ایک تیر سے تین شکار


پچھلے کچھ دنوں سے حکومت ہو یا چاہے اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں غیر جمہوری فیصلے کر رہی ہیں۔ سیاسی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو رہی ہے۔ جس تیزی سے سیاسی صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اس سے بھی زیادہ تیزی سے سیاستدان اپنے فیصلے تبدیل کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں اور سیاستدان چاہے اپوزیشن سے ہو یا حکومت سے پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔

اس وقت ان مشکل حالات میں بھی حکومت کو فکر ہے کہ کیسے اپوزیشن کو تنگ کیا جائے۔ کیسے اظہار رائے پر پابندی مزید سخت کی جائے۔ کیسے مخالف چینلز کو بند کر کے اختلاف رائے کا گلا گھونٹا جائے۔ یہ اقدامات ایک خودکش طرز عمل کی جانب اشارہ کر رہے ہیں اور لگتا ہے حکومت اپوزیشن کی مدد کے بغیر اپنے آپ کو گرانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جبکہ اپوزیشن حکومت کو گرانے کے لئے خود بھی کسی بھی حد تک گرنے کے لئے تیار ہے۔ کوئی اصول نہیں کوئی ضابطہ نہیں۔ موجودہ حالات میں جو جو جس لبادے میں تھے سب سامنے آ گئے۔

عوام سمجھتے ہیں کہ سیاستدان سیاست عوام کے مفاد یا کسی نظریے کے لیے نہیں بلکہ اقتدار، اختیار اور طاقت کے حصول کی خاطر کرتی ہے۔ سیاست دانوں کی کردار کشی باقاعدہ حکمت عملی کے تحت ہو رہی ہے۔ سیاستدانوں کی تذلیل مستقبل میں معاشرے کے بگاڑ کا سبب اور دنیا میں قوم کی بدنامی کا باعث بننے والا عمل ہے۔ سیاستدانوں کو یہ بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ ان کے سیاسی رول کو کم کرنے کے لئے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ سیاست لڑنے جھگڑنے اور مرنے مارنے کا نام نہیں بلکہ مسائل کا حل جمہوری انداز میں گفت شنید سے کیا جانا ایک دوسرے کو برداشت کرنا ایک دوسرے کی بات سننا مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا یہی سیاست ہے اور جمہوریت کا حسن بھی، لیکن ہمارے ہاں جمہوریت کی شکل ہی بگڑتی جا رہی ہے۔

سیاسی اختلاف رائے جب کردار کشی میں بدلتی ہے تو جمہوری و سیاسی نظام کو گالی بنانے جیسا ہے اور جمہوریت کے دشمن ہی ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ اس کھیل میں دو فریق اپوزیشن جماعتیں اور حکومت نہیں ہے بلکہ سب سے اہم تیسرا فریق جو بظاہر اپنے آپ کو نیوٹرل کہ رہا ہے۔ وہ بڑے پر اعتماد انداز میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ہینڈل کر رہا ہے۔ وہ ایک پروڈیوسر کی طرح ہیرو، عوام اور ولن سب کو خوبصورتی سے کنٹرول کر رہا ہے۔

اور اب اس کے اختیارات اور طاقت بارے عوام بھی آواز اٹھا رہی ہے، اپوزیشن اور حکومت دونوں اسٹیبلشمنٹ کے توقعات کے عین مطابق کام کر رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ صدارتی نظام اور اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کے لئے سازگار ماحول بنا رہی ہے۔

پاکستان میں کچھ عرصہ سے صدارتی نظام کے حوالے سے باتیں کی جا رہی ہے۔ حکومت سازی کے لئے آئین میں واضح طریقہ کار درج ہے۔ آئینی طریقہ کار سے ہٹ کر کوئی دوسرا نظام لانے کی غیر آئینی کوشش ملک کی سلامتی کے لیے ٹھیک نہیں ہو گا۔ موجودہ صورتحال کے پس منظر میں ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت صدارتی نظام کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اور اس کے بعد آئین میں 18 ویں ترمیم کے خاتمے صوبوں کو دیے گئے اختیارات کی واپسی جیسے اقدامات ملک کی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہو گی۔

غربت کی ایک نفسیات یہ بھی ہے کہ ہر امیر آدمی کرپٹ اور چور دکھتا ہے۔ اصلی اقتدار پر مستقل قابض ٹولے نے اسی نفسیات کو استعمال کرتے ہیں اور جہاں اس سے کام نہ چلے وہاں مذہب یا غداری کا کارڈ استعمال ہوتا ہے۔

کچھ دوست کہتے ہیں موجودہ صورتحال پنڈی اور پشاور کی درمیان مستقبل میں اختیارات کی ہے اس بات میں مجھے وزن اس لیے بھی نہیں لگتا کہ اداروں کے پیچھے منظم دماغ ہوتے ہیں ان کے پاس وسائل ہوتے ہیں۔ فیصلہ سازی کے حوالے سے ان کے پاس ان کا اپنا ایک طریقہ کار ہے۔ ادارے میں چیف کے فیصلوں کی ہی اہمیت ہوتی ہے۔ جبکہ سیاسی جماعتیں اور سیاستدان اتنے منظم نہیں ہوتے کہ وہ ان اداروں کا مقابلہ کر سکے۔

ان کا مقابلہ کرنے کے لئے سیاستدانوں کو اپنے اپ کو منظم کرنا ہو گا۔ پارٹی میں اصلاحات لانا ہو گا۔ شخصیات کے بجائے نظریات کی سیاست کرنی ہو گی۔ سیاسی جماعتوں کو گراس روٹ لیول سے اپنے اپ کو منظم کرنا ہو گا۔ پارلیمنٹ کو با اختیار بنانا ہو گا۔ پارلیمنٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا سکتا ہے۔ جب پارلیمنٹ اور سینیٹ بیانیے کی تشکیل اور تنازعات کو سلجھانے میں اپنا قائدانہ کردار ادا نہیں کرتی تو پھر ایسا خلا جنم لیتا ہے جس سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

ہمارے لیڈرز سویلین بالادستی تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن سویلین بالادستی کی علامت پارلیمنٹ کو انہوں نے کبھی بھی اہمیت نہیں دی۔ اور سیاستدانوں کی ان کمزوری سے ادارہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہ ادارہ اپنے اختیارات اور طاقت کے حصول کے چکر میں معاشرہ تقسیم کرنے کے سبب بنتا ہے۔ ادارے کی کوشش ہوتی ہے کہ سیاستدانوں کو اپس میں لڑا کر اپنے مفادات حاصل کیے جائیں۔ جس ملک کی قیادت معاشرے کو تقسیم کر کے وجود میں آئے، نفرت سکہ رائج الوقت ہو، دلیل ملکی سلامتی کے لئے خطرہ ہو، آزادانہ سوچ ریاست سے بغاوت ہو۔

اس طرح قوم انتشار کی طرف جاتی ہے نہ کہ اتحاد کی طرف، وہاں ایک کی کامیابی دوسرے کی ناکامی سمجھی جاتی ہے اس سے بڑی ملک کے لئے بدنصیبی نہیں ہو سکتی۔ ادارے ملکی سیاست میں بونوں سیاستدانوں کو اگے لانا پسند کرتے ہیں اور یہ اس لیے کہ بونے سیاستدان ان سے سوال نہیں کرتے ان کے ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ ایسی ریاست جو اپنے شہریوں کو صرف اس لیے بونے بنا کر رکھتی ہے تاکہ وہ اطاعت شہر رہیں اسے یاد رکھنا چاہیے کہ چھوٹے لوگوں سے کوئی بڑا کام نہیں لیا جا سکتا۔

روس کے ماضی میں کئی ٹکڑے ہوئے۔ اس کی ایک ہی وجہ تھی وہ وجہ صرف معاشی بد حالی تھی۔ جرمنی دو حصوں میں تقسیم تھا لیکن ایک ہو گیا اور اس کی وجہ بھی صرف ایک تھی اور وہ وجہ تھی معاشی خوشحالی۔ ملک کو فوج یا اسلحہ نہیں بچاتا بلکہ ملک کو معاشی استحکام بچاتا ہے۔ یہ بات سمجھنی چاہیے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ملکی معیشت جس عدم توجہی کا شکار ہوئی ہے اس کی وجہ سے ملک معاشی بحران سے دوچار ہو سکتا ہے۔ ملک کے حالات ٹھیک نہیں سیاسی عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے۔ کیا موجودہ حالات میں ہم سیاسی عدم استحکام کا متحمل ہو سکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ارباب اقتدار کو تلاش کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments