ڈاکٹر فیصل خان کی یاد میں


کافکا نے کہا کہ ”آخرکار ہر وہ چیز تم کھو دو گی جس سے تمہیں محبت ہے لیکن محبت ایک مختلف شکل میں واپس آ جائے گی۔“

اکتوبر میں فیس بک پر ڈاکٹر نائلہ خان کے تعزیتی پیغام سے مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر فیصل کا انتقال ہو چکا ہے۔ اوکلاہوما سٹی میں نومبر 2021 کے ایک ویک اینڈ پر شفا کلینک میں رضاکارانہ کام کرنے کے بعد اسپائسز آف انڈیا کے سامنے گاڑی روکی۔ جب میں باہر نکلی تو ایک لمحے کے لیے مجھے جھٹکا سا لگا جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ ڈاکٹر فیصل کی وفات ہو چکی تھی۔ ان کے بھائی ڈاکٹر فرحان خان اپنے ماں باپ کے ساتھ وہاں خریداری کے لیے پہنچے تھے اور ان کو گاڑی سے باہر نکلنے میں مدد کر رہے تھے۔

دونوں بھائیوں کی شکل اتنی ملتی تھی کہ جیسے جڑواں ہوں۔ ڈاکٹر فیصل خان کے والدین سے اس سے پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اگر وہ ڈاکٹر فرحان خان کے ساتھ نہ ہوتے تو مجھے یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کون ہیں۔ یہ لوگ کشمیر سے کچھ ہفتوں کے لیے آئے ہوئے تھے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ تعزیت کی اتنی مشکل بات ان سے کیسے کی جائے گی؟ میں نے ان سے کہا کہ ڈاکٹر فیصل خان ایک بہت اچھے انسان تھے اور ان کی وفات کا مجھے بہت افسوس ہے۔ وہ دونوں انتہائی اداس لگ رہے تھے لیکن انہوں نے تعزیت کے لیے شکریہ کیا۔

یہ اوکلاہوما کے علاقائی افراد، امریکہ میں بسے ہوئے دیسی مہاجرین اور کشمیر میں دوستوں اور رشتہ داروں سبھی کے لیے ایک چونکا دینے والی صدمے کی خبر تھی کہ ڈاکٹر فیصل کی وفات ہو چکی ہے۔ چودہ جنوری 2022 پر اگر ڈاکٹر فیصل خان اس بدقسمت حادثے کا شکار نہ ہوئے ہوتے تو یہ ان کی تریپنویں سالگرہ ہوتی۔ دو اکتوبر کو وہ ریچھ کا شکار کرنے کے لیے جنگل میں گئے ہوئے تھے جہاں تیر ان کی ران میں غلطی سے لگ گیا۔ جب ان کے ساتھی شکاری وہاں پہنچے تو ڈاکٹر فیصل خان جان بحق ہوچکے تھے۔

ڈاکٹر فیصل اچھی صحت میں تھے اور اوکلاہوما سٹی میں ایک کامیاب رہیوماٹولوجی کی پریکٹس چلا رہے تھے۔ کشمیر کے خراب حالات میں بچپن گزارنا، پڑھائی مکمل کرنا، اس کے بعد سارے امریکی امتحان دے کر ریزیڈنسی اور فیلوشپ ختم کر کے اپنی پریکٹس چلانا کچھ آسان کام نہیں ہے۔ یہ وقت تھا جب ڈاکٹر فیصل اپنی ساری زندگی کی محنت کا پھل کھاتے۔ یہ سانحہ ہمیں اس بات کی یاددہانی کرواتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کے ہر دن کو ایک تحفے کی طرح برتنے کی ضرورت ہے۔

میری ڈاکٹر فیصل خان سے آخری بار مئی 2021 میں ان کے گھر ملاقات ہوئی تھی جب نائلہ نے کچھ دوستوں کو رات کے کھانے کے لیے بلایا تھا۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے بہت وقت کے بعد اس سماجی سرگرمی میں حصہ لینے سے بہت اچھا محسوس ہوا تھا۔ شاعروں اور ادیبوں سے ملاقات ہوئی۔ مہمانوں میں ایک بوڑھے قانون کے پروفیسر بھی تھے جن کی بیگم کو میں کئی سالوں سے جانتی ہوں۔ وہ ہمارے انٹرفیتھ گروپ کی ایک سرگرم ممبر تھیں۔ انٹرفیتھ میٹنگ میں کچھ عرصے بعد میں نے جانا چھوڑ دیا تھا۔ کچھ مصروفیت اور کچھ فیتھ کی کمی کی وجہ سے۔

قانون کے پروفیسر بہت لبرل ہیں اور جو اور جیسے دل چاہتا ہے وہ پڑھاتے ہیں۔ شمالی امریکہ کو بلا جھجک چرائی ہوئی زمین بولتے ہیں۔ بوڑھے پروفیسر جوان پروفیسروں کی طرح ڈر اور خوف میں نہیں رہتے۔ جو دل میں آئے کہہ جاتے ہیں۔ ان کو اپنے کیریر کا، نوکری جانے کا کچھ خوف نہیں ہوتا۔ اس عمر میں ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

ڈاکٹر فیصل نے ہمیں فخر سے اپنے شکار کیے ہوئے جانوروں کے سر دکھائے جو دیواروں پر لگے ہوئے تھے۔ ان کو شکار کا بہت شوق تھا اور وہ اوکلاہوما کے تقریباً تمام علاقوں میں شکار کرچکے تھے اور مجھے خود تفریح کے لیے جانوروں کے شکار میں کچھ دلچسپی نہیں۔ ہم سب سوئمنگ پول کے پاس کھڑے تھے۔ ڈاکٹر فیصل خان اور ان کے بھائی ڈاکٹر فرحان خان نے سگریٹ سلگایا۔ آپ دونوں ڈاکٹر ہو کر سگریٹ پی رہے ہیں؟ ہاں ایسے ہی کبھی کبھار پی لیتے ہیں عادت نہیں ہے، ڈاکٹر فیصل نے کہا۔

رات بہت زیادہ ہو چکی تھی اور اتنا کھا پی لینے کے بعد شاید میرا دماغ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تھا۔ میں نے بھی کچھ سوچے بغیر ایک سگریٹ لے لی۔ سوئمنگ پول کے کنارے کھڑے ہوئے رات کو تین ڈاکٹر سگریٹ پی رہے تھے اور یقیناً اس وقت ہم سے زیادہ دنیا میں اور بے وقوف کوئی نہیں لگ سکتا ہو گا۔ سگریٹ سے میرے سینے اور حلق میں شدید جلن محسوس ہوئی لیکن میں نے کھانسنے کے بجائے سانس روک لیا۔ اس سے یقیناً میرا امپریشن کسی پرانی انڈین فلم کی نیک پروین کی طرح ہوجاتا اور وہ میں بالکل نہیں چاہتی تھی۔

اس بات کو یاد کر کے میں ابھی تک ہنستی ہوں لیکن یہ میری ڈاکٹر فیصل خان سے آخری ملاقات تھی جو میں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔ مجھے یاد ہے کہ ہم سب خوش گپیاں کر رہے تھے۔ میڈیکل کالج کے دنوں کے بارے میں، بچوں کے بارے میں، مریضوں کے بارے میں۔ ڈاکٹر فیصل ایک بہت اچھے باپ تھے جن کی کمی ان کی بیٹی ہمیشہ محسوس کرے گی۔ ان کی اپنی بیٹی سے محبت ان کی باتوں اور رویے سے جھلکتی تھی۔ ہم لڑکے نہیں بناتے صرف لڑکیاں بناتے ہیں، انہوں نے مزاح میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ان کی ایک بیٹی ہے اور ان کے بھائی کی دو بیٹیاں ہیں۔ ڈاکٹر فیصل نے اپنے بھائی کے لیے کہا کہ مریض میرے بھائی کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ وہ میں ہوں۔ جی میرے سامنے بھی آپ دونوں اکٹھے کھڑے نہ ہوتے تو شاید مجھے بھی معلوم نہیں ہو پاتا، میں نے ان سے کہا۔

ڈاکٹر خان اور میرے کئی مشترکہ مریض تھے۔ اگر کسی مریض کی اینڈوکرنالوجی سے متعلق بیماریوں کے بارے میں کوئی سوال ہوتا تو وہ مجھ سے ٹیکسٹ کر کے پوچھ لیتے تھے۔ خاص طور پر تھائرائڈ اور ذیابیطس کے کیسز کے لیے لکھتے تھے ”ڈی او سی“ ڈاک (جو کہ ڈاکٹر کا دوستانہ مخفف ہے ) اس کیس میں کیا کرنا ہے؟ ڈاکٹر فیصل ایک بہت اچھے انسان تھے، ان کی طبعیت دوستانہ تھی اور وہ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ وہ ایک کھلے ذہن اور کشادہ دل کے مالک تھے۔

ڈاکٹر خان نے مجھے کلینک چلانے کے لیے اچھے مشورے دیے۔ ایک مرتبہ میں نے ذکر کیا کہ اتنے سالوں تک سارا دن ٹائپنگ کرنے سے میرے دونوں ہاتھوں میں کارپل ٹنل سنڈروم ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر فیصل خان نے مجھے مشورہ دیا کہ آٹومیٹک ڈکٹیشن کرنے والا آلہ استعمال کروں جس سے آپ جو بھی بولیں وہ لکھتا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مریض آپ کے ساتھ ہو، تبھی ان کے سامنے ان کا نوٹ لکھنے سے مریضوں کو بھی موقع ملتا ہے کہ اگر وہ کچھ مزید شامل کرنا یا درست کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ اس طرح آپ کے نوٹس وقت پر مکمل بھی ہوجائیں گے۔ اس مشورے پر عمل کرنے سے میری زندگی آسان ہو گئی۔ آج تک کبھی کبھار جب میں اپنے نوٹس مکمل کروں تو میرے ذہن میں سے یہ بات گزرتی ہے۔ 2018 میں جب میں نے انٹرنل میڈیسن کا امتحان دینا تھا تو ڈاکٹر خان نے مجھے اپنی انٹرنل میڈیسن کی بورڈ رویو کی کتابیں مستعار دی تھیں۔ یہ کتابیں میں نے امتحان دینے کے بعد ان کو واپس کردی تھیں۔ انہوں نے مجھے اپنا اوکلاہوما سٹی میں موجود کلینک فخر اور خوشی سے دکھایا تھا جہاں میں ان کے اسٹاف سے ملی۔

امریکہ میں اپنا کلینک بنانا اور اس پیچیدہ نظام میں اس کو چلانا آسان کام نہیں ہے اسی لیے میں نے خود بھی ہسپتال کے لیے کام کرنے کو ترجیح دی۔ 80 فیصد ڈاکٹر پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ہسپتالوں کے لیے ہی کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ خان سے بھی میری کئی سال سے دوستی ہے۔ حالانکہ ہماری عمروں میں زیادہ فرق نہیں لیکن پروفیسر ہونے کی وجہ سے میں ان کو ایک ٹیچر کی طرح دیکھتی ہوں اور میرے دل میں ان کے لیے عزت ہے۔ ان دونوں میاں بیوی سے میری الگ الگ دوستی تھی۔ ڈاکٹر فیصل خان کی افسوسناک وفات کے بعد یہ میرے لیے ذاتی طور پر دہرا صدمہ تھا۔ ایک طرف ایک اچھے دوست اور کولیگ ڈاکٹر کی اس حادثے میں موت اور دوسری طرف اپنی ایک اچھی دوست کے لیے افسوس جن کے 26 سال کے ساتھی شوہر کی بے وقت وفات ہوئی۔

دکھ انسانی زندگی اور تجربات کا حصہ ہے۔ اور اپنی کمزوری دوسرے انسانوں کے ساتھ بانٹنے سے قریبی تعلقات بنانے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم کسی صدمے اور اداسی کا سامنا کریں تو زندگی سے دستبردار تک ہونے کی خواہش محسوس کر سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سب سے کٹ کر الگ تھلگ ہوجائیں تو ہم محفوظ ہوجائیں گے لیکن اس مشکل وقت کے دوران ہمارا اپنے دوستوں کے قریب ہونا ضروری ہے جو ہماری سب سے زیادہ پروا کرتے ہیں۔ ہماری بہترین معلومات کے باوجود ہم کبھی نہیں جانتے کہ کب کسی اور کا تجربہ یا نقطہ نظر ہمیں اضافی معلومات دے سکتا ہے جس کی ہمیں ضرورت ہو۔ کائنات ہم سے کئی ذرائع سے بات کرتی ہے اور جب ہم کے پیغامات وصول کرنے کی خود کو اجازت دیتے ہیں تو ہمیں زندگی کے سفر میں اپنے اردگرد کے افراد سے وہ طاقت ملتی ہے جس کی ہمیں مشکل وقت سے گزرنے کے لیے ضرورت تھی۔

” خدا کہاں ہے؟“ ایک دن نائلہ نے مجھ سے پوچھا۔ آپ خود خدا ہیں! ہم سب خود ہی خدا ہیں۔ میں نے ان کو جواب دیا۔ جو بھی کچھ آپ اپنی زندگی کے لیے اور اپنی دنیا کے لیے چاہتی ہیں وہ سب کچھ کرنا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے اور وہ آپ کو خود ہی کرنا ہو گا۔ کائنات آپ سے دیگر انسانوں کے ذریعے بات کر رہی ہے اور ان سے آپ کے ذریعے۔

نائلہ ایک باہمت خاتون ہیں۔ اس وقت وہ اپنے سارے خاندان اور معاملات کو خود سنبھال رہی ہیں۔ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ میرا یہ یقین مزید پختہ ہوجاتا ہے کہ خواتین کا تعلیم یافتہ اور خود مختار ہونا نہایت اہم ہے۔ جب ہمارے گرد سب کچھ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر رہا ہو تو اپنے دو قدموں پر جمے رہنا اور اپنے اور اپنی اولاد کے لیے مضبوط رہنا دن کے آخر میں ہم پر ہی منحصر ہے۔ دنیا میں اور کسی پر کبھی مکمل بھروسا نہیں کر سکتے۔

ہر شخص کے اپنے نفسیاتی، سماجی اور معاشی مسائل ہیں۔ نائلہ کی ایک ہی بچی ہے جو کالج چلی جائے گی۔ یہ بچے جہاں چاہیں پڑھنے اور کام کرنے کے لیے جا سکتے ہیں۔ ہم ان کو اپنی خاطر قابو میں رکھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ میری بیٹی گرمیوں کی چھٹیوں میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک کورس کرنے جا رہی ہے جس کے لیے اس کو اوکلاہوما کی یونیورسٹی نے اسکالرشپ دیا ہے۔ یہ بچے اپنی زندگیوں میں نئے چیلنجوں کا سامنا کریں گے۔ جو بھی باتیں ہم بچپن میں نہیں سیکھتے وہ بڑے ہو کر سیکھنی پڑتی ہیں۔ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ زندگی ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی اور ہمیں اس کے ساتھ چلتے رہنا ہوتا ہے۔ ہر وہ چیز جس سے ہمیں محبت ہے، ہم کھو دیں گے لیکن محبت ایک نئی شکل میں واپس آ جائے گی۔

Ram Dass — ’We‘ re all just walking each other home. ’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).