کپتان کی کمزور ریاضی یا گھبراہٹ؟


دو باتوں میں سے ایک یقینی طور پر درست ہے۔ کپتان یا تو گھبرا چکے ہیں اور یا پھر ان کی ریاضی بالکل زیرو ہے۔ کپتان کی سیاسی زندگی کے سرسری جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ بیک وقت دونوں باتوں کے درست ہونے کا امکان موجود ہے۔ مصیبت میں گھبرانا اگر واقعی بڑی مصیبت ہے تو کپتان بڑی مصیبت مول لے چکے ہیں۔

جدید دنیا کی درسگاہوں میں تنازعات کو امکانات میں تبدیل کرنے کا ہنر پڑھایا جاتا ہے۔ ہنر اور جذبہ موجود ہو تو تنازعات کو روشن مستقبل میں تبدیل کرنا حقیقتاً ممکن ہے۔

عثمان بزدار کو جس طریقے سے منظر سے ہٹایا گیا اس نے ایک مرتبہ پھر کپتان کی سیاسی بصیرت پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ بزدار صاحب کو ہٹانا اگر پیش نظر تھا تو اس کے لئے فضاء بنانے کی شدید ضرورت تھی۔ سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت وقت کی ہوتی ہے۔ کچھ فیصلے اگر ناگزیر ہو جائیں تو ان کے لئے آہستہ آہستہ حالات بنائے جاتے ہیں۔ یک دم تین سو ساٹھ کے زاویے پر گھوم کر بندہ واپس اپنی حالت پر آ جاتا ہے، معاملہ اگر سیاست کا ہو تو اس دوران خود کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیتا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کا شور اٹھا تو کپتان نے عوام کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک بہترین فیصلہ تھا لیکن اس فیصلے کے کچھ اور تقاضے بھی تھے۔ چاہیے تھا کہ کپتان اپوزیشن کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیتا، اپوزیشن کو اپنے بندے توڑنے کی کھلی چھوٹ دیتا اور اصولی موقف لے کر عوام کو بتاتا کہ حکومت کی خاطر وہ اصولوں کو ردی کے ٹوکرے میں ڈالنے کو تیار نہیں۔ کپتان اتنا کام کر گزرتا تو باقی سب کچھ کپتان کے عاشقان سنبھال لیتے۔ اس طرح کپتان کے لئے ہمدردی کی لہر میں مزید شدت آتی اور کپتان اگلے الیکشن میں زیادہ طاقتور بن کر ابھرتا۔ کپتان نے روایتی سیاسی چال چل کر خود کو بہت نقصان پہنچایا۔

عثمان بزدار کی جگہ چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلی نامزد کرنے کے فیصلے سے کپتان کو بے پناہ نقصان اٹھانا پڑے گا اور اس سے بہ ظاہر کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ کپتان پر سے ان کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کا اعتماد اٹھے گا۔ وہ لازمی طور پر سوچیں گے کہ کپتان خود کو بچانے کے لئے کسی کو بھی کسی بھی وقت قربان کر سکتا ہے۔

عثمان بزدار کو ہٹانے کا مقصد خود کو بچانا ہے لیکن کیا کپتان اس فیصلے سے بچ جائے گا؟ اس کو سمجھنے کے لئے زیادہ نہیں بس تھوڑی جمع تفریق کی ضرورت ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کی جماعت کے پاس پانچ ایم این ایز ہیں جن میں سے ایک نے علی الاعلان بغاوت کر دی ہے۔ چیمہ صاحب کے مطابق وہ پاکستان چھوڑ دیں گے لیکن کپتان کو ووٹ نہیں دیں گے۔ رہ گئے چار، تو ان میں بھی چوہدری شجاعت حسین کا جھکاؤ اپوزیشن کی طرف ہے۔ چلیں فرض کر لینے ہیں کہ یہ چار ووٹ کپتان کو پڑیں گے بلکہ یمہ صاحب کو ملا کر پانچ کر لیں۔ باپ کے پانچ ارکان میں سے چار نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ شازین بگٹی کو ملا کر پانچ ہو جائیں گے اور یوں مسلم لیگ قاف کا معاملہ بیلنس ہو گیا۔

جس وقت یہ مضمون لکھا جا رہا تھا اس وقت ایم کیو ایم نے ابھی فیصلہ نہیں کیا تھا اور وہ کسی بھی جانب جا سکتے ہیں۔ بلوچستان سے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے ایم این اے اسلم بھوتانی نے بھی اپوزیشن کے ساتھ اکٹھے پریس کانفرنس میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ یوں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کو ہٹا کر اپوزیشن کے اس وقت ممبران کی تعداد 168 ہو گئی ہے۔ حکومت سے منحرف ارکان کی تعداد تیس بتائی جاتی ہے لیکن درجن سے زائد نے تو میڈیا پر آ کر عدم اعتماد کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

ان میں سے پانچ لوگ عدم اعتماد کے حق میں ووٹ ڈال دیں تو کپتان فارغ۔ فرض کریں کہ مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور باپ تینوں ہی حکومت کی حمایت کریں تو بھی حکومت کی عددی برتری ختم کرنے کے لئے اپوزیشن کو حکومت کے گیارہ منحرف ارکان کی ضرورت ہے۔ اس لئے اگر کوئی جادو نہیں چلتا تو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یقینی دکھائی دیتی ہے۔

ایسے میں پرویز الٰہی اگر وزیراعلی بن بھی جائیں تو وفاق میں شہباز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے وہ کتنے دن نکال سکیں گے؟ وفاقی حکومت کی تبدیلی کے بعد یہ نئی حکومت پر منحصر ہو گا کہ وہ کتنے دن پرویز الٰہی کو وزیراعلی رکھنا چاہیں گے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی دس نشستوں والے کو کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ لہذا جب بھی شہباز شریف اور زرداری کا موڈ بنا پرویز الٰہی کو گھر بھیج دیں گے۔

کپتان کی ریاضی کمزور ہے یا وہ گھبرا گیا ہے، جو بھی ہے اگر کوئی انہونی نہیں ہوئی تو وفاق اور پنجاب دونوں کپتان کے ہاتھ سے نکلنے کو ہیں، عثمان بزدار کی قربانی رائیگاں جاتی دکھائی دیتی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments