کہ رات جب کسی خورشید کوشہید کرے


جرمنی کے سابق ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر اور اس کے چیلے جوزف گوئبلز کے اس قول سے کون واقف نہیں جس نے کہا تھا کہ جھوٹ کو اگر بہت کثرت سے دہرائیں تو وہ سچ بن جاتا ہے۔ اس نے نازی حکومت میں رہتے ہوئے ایسے ہی کیا اور بہت حد تک، چاہے کچھ عرصہ کے لیے ہی سہی، اس میں کامیاب بھی رہا۔ ہم جوزف گوئبلز سے جتنا بھی اختلاف کریں لیکن یہ سچ ہے کہ آمروں کو ہمیشہ ہی ایسے لوگوں کی ضرورت رہی جو جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا آرٹ جانتے ہوں یا کم از کم جھوٹ کو اتنی مرتبہ ضرور دہرائیں کہ لوگوں کو یہ سچ معلوم ہونے لگے۔

کیا کسی کو صدام حسین کا وزیر اطلاعات محمد سعید الصحاف یاد ہے، جو ببانگ دہل یہ اعلان کیا کرتا تھا کہ کافر بغداد کے دروازوں پر سینکڑوں کی تعداد میں خودکشیاں کر رہے ہیں، وہ یہاں ہتھیار ڈالنے اور اپنے ٹینکوں میں جلنے کے لیے آئے ہیں۔ جب بغداد بموں کی شدت سے لرز رہا تھا تو وہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ عراقی عوام کو مخاطب کر کے پوچھتا کہ کیا امریکی کہیں نظر آ رہے ہیں، ہمارے ہوتے وہ یہاں آنے کی جرات نہیں کریں گے۔

اور پھر چشم زدن میں امریکہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اسے تباہی و بربادی کی زندہ مثال بنا دیا۔ تاریخ عالم گوئبلز کے جانشینوں اور سعید الصحاف جیسے بڑھک بازوں سے بھری پڑی ہے۔ گوئبلز ایک سفاک اور ایسی سوچ کا مالک شخص تھا جسے پتہ تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے اور وہ کیا کر رہا ہے، جبکہ الصحاف جب اس نوعیت کے بیانات دے رہا تھا تو اس وقت بھی بین الاقوامی صحافی برادری اس کا مذاق اڑا رہی تھی اور اسی لیے اسے عراق کے وزیر دفاع علی حسن الماجد عرف کیمیکل علی کے ہی مقابلے میں کومیکل علی یعنی مزاحیہ علی کا نام دیا گیا تھا۔

پراپیگنڈا بہرحال پروپیگینڈا ہے۔ شاید اس وقت بھی الصحاف لاکھوں عراقیوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گیا ہو کہ امریکی ڈرپوک ہیں اور وہ ان کی سرزمین پر قدم نہیں رکھیں گے یا اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو عراق ان کے لیے جہنم ثابت ہو گا۔ گوئبلز کو بھی ہٹلر نے کچھ ایسا ہی کام سونپا تھا اور اس نے اپنے آقا کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے فریضہ کو نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا بھی۔ جوزف گوئبلز ایڈولف ہٹلر کے دور میں نازی وزیر برائے پراپیگنڈا تھا جس نے جرمن عوام کو نازی حکومت کی حمایت پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران زیادہ تر جرمن عوام کی حمایت کو برقرار بھی رکھا۔

نازی پروپیگینڈا کے سربراہ کے طور پر اس نے بہت سے جھوٹ تیار کیے جنھوں نے جرمن عوام کے دلوں میں یہودیوں کے خلاف نفرت کو بڑھایا۔ یہ گوئبلز ہی تھا جو جرمنوں سے ہمیشہ یہ کہتا رہا کہ وہ ہٹلر سے اپنی عقیدت کو اور بھی مضبوط بنائیں۔ اس نے برلن میں غیر جرمن کتابوں کو جلانے کا منصوبہ بھی بنایا اور پھر کتابیں جلانے کے اس پروپیگینڈا کو پھیلانے کے لیے موشن پکچرز کا استعمال بھی کیا۔ گوئبلز کئی دوسرے جرمنوں کی طرح جنگ کے مایوس کن نتائج کی وجہ سے قوم پرستی کے جوش میں مبتلا تھا۔

اس کی شخصیت مختلف سانچوں میں ڈھلتی ڈھلتی بالآخر ہٹلر کے نازی خیالات کا منتج بنی اور یہی اس کا عروج اور یہی اس کا زوال تھا۔ گوئبلز نے ہٹلر کی شخصیت کے گرد فیوہرر کی ایک افسانوی تخلیق بنائی جسے پارٹی کی تقریبات اور مظاہروں میں بار بار دہرایا جاتا۔ اس کا بنیادی مقصد لوگوں کو برین واش کرنا تھا تاکہ لوگ نازیوں کو سراہیں اور ہٹلر کو اپنا مسیحا جانیں اور اسی کامیاب پراپیگنڈا پالیسی کے نتیجے میں جرمن عوام کی سوچ نازی ازم میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ اس کی لکھی ہوئی تقاریر عوام میں بہت مقبول ہوتی گئیں جس سے ان کا یہود مخالف جذبہ مزید بڑھ جاتا۔ لیکن ہٹلر اور اس کا چیلا گوئبلز دونوں ہی بزدل اور ڈرپوک ثابت ہوئے جنہوں نے اپنا عبرت ناک انجام دیکھتے ہوئے خود کشی کرلی۔ آج کے ہٹلر اور گوئبلز کا انجام بھی ان سے مختلف نہیں۔

پاکستان میں آمرانہ سوچ رکھنے والے بہت سے ہٹلر اور گوئبلز آئے اور انہی کی طرح اپنے عبرت ناک انجام سے دوچار بھی ہوئے۔ اپنے وقت کا بدترین ڈکٹیٹر ضیاء الحق ایسا ہی بھیانک کردار تھا جس نے نہ صرف جمہوریت پر شب خون مارا بلکہ عوام کے منتخب اور ہردلعزیز لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے سے گریز تک نہ کیا، اپنی پراپیگنڈا مشینری کے ذریعے مذہبی منافرت کی ایسی آگ بھڑکائی جس کے شعلے آج بھی وطن عزیز کے گلی کوچوں میں سلگتے دکھائی دیتے ہیں۔

صرف وہی نہیں اس کی سوچ کے حامل ہر غلیظ کردار نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے مذہبی کارڈ کا گندا کھیل جی بھر کر کھیلا بلکہ آج بھی پاکستانی عوام پر مسلط کردہ ایک کٹھ پتلی حکمران اقتدار کے آخری لمحات تک قوم کو مذہبی انتشار کا شکار بنانے کی مذموم سازشوں میں مصروف ہے اس تلخ حقیقت سے بے خبر کہ اس راستے پر چلنے والوں کا انجام سوائے خود اپنی ہی آگ میں جلنے کے سوا کچھ نہیں نکلا۔

4 اپریل 1979 کی رات پاکستان کے عوام اور پاکستان کی دھرتی پر بہت بھاری تھی جب آمریت کے ہاتھوں جمہوریت کا قتل ہوا۔ بھٹو کا قتل ایک شخص کی موت نہیں بلکہ ہر اس شہید کی حیات جاوداں ہے جن کی قبروں سے آزادی کی خوشبو مہکتی اور جلتے چراغوں کو روشنی ابدیت کو دوام بخشتی ہے۔ ایسا اجالا جس سے جمہوریت کا رستہ کھوٹا کرنے والا ہر گم گشتہ راہرو اپنی اصل منزل حاصل کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 43 برس گزر جانے کے باوجود پاکستانی سیاست کا قبلہ گڑھی خدا بخش ہی ٹھہرتا ہے۔

محسوس یوں ہوتا ہے کہ پاکستان کی قومی تاریخ اپنے نام سے لے کر اپنے عنوانات و تفصیلات تک، سچ کی تلاش ترک کرنے پر تیار نہیں، ایک دانشور نے لکھا تھا شاید 23 برس (اب 43 برس) بعد چیف جسٹس کے ساتھ ساتھ ہماری اداس نسلیں بھی پھانسی گھاٹ پر کھڑے بھٹو کی اس سرگوشی کو پھر سے سن سکیں جو انہوں نے اپنے جلاد کے کان میں کی تھی۔ پلیز فنش اٹ۔ وقت گو آگے بڑھ گیا لیکن پاکستان 4 اپریل 1979 کے تختہ پر رکا ہوا ہے، اور عدل کے غیر متنازع ہونے تک ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ رہا۔ وہ بھٹو جسے وقت کا ہر ہٹلر اور گوئبلز اپنے اپنے ہاتھوں نئی سے نئی قبر میں دفن کرتا رہا، وقت کا کفن پھاڑ کر ان کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے اور با آواز بلند اعلان کرتا ہے۔

”میں نے طبقاتی منافرت نہیں پھیلائی۔ ہاں البتہ مظلوم عوام کا علم یقیناً بلند رکھا اور ان کے حقوق دلانے کے لئے جدوجہد کی۔ میں اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھوں گا جب تک یہ مقدس مقصد حاصل نہیں کر لیتا۔ اگر میری زندگی میں ایسا نہ ہوسکا تو مرتے وقت آخری الفاظ میں اپنے بچوں سے وعدہ لوں گا کہ وہ اس مقصد کی تکمیل کریں۔ میں اسی مقصد کے لئے پیدا ہوا تھا۔ میں نے اس ملک کے ہر غریب ماں باپ کے محروم ہاتھوں میں جنم لیا۔

میں صدیوں سے روتی ہوئی آنکھوں سے آنسو پونچھنے کے لئے ملک کے سیاسی افق پر شہاب ثاقب کی طرح ابھرا۔ میں تاریکیوں کو چھانٹنے اور غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے حضرت علی کی تلوار لے کر آیا۔ مجھے کوئی ترغیب و تحریص عوام کے راستے سے نہیں ہٹا سکتی۔ میں ان کے حقوق کے لئے لڑتا رہوں گا۔ میں انصاف کے حصول کی عظیم جدوجہد میں انہیں قیادت مہیا کرتا رہوں گا۔ میں اپنی آواز کے زور سے ان کی آواز میں زور پیدا کروں گا“ ۔

کوئی دیکھے کہ بھٹو کو مٹانے والے کس کس طرح تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوئے کہ ان کے جانشین تک ان کا نام لینے کے روادار نہیں اور بھٹو کے وارث آج بھی اپنے پیاروں کو اپنے ہی ہاتھوں دفنانے کے باوجود بھٹو ازم کا علم تھامے ہر آمر اور اس کی باقیات کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ وہ پاکستان کے عوام کی عدالت میں سرخرو ہیں اور ان کے سینے چھلنی ہونے کے باوجود فخر و انبساط کے ساتھ تنے ہیں۔ وہ سربلند ہیں کہ ہمیشہ تاریخ کی درست سمت کا تعین انہی کا مرہون منت رہا۔ آصف علی زرداری آج بھی مرد حر ہے اور بلاول مرد میدان۔ وقت کروٹ بدل رہا ہے اور دکھیاری عوام اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے، نئی صبح کے آثار طلوع ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ تاریخ کا فیصلہ ہے اور یہی فیصلہ اٹل ہے۔

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments