ماہ رمضان اور روزہ داروں کے خود ساختہ مسائل


ماہ رمضان کی آمد ایک بار پھر نزدیک ہے اور اس حوالے سے مومنین اور مومنات میں والہانہ جوش و جذبہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ اسلام کے پانچ اراکین میں سے ایک ہے اور ہر مسلمان عاقل بالغ اور صحت مند مسلمان مرد و عورت پر فرض بھی ہے۔ ماہ رمضان کے ساتھ مسلمانوں کے والہانہ لگاؤ کا سبب وہ قرآنی آیات اور احادیث ہیں جن میں روزے کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثال کے طور پر :

اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ ( سورہ بقرہ : 183 )

اس آیت کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ روزہ وہ عبادت ہے جو مسلمان کو پرہیزگار بناتا ہے۔

اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔
(نسائی، السنن، کتاب الصیام، 2 : 637، رقم : 2230، 2231 )
یہ حدیث واضح کر رہی ہے کہ اگر آپ روزہ رکھتے ہیں تو گویا خود کو جہنم کی آگ سے محفوظ بناتے ہیں۔

مندرجہ بالا قرآنی آیت اور روایت دونوں سے ظاہر ہے کہ روزہ بندے کی جانب سے خدا کی خوشنودی کے حصول کی خاطر کی جانے والی ایک کوشش، اور اس کے ساتھ ساتھ، ایک مسلمان کے ایمان کی رو سے خدا کی پسندیدہ عبادتوں میں سے ایک ہے۔ اگر آپ مسلمان ہیں اور خدا کی خوشنودی کے حصول کی خاطر روزہ رکھتے ہیں تو یقینی طور پر آپ نا تو خدا پر اور نا ہی اس کے بندوں پر کوئی احسان کرتے ہیں بلکہ اس میں سراسر آپ کا اپنا ذاتی فائدہ ہے کیونکہ پرہیزگاری اپنا کر ہی آپ اپنے رب کو راضی کر سکتے ہیں اور رب کو راضی کرنے کے بعد ہی دوزخ کی آگ سے چھٹکارا اور جنت کی متعدد نعمتوں کا حصول ممکن ہے۔

اگر آپ مالی طور پر آسودہ اور جسمانی طور پر صحت مند ہیں اور شیطان کے بہکاؤں سے بھی محفوظ ہیں تو یقینی طور پر آپ بے حد خوش قسمت ہیں کیونکہ اب آپ کو دنیا کی کوئی طاقت روزہ رکھنے سے اور رب کی خوشنودی کے حصول سے نہیں روک سکتی۔ اگر ملازمت آپ کی مجبوری نہیں ہے تو ماہ رمضان میں سحری اور نماز فجر سے فراغت کے بعد آپ اپنی نیند پوری کر سکتے ہیں اور نماز ظہر کے بعد نوافل اور تلاوت قرآن پاک کی برکتوں سے بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سرکاری، نیم سرکاری یا نجی ادارے میں بھی ملازمت کرتے ہیں تو ادارے کی جانب سے ماہ رمضان میں خاص مراعات کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ ماہ رمضان میں نا صرف ڈیوٹی کے اوقات مختصر کر دیے جاتے ہیں بلکہ عبادتوں

خاص کر نماز کی ادائیگی کی سہولیات بھی بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ مگر ان تمام تر آسانیوں کے باوجود ایک بہت بڑا مسئلہ جس کا سامنا آپ کو کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ چونکہ مالی طور پر کافی حد تک آسودہ ہیں لہذا چٹ پٹے مرغن پکوان سال کے بارہ مہینے آپ کی دسترس میں رہتے ہیں آپ چونکہ ان چٹ پٹے ذائقوں کے اس حد تک عادی ہوچکے ہیں کہ ماہ رمضان میں محض چند گھنٹوں کے لئے ان سے پہلو تہی آپ کو سوہان روح محسوس ہوتی ہے۔ آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ دوران روزہ آپ پوری دل جمعی کے ساتھ رب کی خوشنودی کے حصول پر کمربستہ رہیں اور آپ کے دل میں چٹ پٹے پکوانوں سے لطف اندوز ہونے کی خواہش کسی صورت انگڑائی نا لینے پائے لہذا آپ اس بات کے پرزور حامی ہوتے ہیں کہ ماہ رمضان میں کوئی بھی شخص گھر میں، دفتر میں، تعلیمی ادارے میں یا سڑک پر کھاتا پیتا نظر نا آئے کیونکہ اس کا یہ قبیح فعل مثل ابلیس روزے سے پیدا ہونے والی تمام تر پرہیزگاری کے باوجود آپ کے دل میں بھی کھانے پینے کی خواہش پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

روزہ چونکہ رب کی خوشنودی کے لئے رکھا جاتا ہے لہذا کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ روزہ دار کے سامنے کھانے پینے کی جرات کرے اس بات سے قطع نظر کہ وہ شخص ذیابطیس کا مریض ہو اور اسے مخصوص وقت پر خوراک اور دوا کی ضرورت ہوتی ہو، یا پھر وہ کسی ایسی بیماری کا شکا رہو جس کے باعث بار بار پانی پینا اس کی مجبوری ہو، یا پھر وہ چھوٹے چھوٹے بچوں کا باپ ہو اور ایک دیہاڑی دار مزدور ہو جو سحری اور نماز فجر سے فراغت کے بعد اپنی نیند پوری کرنے سے قاصر ہو اور چلچلاتی دھوپ میں گڑھے کھودنے، سامان ڈھونے اور لیٹرز کے حساب سے پسینہ بہانے پر مجبور ہو، یا پھر وہ کوئی غیر مسلم ہو جس کا مذہب اسے ماہ رمضان میں روزے رکھنے کا حکم نہیں دیتا، یا پھر وہ کوئی ایسی عورت ہو جو ماہواری کے باعث روزے رکھنے سے گریزاں ہو یا پھر وہ کوئی ایسا شخص ہو جو مسلمان خاندان میں جنم لینے کے باوجود اور تمام تر آسانیاں میسر ہونے کے باوجود روزہ رکھنے کی خواہش اپنے اندر نا پاتا ہو۔

غرض ایسے تمام افراد جو کسی بھی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے یا رکھنا نہیں چاہتے ماہ رمضان میں مجبور کر دیے جاتے ہیں کہ وہ روزہ نا ہونے کے باوجود یا تو مکمل طور پر کھانے پینے سے گریز کریں یا پھر چوروں کی طرح ایسے کھائیں پئیں کہ روزہ دار ان کے اس قبیح فعل کی ہوا بھی نا پا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ احترام رمضان کے نام پر ماہ رمضان میں اکثر و بیشتر عوامی مقامات پر نا صرف ہوٹل بند کر دیے جاتے ہیں بلکہ پینے کے پانی کی ٹنکیاں اور کولر بھی ہٹا لئے جاتے ہیں اور ایسا کرتے وقت بالکل نہیں سوچا جاتا کہ پینے کے پانی کی عدم فراہمی کے باعث روزہ نا رکھنے والے افراد مشکلات کا شکار ہوسکتے ہیں اور شدید ڈی ہائیڈریشن کا شکار کوئی بھی شخص زندگی کی بازی ہار سکتا ہے۔

احترام رمضان کے نام پر عائد شدہ پابندیوں کے باوجود اگر کوئی شخص بھولے بھٹکے کھاتا پیتا نظر آ جائے تو اسے نیک و پرہیزگار روزے داروں کی جانب سے نا صرف طنز و تشنیع کے تیر سہنے پڑتے ہیں بلکہ اکثر وہ بیشتر امر با المعروف و نہی عن المنکر کے نام نہاد علم برداروں کی بن بلائی اور بنا سوچی سمجھی تبلیغ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو اکثر و بیشتر افراد کو ناگوار محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس تبلیغ میں تمام باتیں عموماً وہی ہوتی ہیں جو مسلمان گھرانے میں جنم لینے والا ہر شخص بچپن سے ہی جانتا ہے۔ اگر ماہ رمضان میں کھاتے یا پیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا جانے والا شخص معاشرے کے کسی کمزور طبقے سے تعلق رکھتا ہو تو اسے عوامی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے اور بعض اوقات نوبت پولیس اور تھانے کچہری تک بھی جا پہنچتی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ مسلمان ہیں، روزے کی اہمیت سے واقف ہیں، اسے خدا کی رضا و خوشنودی کے حصول کا ذریعہ مانتے ہیں اور آخرت میں اجر و ثواب کے حصول اور دوزخ کے عذاب سے نجات کی خاطر لذتوں کی قربانی دیتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں تو پھر کسی بھی شخص کا ماہ رمضان میں کسی بھی وجہ سے کھانا یا پینا آپ کے لئے ذہنی تکلیف اور پریشانی کا باعث کیوں بنتا ہے؟ روزہ رکھ کر دوسروں کی بھوک اور پیاس کا احساس کرنے کے بجائے آپ دوسروں پر زبردستی ان چاہی بھوک اور پیاس کیونکر مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ جبکہ ایک اسلامی ملک جہاں ہر شخص روزے کو ایک فرض اسلامی عبادت تسلیم کرتا ہے اور اس کے باوجود کسی مجبوری کے باعث روزہ رکھنے سے قاصر ہے یا رکھنا نہیں چاہتا تو یقینی طور پر اس کے اس فعل کی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی اور نا ہی خدا کے حضور آپ دوسرے افراد کے اس فعل کے لئے جوابدہ ہوں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments