ فارم کسی بھی میڈیم پر کوئی ایسی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی جو قوم کے شعور میں اضافے کی کوشش میں مگن ہو۔ درحقیقت جتنی آج اس قوم کو ایک تھنک ٹینک کی ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ آج ہمارے معاشرے کو ایسے اعلی ذہنوں کی رہنمائی کی ضرورت ہے جو تیز و طوفانی آوازوں میں سے سچ کی تمیز کرنے کی سمجھ دے سکے۔ جو اس نا خواندہ معاشرے میں شعور انڈیل سکے۔ ہمارے ذی شعور دماغوں کو سیاست سے آگے بڑھ کر اس قوم کی ذہنی بالیدگی پر بھی محنت کی ضرورت ہے جو ان میں سوچنے کی، جاننے کی، اور اخذ کرنے کی صلاحیت کو بیدار کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments