تحریک عدم اعتماد اور ملک گیر احتجاج کی کال: کل کیا ہو گا؟


اس سوال کا مختصر ترین جواب تو یہ ہے کہ ”کل عدم اعتماد ہو گا اور بہت امید ہے کہ دیسی مسولینی اپنے گھر جائیں گے۔“

مگر تھوڑی سی بات اس سراسیمگی پر جو سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی ہے جس میں مزید اضافہ جناب عمران نیازی صاحب نے ابھی چند منٹ قبل خطاب نے کیا جب انہوں نے ”نوجوانوں“ کو ملک گیر احتجاج کی کال دی اور پاشا تحریک انتشار کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس انہیں کل ڈی۔ چوک، اسلام آباد آنے کی بھی ہلہ شیری دے رہے ہیں۔

یہ بتاتا چلوں کہ پاشا تحریک انتشار سوشل میڈیا ٹیم کے ایک اہم اہلکار عین اس وقت بھی شکاگو، امریکہ میں موجود ہیں کیونکہ وہ وہاں کے شہری ہیں، وہیں اپنا بزنس چلاتے ہیں اور روابط استعمال کر کے اک ٹھیکہ حاصل کر لیا۔ کیا معلوم کہ وہ اپنا امریکی پاسپورٹ جلا کے کل صبح ڈی چوک پہنچے ہوں۔

مجاہدوں کی دنیا ہی الگ ہوتی ہے ناں!

عمران نیازی تقریباً 70 برس کے پنجابی زبان میں تقریباً ”اوتر نکھتر“ (بالکل فارغ) ہیں۔ آپ ان کے مخالفین کو بھی بچوں کے لندن وغیرہ ہونے کا طعنہ مار سکتے ہیں، مگر ان کے تمام مخالفین کے خاندان، رشتہ دار، احباب اور جڑیں اسی ملک و معاشرے میں ہیں۔ ان کے مامے، چاچے، تائے وغیرہ یہیں ہیں۔ عظیم انقلابیوں کو تو یہ شاید معلوم بھی نہ ہو کہ جب میاں نواز شریف جدہ جلاوطنی پر گئے تو جنرل مشرف کی آمریت نے پیچھے سلمان شہباز کو بطور ضمانت پاکستان میں موجود رکھا تھا۔ جنرل مشرف بھی دس برس لگا رہا، کرپشن وغیرہ کا پروپیگنڈا ہی رہا، نکلا کچھ نہیں جیسے آج کل بیچارہ مقصود چپڑاسی بہت مشہور ہے۔

”نوجوان“ رہنما ایلیٹسٹ ذہن کا حامل اک شخص ہے جو 350 کنال کے ابتدائی طور پر غیرقانونی طریقے سے تعمیر کیے گئے گھر میں رہتا ہے جسے بعد ازاں بابر اعوان نے سپریم کورٹ سے قانونی قرار دلوایا۔ اپنے مخالفین کے برعکس اس کا پاکستان میں کوئی بال بچہ نہیں۔ وہ عین اس وقت ذاتی طور پر بھی ویسے ہی تنہا ہے جیسے سیاسی طور پر تنہا ہے۔ یہ مگر موضوع نہیں۔

سیاسی شکست کو اپنے سامنے دیکھ کر کوئی سیانا رہنما، اپنے اور اپنی جماعت کے لیے مستقبل کے مواقع یقینی بناتا اور اس کے لیے حکمت کا مظاہرہ کرتا۔ ملکی انتظامی اور آئینی اداروں کا مذاق نہ بناتا اور مسلسل محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے پارلیمان کی چلتی ہوئی تاریخ میں اک سیاسی واقعہ کو اپنے سامنے نمودار ہوتے ہوئے دیکھتا اور گنتی میں شکست کی صورت میں، آئین، قانون اور پارلیمان کا احترام کرتے ہوئے باوقار انداز میں رخصت لیتا۔ اپنی جماعت منظم کرتا۔ اپنی غلطیوں سے سیکھتا۔ تھوڑی درون بینی کرتا۔ ناراض اور مخلص ساتھیوں سے روابط بحال کرتا۔ سیاست میں مسلسل ”فیضیابی“ کے مزاج سے نکل کر اپنی سیاست کو فطری ارتقا کے رستے پر ڈالتا۔ اپنی جماعت کے باقی رہنماؤں کے لیے آسانیاں فراہم کرتا اور اپنی آنکھیں بند ہو جانے کے بعد ، پاکستان کی سیاسی وراثت میں اضافہ کیے چلے جاتا۔

70 سالہ ”نوجوان“ نے مگر وہ کیا جو 20 برس کے ”اصلی“ نوجوان کو ہی زیب دے سکتا ہے۔

پاکستان، جیسی بھی ہے اور اس پر میری اپنی تنقید بھی رہتی ہے، اک منظم ریاست ہے۔ اس پر حاوی لوگوں اور اداروں کی ریاست اور لوگوں کے ساتھ جبر، زیادتی، بددیانتی اور دھوکہ دہی کی اپنی تاریخ بھی حقیقت ہے۔ مگر یہ تاریخی حقیقت بھی اس دوسری حقیقت کو نہیں بدل سکتے کہ پاکستان بہرحال اک منظم ریاست ہے جو لکھے ہوئے قانون پر چلتی ہے۔

عظمت کی خبطی تیزابیت میں ڈوبا اک شخص، بس اک حد تک ہی تاریخی جبر کی حقیقت کو اپنے حق میں موڑے رکھ سکتا تھا، مگر تبدیلی کا یہ شور شرابا (الف اضافی ہے ) تقریباً 30 ارب ڈالر کے وہ قرضے ادا کرنے سے قاصر ہے جو پاکستان کو اس سال ادا کرنے ہیں۔ حسن کی انتہا خارجہ پالیسی کے مسلسل نقصانات کا مداوا کرنے سے قاصر ہے۔

اور بھی بہت کچھ ”قاصر“ ہے تو تاریخ کے پہیے میں پاکستانی عوام کے اختلافی شعور کا بھی کمال ہے جس نے طاقتوروں کو نیوٹرل ہونے پر مجبور کر ڈالا۔ نیچے سے اوپر تک کی رپورٹیں جو مرضی ہیں ہوں، طاقتوروں کے حوالے سے عوامی مزاج اس سے بھی کہیں زیادہ بگڑا ہوا ہے جو جنرل مشرف کے دور کے آخر میں تھا جہاں وردی پہن کر عوام میں جانے کی ادارہ جاتی ممانعت تھی۔

تو صاحبو، کل عدم اعتماد ہے۔ جس کی ناکامی کی تاحال کوئی صورت نظر نہیں آ پا رہی۔ پاشا تحریک انتشار کے ”نوجوان“ اگر خرابی پر آمادہ ہو کر امڈے چلیں آئیں گے تو انہیں خبر ہو کہ آبپارہ میں اب ظہیر و فیض موجود نہیں۔ ان کا سامنا اگر پولیس یا رینجرز کی منظم فورس سے ہوا تو انقلابیوں کا بہت کچھ لال ہو گا۔ کل پہلا روزہ بھی ہے۔ گھر میں رہیں گے تو بہتر رہیں گے۔

ریاست اور طاقتور محکمے اس بات سے آگاہ ہیں کہ شور شرابے، دھونس دھاندلی اور دھمکیوں سے اگر لکھے ہوئے قانون پر چلنے سے معذوری دکھائی تو یہ پاکستان کا تماشا تو بنائے گا ہی، خود ریاست اور یہ ادارے خود اک دن اس کا شکار ہوں گے۔ وہ عجب حماقت جو اس ملک پر سراسیمگی کی کیفیت میں مسلط ہے، اس کی خوفناکی وہ نہیں، جو شاید آپ بھی عین اس لمحے محسوس کر رہے ہوں گے۔

کل تھوڑے تناؤ کا اک دن ہے۔ جو بخیر و خوبی گزر جائے گا۔ فسطائیت کے پرنالے سے جان چھوٹ جائے گی۔ اک سیاسی حکومت مگر اس کے بعد بھی ہمارے نشانے پر ہی ہو گی۔
کیونکہ ہم پاکستانی شہری ہیں۔ ہم ہی وارث ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments